مبہم بیانات کسی فریق کے مفاد میں نہیں

ہفتہ وار تبصرہ چونکہ افغان مسئلے کے حل کی غرض سے مذاکراتی عمل ایک نازک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دوحہ معاہدے کی رو سے بیرونی فوجوں کو عنقریب افغانستان سے نکلنا چاہیے، دوسری طرف ریاستہائے متحدہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے حکام نے افغان مسئلے سے متعلق متضاد اور مبہم بیانات داغنے شروع […]

ہفتہ وار تبصرہ
چونکہ افغان مسئلے کے حل کی غرض سے مذاکراتی عمل ایک نازک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دوحہ معاہدے کی رو سے بیرونی فوجوں کو عنقریب افغانستان سے نکلنا چاہیے، دوسری طرف ریاستہائے متحدہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے حکام نے افغان مسئلے سے متعلق متضاد اور مبہم بیانات داغنے شروع کیے ہے۔
جوبائیڈن کی قیادت میں وائٹ ہاؤس کے نئے عہدیدار ایک جانب دوحہ معاہدے پر وابستگی کا اظہار کررہا ہے، دوسری طرف کبھی کبھار ایسے بیانات جاری کرتے ہیں، جو افغانستان کے بارے میں ان کے مؤقف کے عدم اظہار اور ہچکٹاہٹ پر دلالت کررہا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ افغان مسئلے کا راہ حل اب ابہام اور غیر یقینی صورتحال کے دائرے سے نکل چکا ہے۔ امریکی فریق کیساتھ طویل مذاکرات،اس کے بعد دوحہ معاہدہ اور اس سے بین الاقوامی جامع حمایت نے افغان مسئلے کے حل کو واضح کردیا۔ معاہدے کی رو سے دونوں فریقین کی ذمہ داریوں کو واضح اور اس کی نشاندہی کی گئی ہے،جن پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اگر اس معاہدےسے وابستگی اور مسئلے کے حل کے متعلق حقیقی ارادہ موجود ہو، تو ایسی کوئی چیزباقی نہیں رہیگی، جو ابہام اور الجھن کا سبب بن جائے۔
دراصل امریکی فریق کے لیے ابہام اور تعطل کا حالت دوحہ معاہدے سے قبل جنگی صورتحال تھی، کیونکہ افغانستان میں اس کی فوجی کامیابی کا تصور تھا اور نہ ہی پسپائی کے لیے کوئی آبرومند راستہ تھا۔ امریکی فوجیں سالوں تک ایسی جنگ میں الجھ رہیں،جس کے لیے وائٹ ہاؤس کے پاس ایسا تعارف نہیں تھا، جس سے امریکی عوام کو مطمئن کریں۔اب اس جنگ کے اختتام کا طریقہ واضح ہوچکا ہے اور اس راہ میں گذشتہ ایک سال سے اہم اور قابل ذکر اقدامات اٹھائے گئے ہیں، لہذا وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کو ابہام اور ہچکٹاہٹ کے حالت سے نکلنا چاہیے اور پوری حقیقت و سچائی سے مسائل کے حل کی جانب قدم بڑھائے۔
مزید یہ کہ واضح مسائل کے بارے میں مبہم بیانات جاری کرنے سے عدم اعتماد اور موجودہ موقع کو ضائع کرنے کے علاوہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔جس طرح افغانستان کی جارحیت اور جنگ کا تسلسل کسی کے مفاد میں نہیں ہے،اسی طرح وہ بیانات جو مسئلے کے حل کے موقع کو ضائع اور عدم اعتماد کو جنم دیتا ہو، وہ بھی کسی فریق کے مفاد میں نہیں ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان نے ہمیشہ اپنے مؤقف کا واضح الفاظ میں اعلان کیا،ایک بار پھر اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ افغان مسئلہ جس طرح گذشتہ 19 برسوں میں بیرونی افواج کی موجودگی کی توسیع میں حل نہ ہوا،اس کے بعد بھی حل نہیں ہوگا۔ مسئلے کے حل کا سب سے معقول راہ وہی افہام تفہیم کا پرامن طریقہ ہے،جس پر دوحہ میں معاہدہ ہوا تھا۔ اب وقت آں پہنچا ہے کہ اس معاہدے کو تحریری شکل سے عملی میدان میں لایا جائے اور اس کے لفظ لفظ پر عمل درآمد کیا جائے، اس کے علاوہ باقی تمام طریقے بحران میں توسیع کے معنی میں ہے۔