مجاہدین کی اقدامی کارروائیاں!

آج کی بات:   عمری آپریشن کے دوران افغانستان کے طول و عرض میں کابل کی کٹھ  پتلی انتظامیہ اور ان کے غیرملکی آقاوں کو شرم ناک شکست کا سامنا ہے۔ دشمن تمام تر فوجی، مالی اور لاجسٹک وسائل کے باوجود بہ یک وقت مجاہدین کے خلاف کئی محاذوں پر لڑنے سے قاصر ہے، لیکن […]

آج کی بات:

 

عمری آپریشن کے دوران افغانستان کے طول و عرض میں کابل کی کٹھ  پتلی انتظامیہ اور ان کے غیرملکی آقاوں کو شرم ناک شکست کا سامنا ہے۔ دشمن تمام تر فوجی، مالی اور لاجسٹک وسائل کے باوجود بہ یک وقت مجاہدین کے خلاف کئی محاذوں پر لڑنے سے قاصر ہے، لیکن امارت اسلامیہ کے مجاہدین بہ یک وقت افغانستان کے مختلف علاقوں میں دشمن کے خلاف تباہ کن کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بدخشان، تخار، قندوز اور بغلان میں مجاہدین  بہت ہی وسیع علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر چکے ہیں۔ کئی سالوں سے دیہاتی علاقوں میں موجود دشمن کو مار بھگایا ہے۔ دشمن نے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے لیے کئی مرتبہ زمینی اور فضائی آپریشن کیے، لیکن کامیابی نہیں ملی اور ہر مرتبہ ہزیمت اور شکست ان کا مقدر بنی ہے۔

فاریاب، سرپل، جوزجان اور بادغیس میں مسلسل طور پر جنرل دوستم کی رہنمائی میں گلم جم ملیشیا کو بھی کئی مرتبہ  شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ ان کے کئی مسلح جنگجو ہلاک و زخمی ہوئے اور آخر کار وہ بھی علاقے سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔

ننگرہار، کنڑ، لغمان اور نورستان میں مجاہدین نے دشمن کے کئی مضبوط مراکز اور فوجی چوکیوں پر قبضہ کر کے وہاں امن و آشتی کا سفید پر چم لہرا دیا ہے۔

پکتیا، پکتیکا اور خوست میں بھی مجاہدین نے دشمن کے دانت کھٹےکر دیے ہیں۔ غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کے کاسہ لیس غلام  وحشی اہل کاروں  کے بڑے فوجی بیس مجاہدین کی استشہادی کارروائیوں کا نشانہ بنے ہیں، جس میں دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصانات اتھانا پڑے ہیں۔

لوگر، کابل، میدان وردگ اور غزنی میں دشمن کے کئی بڑے کمانڈر اور ظالم  ملیشیا کے کئی اہل کار ہلاک کیے گئے اور غیرملکی جارحیت پسندوں  کے بڑے اڈوں، ہوٹلوں اور خفیہ مراکز پر تکنیکی اعتبار سے نہایت ہی منظم حملے کیے گئے، جن میں دشمن نے سیکڑوں اہل کاروں کے موت کا اعتراف بھی کیا ہے۔

زابل، قندھار، ہلمند اور روزگان میں  بہت سے علاقوں سے دشمن کا صفایا ہو چکا ہے۔ عوام ان کے شر سے محفوظ ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ہلمند اور روزگان  کے اکثر علاقوں پر مجاہدین کا کنٹرول ہے اور لوگ امن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ دشمن صرف کچھ اضلاع کے مراکز میں موجود ہے۔ آس پاس کے تمام علاقے مجاہدین  کے قبضے میں ہیں۔ ہلمند میں تو امریکا کے زرخرید غلام  پہلے ہی شکست کھا چکے ہیں۔ یہاں تک کا صوبائی صدر مقام لشکرگاہ بھی محاصرے میں ہے۔ اس وقت مجاہدین صرف  اپنے امیر کے حکم کے منتظر ہیں اور جیسے ہی مجاہدین کو حکم ملے گا تو لشکرگاہ  سے بہت جلد امریکی کٹھ پتلیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

فراہ، ہرات، نیمروز اور غور میں مجاہدین کے زیرقبضہ بہت سے وہ علاقے ہیں، جہاں اس سے قبل دشمن کے مراکز موجود تھے۔

مجاہدین مذکورہ محاذوں پر بہت دلیرانہ طور پر داد شجاعت دے رہےہیں اور بہ یک وقت کئی محاذوں پر دشمن کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ عوام کو شریعت کی منور فضاؤں میں زندگی گزارنے کی سہولت مہیا کی ہے۔ لوگ بلاخوف و خطر مجاہدین کے زیرقبضہ علاقوں میں تجارتی اور زراعتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

جنگ میں شریک دونوں فریقوں میں سے اقدامی کارروائی جو فریق بھی کرے، وہی غالب اور کامیاب ہے۔ جب کہ اس کا مخالف مغلوب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مجاہد عوام کی حمایت کی برکت سے اب جنگ میں مجاہدین کی تمام کارروائیاں اقدامی ہیں۔ جس وقت اور جس جگہ چاہیں، اسی وقت اور اسی جگہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ دارالحکومت کابل جیسے سخت سکیورٹی زون میں بھی اپنے اہداف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتےہیں، لیکن دشمن اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتا۔