مدرسے پر چھاپہ اور کلینک پر بمباری

ہفتہ وار تبصرہ کابل انتظامیہ کی اینٹلی جنس فورسز نے 11 مارچ 2021ء کو صوبہ ننگرہار ضلع خوگیانی میں ایک مدرسے پر چھاپہ مارا،  مدرسہ کے طلبہ کو  گہرے نیند سے بیدار کیا، ان کے ہاتھ باندھ دیے اور قرآن کریم کے 10 حفاظ کرام کو نہایت بےدردی سے گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا۔ […]

ہفتہ وار تبصرہ

کابل انتظامیہ کی اینٹلی جنس فورسز نے 11 مارچ 2021ء کو صوبہ ننگرہار ضلع خوگیانی میں ایک مدرسے پر چھاپہ مارا،  مدرسہ کے طلبہ کو  گہرے نیند سے بیدار کیا، ان کے ہاتھ باندھ دیے اور قرآن کریم کے 10 حفاظ کرام کو نہایت بےدردی سے گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا۔ ننگرہار میں دینی تعلیمی مرکز پر حملے اور نوجوان حفاظ کرام کی شہادت نے وسیع پیمانے پر عوامی غم و غصہ کو جنم دیا۔ اس حملے کو نہ صرف جنگی جرم سمجھا گیا، بلکہ افغان عوام کے مقدسات اور دینی شعائر سے صریح دشمنی کی مثال بھی رہا ۔

ننگرہار کی وحشت سے ہفتہ نہیں گزراتھاکہ ملک کے شمال صوبہ فاریاب ضلع المار میں کٹھ پتلی انتظامیہ کی فضائیہ نے صحت کے مرکز یا کلینک  پر بمباری کی۔ اس کلینک میں 14 مرد  اور 9 خواتین کا عملہ تھا اور سہولیات سے آراستہ  علاقے کا واحد کلینک تھا،جس سے عوام کی ضروریات پوری ہوتی۔ نہایت وحشت سے اس پر بمباری کی گئی، اس کی عمارت منہدم اور بڑے پیمانے مالی نقصان سے روبر ہوا ۔

ننگرہار سانحہ کے مانند فاریاب کلینک پر بمباری کے بارے میں اب تک میڈیا اور بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں۔  مگر یہ خاموشی کسی صورت میں بھی ان مظالم او رجرائم کے ماہیت کو بدل نہیں سکتا۔ علاوہ ازیں ایسی خاموشی مذکورہ تنظیموں کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشانہ لگاتا ہے اور اس کے اعتماد کو ختم کرتا ہے۔

ہم ایک بار پھر دنیا اور ہموطنوں  پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ  اجنبی کے اسلحہ، پیسہ اور نام نہاد فیصلہ کن حمایت کی قوت سے ہمارے ملک پر مسلط کردہ انتظامیہ وحشت، تباہی اور قتل کی وہ مشین ہے،جو  جان بوجھ کر نوجوانوں، خواتین، بچوں  ، بوڑھوں اور یہاں تک تعلیمی اداروں کے طالبہ کا بےدریغ قتل عام کررہا ہے۔بازار، مساجد، ہسپتال اور مدارس کو تباہ کرتے ہوئےکسی قسم کے ظلم و ستم سے باز نہیں آتے۔

یہ ظلم اور وحشت کی ارتکاب کرنے والی انتظامیہ مذاکرات اور افہام وتفہیم کے عمل میں خود افغانستان کی قانونی حکومت سمجھتی ہے، کسی صورت میں بھی اس کے اس دعوے کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حکومت اپنی قوم کے جان و مال کی محافظ ہوتی ہے۔ اس حال میں کہ کابل انتظامیہ اپنی بقاء عوام کے قتل اور لوٹنے میں تلاش کررہی ہے اور نہتے شہریوں کو اندوہناک طریقے سے نیست و نابود کررہے ہیں۔  عوام پر مظالم اور قومی بنیادوں کی تباہی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ کابل انتظامیہ کا ملک اور قوم سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ ایک مسلط شدہ اور بیرون سے درآمدہ شدہ رجحان ہے، جو اجنبی مفادات کے لیے افغانوں کو قتل کررہا ہے۔

امارت اسلامیہ نے ہمیشہ اپنی مؤمن قوم کی مظلومیت کی صدا بلند کی ہے، حالیہ سانحات کے حوالے سے بھی خود کو قوم کے درد میں شریک سمجھتی ہے۔ قوم کے تحفظ، دفاع اور فریاد پر   لبیک کہنے کو اپنی بنیادی فریضہ سمجھتی ہے۔ اپنی قوم کو تسلی دیتی ہے کہ تمہارے خون کبھی بھی ضائع نہیں ہوں گے۔ ظالم استعمار اور اس کے کٹھ پتلی اس طرح اعمال سے صرف اپنی تباہی کو قریب تر لا رہی ہے۔ کیونکہ ظالم کی بقاء نہیں ہوتی اور ظالموں کا انجام ہمیشہ تباہی اور ہلاکت ہے۔