مذاکراتی پروپیگنڈا؛ دشمن بے بس ہے!

آج کی بات: گزشتہ چند دنوں سے مغربی میڈیا  پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ مجاہدین نے کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔ اس کے لیے مختلف جگہوں پر ان کے درمیان خفیہ بات چیت ہوئی ہے۔ یہ تمام افواہیں اور پروپیگنڈے مجاہدین کی میدان جنگ […]

آج کی بات:

گزشتہ چند دنوں سے مغربی میڈیا  پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ مجاہدین نے کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔ اس کے لیے مختلف جگہوں پر ان کے درمیان خفیہ بات چیت ہوئی ہے۔

یہ تمام افواہیں اور پروپیگنڈے مجاہدین کی میدان جنگ سے توجہ ہٹانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان پروپیگنڈوں کے پسِ پردہ دشمن کے دو اہداف ہیں۔

پہلا یہ کہ گزشتہ پندرہ سال سے امریکی جارحیت پسندوں اور ان کے اتحادی افغانستان میں ہر قسم کا جنگی حربہ استعمال کر چکے ہیں۔ مجاہدین کے خلاف حالیہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی انہی  جنگی حربوں میں سے ایک ہے۔

دوسرا ہدف یہ ہے کہ اس وقت چوں کہ مجاہدین غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے خلاف حیران کن فتوحات حاصل کر رہے ہیں۔ افغانستان کے اہم اور تزویراتی اہمیت کے حامل صوبوں  کے مراکز مجاہدین کے محاصرے میں آگئے ہیں۔ دشمن کے سیکڑوں اہل کار مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ درجنوں اضلاع مجاہدین کے قبضے میں ہیں۔ عوام حکومتی اہل کاروں سے بے زار ہو کر مجاہدین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ اب کفار کی کٹھ پتلیاں مجاہدین کا مزید سامنا نہیں کر سکیں گی۔ حکومت کے درمیان باہمی اختلافات شدت اِختیار کر گئے ہیں۔ حکمران طبقہ آپس میں دست و گریبان ہے۔ گلم جم ملیشیا کے خون خوار کمانڈر دوستم کے اشرف غنی پر اعتراضات اس کی واضح مثال ہے۔ قومی اور علاقائی تعصبات عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ غیرملکی جارحیت پسند فوج کے جنرلز اپنی تربیت یافتہ کٹھ پتلیوں سے بالکل مایوس ہو چکے ہیں۔  کاسہ لیس حکومت کے اعلیٰ و ادنیٰ حکام کرپشن میں افغانستان کو دنیا کا دوسرا مقام دِلا چکے ہیں۔ چوری، ڈکیتی اوراغوا برائے تاوان میں حکومتی گروہ ملوث پائے گئے ہیں۔

یہ تمام تر ناکامیاں اور مایوسیاں، جن سے کابل کی کٹھ پتلیاں دو چار ہیں۔ اِن سے غیرملکی جارحیت پسند قوتیں بھی شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنی اُس  16 سالہ جدوجہد  کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، جس میں ان کے ہزاروں فوجی اور اربوں ڈالر ضایع ہوئے ہیں۔ اپنی کٹھ پتلیوں کو بھی مجاہدین کے حملوں سے بچانا چاہتے ہیں، تاکہ شکست خوردہ افغان فوج میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کی قوت پیدا ہو سکے۔

اسی لیے کفریہ قوتوں نے اپنے زرخرید دجالی میڈیا کو یہ کام سونپ دیا ہےکہ وہ مجاہدین کے بارے میں ایسی افواہوں اور پروپیگنڈوں پر زور دیں، جن کا مجاہدین کی کارروائیوں پر منفی اثر مرتب ہو۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین مذاکرات کرنا چاہ رہے ہوں یا جنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑے، دونوں صورتوں میں اسلامی قوانین کی پاس داری کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ اپنا ہر کام  علی الاعلان کرتے ہیں۔ وہ اپنے منصفانہ مؤقف پر کسی کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

امارت اسلامیہ کا یہ مؤقف ڈنکے کی چوٹ پر بیان ہو چکا ہے کہ جب تک جہاد کے اصل اہداف حاصل نہیں ہو جاتے، تب تک مجاہدین کی ہماری مسلح جدوجہد جاری رہے گی۔