مرحوم وزیراعظم ملامحمدربانی رحمہ اللہ

تعارف:مرحوم وزیراعظم ملا محمد ربانی الحاج ملا امیر محمد کے بیٹے اور نیک محمد کے پوتے تھے۔1336ہجری شمسی میں صوبہ قندھار کے مرکز کے ایک نیک اور مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔مرحوم ملا محمد ربانی کے والد صاحب صوبہ قندھارکے نامور عالم، فاضل اور متقی شخص تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تما […]

تعارف:مرحوم وزیراعظم ملا محمد ربانی الحاج ملا امیر محمد کے بیٹے اور نیک محمد کے پوتے تھے۔1336ہجری شمسی میں صوبہ قندھار کے مرکز کے ایک نیک اور مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔مرحوم ملا محمد ربانی کے والد صاحب صوبہ قندھارکے نامور عالم، فاضل اور متقی شخص تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تما م اولا دخاص کرملا محمد ربانی کی علمی اورعملی تربیت کا خاص اہتمام فرمایا۔

تعلیم:

چونکہ ملا محمد ربانی کو اللہ تعالیٰ نے لیاقت ،ذہانت اور علمی استعداد سے نوازا تھا،اس لئے ان کے والد صاحب نے بھی ان کو دینی علوم کے حصول کے لئے مدرسے میں داخل کرا دیا۔مرحوم ملا محمد ربانی نے زیادہ تردینی تعلیم امارت اسلامیہ کے مفتی اعظم ، شیخ الحدیث و التفسیرعبد العالی دیوبندی ؒ کے زیر تربیت حاصل کیں۔عام طور پر افغانستان میں دینی علوم کا حصول سرکار ی اور رسمی (رجسٹرڈ)مدارس میں نہیں کیا جاتا بلکہ ملک کے نامور علماءکے زیرنگرانی ان کی اپنی مساجد میں طلبہ کی خاص تعداد کو مروجہ دینی اور شرعی علوم سکھائے جاتے ہیں۔

ان مروجہ علوم میں صرف،نحو، منطق، ریاضی، ادب، معانی، فقہ،اصول فقہ،علم التفسیر اور علم الحدیث شامل ہیں۔یہ تعلیمی سلسہ تقریبا 202 ہجری سے پوری دنیا اور خاص طور پر خراسان کے نامور اور عظیم علماءمثلا ابو داؤد السجستانی،شیخ الاسلام محمد بن محمد بن بکر الخلمی اور امام ابو اللیث السمرقندی ؒ سے افغانستان کو ورثے میں ملا ہے۔اگر چہ یہ تعلیمی سلسلہ مسلسل حکومت اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے نظر انداز کیا گیا لیکن الحمد للہ متدین عوام کی معاونت سے یہ سلسلہ افغانستان میں دینی علوم کی ترویج اور تاریخ افغانستان میں جہاد کی قیادت اور جہاد کو زندہ رکھنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔مثلا377 ھجری میں سلطان محمود غزنوی نے انہی علماءکی رہنمائی میں ہند کو فتح کیا۔559ھجری میں جب سلطان شہاب الدین غوری افغانستان میں بیٹھ کرہند کی آدھی خشکی پر حاکم تھا تو یہی علماءحکومتِ وقت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔اسی طرح جب موجودہ افغانستان کے مؤسس احمد شاہ ابدالی نے1160ہجری میں مسلمانانِ ہند کی مدد کے لئے فوج ہندوستان روانہ کی ، تب بھی علماءاس عمل میں پیش پیش تھے۔افغانستان پر انگریز، روس اور امریکہ کے حملے کے وقت بھی مجاہدین کی راہنمائی انہی باعمل مجاہدین علمائے کرام نے کی۔

جہادو قتال:

مرحوم ملا محمد ربانی ابھی دینی علوم سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ1357 ہجری شمسی میں کمیونسٹوں نے فوجی قوت کے ذریعے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور ساتھ ہی پورے ملک میں جہادی مقاومت شروع ہوئی۔تب بھی مجاہدین کی قیادت علمائے کرام نے ہی کی۔ملا محمد ربانی ، جنہوں نے پہلے ہی سے اپنے اساتذہ سے علم،جہاد اور قربانی کی تربیت لی تھی،دین اور وطن کے دفاع کی خاطر میدانِ جنگ کی طرف چل نکلے۔ان کی عمر تب 21 سال تھی لیکن ساتھیوں میں دلیر، مدبر اور فداکار مجاہد کی حیثیت سے مشہور تھے۔انہوں نے اپنی جہادی زندگی کا آغاز قندھار کے چند نامور مجاہدین کے ہمراہ افغانستان کے جنوب مغرب میں مؤسس ِجہاد ،شہیدملا موسیٰ کلیم کے جہادی مجموعے سے کیا۔

اس کے بعد صوبہ قندہار کے ضلع ارغستان میں مجاہدین کو روسیوں کے خلاف منظم کرنے لگے۔ضلع ارغستان کی چغنی نامی پہاڑی میں جہادی مزکز کی بنیاد رکھی اور یہیں سے صوبہ بھر میں کاروائیوں کا آغاز کیا۔ضلع ارغستان کے چغنی، تورتاک، شابیگ اور سنگر نامی علاقوں میں روسیوں کے خلاف سخت کاروائیوں میں خود حصہ لیا۔اگرچہ چغنی کے مسؤل کمانڈر عبد الرزاق تھے لیکن جنگ کے دوران مجاہدین کی راہنمائی مرحوم ملا محمد ربانی کرتے۔ تمام جہادی عملیات میں شرکت کی وجہ سے مرحوم ملا محمد ربانی کو اس مجموعے کا معاون مقرر کیا گیا جس کے بعد وہ مجاہدین میں حاجی معاون کے نام سے مشہور ہوئے۔

جہادی زندگی میں عسکری اور اداری ذمہ داریاں:

روس اور اس کے غلاموں کے ساتھ قندھار اور ملک کے جنوبی علاقوںمیں شدید مزاحمت کی وجہ سے یہ علاقے مجاہدین کے مضبوط مورچے بن گئے اور مرحوم ملا محمد ربانی نے یہاں باقی مجاہدین کی طرح جہادی اور عسکری حیثیت سے خوب جنگ لڑی اسی جہادی اور عسکری مہارت کی وجہ سے ملا ربانی مرحوم نے 1360سے 1369تک مجاہدین کے جنوبی زون کے ایک ماہر کمانڈر کی حیثیت سے روسیوں کے ساتھ مختلف محاذ و ں پر دلیری سے مقابلہ کیا جس سے دشمن کو سخت جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا اور جس میں ملا مرحوم خود بھی ۳ سے زائد بار زخمی ہوئے۔

ان فاتحانہ جنگوں کی وجہ سے ملا مرحو م کا شمار ملک کے نامور جہادی کمانڈروں میں ہونے لگا اور اس وقت کی جہادی تنظیموں کے راہنماؤں کی نظر میں ایک قابل توجہ شخصیت ٹھہرے۔یہ وہ دور تھا جب ۸ جہادی تنظیموں کے سربراہوں نے پاکستان میں افغانستان کے لئے ایک عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔اس عبوری حکومت میں سربراہوں کے درمیان یہ فیصلہ طے پایا کہ مشہور جہادی کمانڈروں کو بھی حکومت میں خاطر خواہ عہدوں پر فائزکیا جائے گا۔صدر، وزیر اعظم اور کابینہ پر مشتمل اس حکومت میں ملا مرحوم کو حج اور اوقاف کا معاون وزیر مقرر کیا گیا۔اگرچہ تنظیمی طور پر ان کا تعلق مرحوم مولوی محمد یونس خالص کی تنظیم حزب اسلامی سے تھا لیکن جہادی لحاظ سے سب جہادی تنظیموں کے سربراہوں کے درمیان ان کا خاص مقام تھا۔اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ مولانا مرحوم افغانستان کے اندر اپنے متعلقہ مجاہدین کی نگہداشت اور دشمن کے خلاف عملیات کرانے کے مسؤل بھی تھے اور بطور نائب وفاقی وزیر خود کئی جنگوں میں شرکت کی۔

جب صوبہ زابل کا مرکز قلات شہر مجاہدین کے شدید محاصرے میں تھا اور شہر کے شمال میں تبسخر کا مضبوط ترین مرکز مجاہدین نے ابھی ابھی حکومت سے قبضہ میں لیا تھا جوکہ سٹریٹیجک لحاظ سے ایک اہم بلندچوٹی پر واقع تھا اور شہید ملا محمد کے مجموعے کے شیرصفت مجاہدین نے ملا ولی محمد اور شہید عزیز خان کی سربراہی میں فتح کیا تھا،تب بھی ملا ربانی مرحوم فتوحات کے ان اوائل میں شرکت کرنے سے پیچھے نہ رہے۔

طالبان کی اسلامی تحریک کی تاسیس میں کردار:

1369 ہجری شمسی میں روسی انخلاءکے بعد جب 1371میں کٹھ پتلی افغان حکومت کا سقوط ہوا تو ملا مرحوم نے تنظیموں کے آپس کے اختلافات ختم کرنے کے لئے افغانستان کے ایک ہمدرد اور مصلح شخص کی حیثیت سے دوڑدھوپ شروع کی ۔جنوب مغرب، جو کہ روس کے خلاف ایک مضبوط ترین میدانِ جنگ کی حیثیت رکھتا تھا بد قسمتی سے روسی انخلاءاور نجیب کی کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد جہادی تنظیموں اور ان کے مسلح کارکنوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ان کے باہمی میدان جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔یہ باہمی اختلافات صرف جنوب تک ہی محدود نہ رہے بلکہ ملک کے مرکز سے شروع ہو کر جنوب ، شمال،مشرق اور مغرب تک پھیل گئے جس کی وجہ سے 14سالہ مقدس جہاد اور 51 لاکھ شہیدوں کا مبارک خون نفاق اور باہمی اختلافات کی آگ میں جل کر راکھ ہو گیا۔اگرچہ یہ د لسوز حالات و واقعات کسی بھی با احساس مسلمان کے لئے قابل برداشت نہیں تھے لیکن ان حالات کی اصلاح کی صلاحیت کوئی بھی اپنے اندر نہ پا تا تھا۔اللہ کے کچھ نیک بندے ایسے بھی تھے جن کو اپنے جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کے اس قول ان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین پر کامل یقین تھا اور اِسی سے الہامات لیتے ہوئے جہاد کے ثمرات کے لئے از سر نو کوشش اور مجاہدہ شروع کیا۔

اِن نہ تھکنے والے مجاہدین نے اپنی مظلوم اور غم زدہ ملت کے آرام و راحت کے لئے منافقین اور مفسدین کے خلاف جہاد کا دوبارہ آغاز اس وقت کیا جب ان کے جسموں پر موجود سابقہ جہاد کے زخم ابھی تک تازہ تھےاور ان کی تھکاوٹ بھی دور نہ ہوئی تھی۔ملا ربانی مرحوم کی روس جہاد میں شرکت کے ساتھ ساتھ ان کا شمار اسلامی تحریک طالبان کے اہم رہنماؤں میں بھی ہوتا ہے۔تحریک کے اوائل کے دوران جب کسی علاقے کے تصفیہ(clearance) کا مسئلہ درپیش آتا تو آپ صلح و صفائی کے لئے سب سے پیش پیش ہوتے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے کہ کسی طرح وہ علاقہ صلح کے راستے سے طالبان کے زیرِ کنٹرول آجائے۔

جب 1995/10/10 کو طالبان کابل تک پہنچ گئے تو ملا ربانی مر حوم نے مخالفین کے سربراہ احمد شاہ مسعود کو بات چیت کی دعوت دی اور اس دعوت کی بنیاد پر وہ بات چیت کے لئے کابل سے میدان شہر چلے گئے۔ملا ربانی مر حوم کی پہلی بات ہی یہی تھی کہ اسلامی نظام حکومت کے لئے اس ملک کے لوگوں نے ۵۱ لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور اس مقدس خون کے احترام میں اس ملک میں بغیر کسی قید و شرط کے شرعی نظام حکومت قائم ہوناچاہئے۔ طالبان کی اسلامی ملی تحریک نے اس بات کا مصمم ارادہ کیا ہے کہ اس مقدس آرزو کو عملی جامہ پہنایا جائے لہٰذ ا آپ(احمد شاہ مسعود) بھی اس معاملے میں طالبان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ مضبوط بنیادوں پر اسلامی نظام قائم کیا جا سکے۔اس پر احمدشاہ مسعود نے تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن افسوس کہ احمد شاہ مسعود نے اپنے کئے ہوئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی اور اپنی ساری کوششیں اقتدار کے حصول کے لئے صرف کیں۔شمالی علاقہ جات کے علاوہ باقی تقریبا تمام تر افغانستان ملا ربانی مرحوم کی صلح آمیز کوششوں کے سبب طالبان کے زیر تسلط آیا۔

اسلامی تحریک طالبان میں ذمہ داریاں:

1373ہجری شمسی میں قندھار طالبان کے قبضے میں آیا تو ملا ربانی مرحوم کوطالبان کی عالی شورٰی کا مسؤل بنا یا گیا۔جب 1374 کے حمل کے مہینہ میں 13،14تاریخ کو ملک کے 1500علماءنے تحریک طالبان کے امیر کو امیر المؤمنین کے لقب سے نوازا اور امارتِ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی تو تب بھی ملا ربانی مرحوم امیر المؤمنین کے شانہ بشانہ احسن طریقے سے صداقت اور اخلاص کے ساتھ اصلاحی اور ملی امور انجام دیتے رہے ۔

1995/05/09کو جب طالبان کی فتوحات جنوب مغرب میں ہلمند، ہرات،ارزگان اور فراہ تک پہنچیں تو ان تمام فتوحات میں ملا ربانی مرحوم نے فاتحانہ اور نہایت عمدہ تکنیکی کردار ادا کیا۔اسی طرح  1996/09/11کو جب ملک کے مشرقی حصے کے صوبے ننگرہار،کنڑاور لغمان طالبان کے زیر تسلط آئے تو ان تمام صوبوں کی ذمہ داری ملا ربانی مرحوم کے سپرد کی گئی۔

1996/09/28بمطابق 1375ہجری شمسی کوجب ملک کا دارالحکومت کابل مکمل طور پر امارت اسلامیہ کے زیر تسلط آیا تو امیر المؤمنین کی جانب سے ملک کے انتظامی امور چلانے کے لئے ایک 6 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس کی ذمہ داری بھی ملا ربانی مرحوم کے سپرد کی گئی۔

جب یہ عبوری شورٰی حکومت کی شکل اختیار کرگئی اور افغانستان ریاست الوزراءکی حیثیت اختیار کرگیا تو تب ملا محمد ربانی مرحوم کوریاست الوزراءکے رئیس(وزیر اعظم) کی ذمہ داری سونپی گئی۔

زہدو تقویٰ:

ملا محمد ربانی مرحوم عقیدہ اہل سنت والجماعت اور سلف صالح کے مقدس رستے کے پیروکار تھے۔مولانا مرحوم خرافات اور بدعات کے بہت مخالف تھے اور لوگو ں کو سنت پر عمل کی دعوت دیتے۔مولانا مرحوم اپنے اخلاق حسنہ کے ساتھ ساتھ زہد،تقویٰ اور دینداری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔رات کو قیام اللیل اور دن کو نماز چاشت ان کے خاص معمولات میں شامل تھے ۔

ایثار اور قربانی:

1366ہجری شمسی میں صوبہ قندہار میں مجاہدین کی فعالیت اور کارروائیوں کو ختم کرنے کے لئے روسیوںکا ایک بہت بڑا فوجی دستہ بھیجا گیا اور محلہ جات کے علاقے میں ملا محمد ربانی مرحوم نے اپنے دیگر مجاہد ساتھیوں سمیت روسیوں کے ساتھ دوبدو مقابلہ کیا۔یہ جنگ تقریباایک مہینہ جاری رہی جس میں دونوں اطراف کو شدید نقصان ہوا اور جس میں ملا ربانی مرحوم خود بھی شدید زخمی ہوئے۔ملا عبد القیوم نامی ایک مجاہد ، جس نے اس جنگ میں شرکت کی تھی، نے بتایا کہ ملاربانی مرحوم سمیت اس جنگ میں ۴مجاہدین زخمی ہوئے،جب باقی ساتھی زخمیوں کو اٹھانے کے لئے آئے تو حاجی معاون(ملا ربانی مرحوم)نے یہ فرمایا کہ میں ٹھیک ہوں ، وہ ۳ ساتھی زیادہ زخمی ہیں ، پہلے ان کو اٹھائیں۔مجاہدین نے جب انہیں اٹھایا اور واپس حاجی معاون صاحب کو اٹھانے آئے تو دیکھا کہ وہ اتنے شدیدزخمی تھے کہ اٹھنے اور حرکت کرنے کے قابل نہ تھے،لیکن پھر بھی ملامرحوم نے جنگ کی اس حالت میں اپنے سے زیادہ ان ۳ مجاہدین کو ترجیح دی جو ان سے نسبتاً کم زخمی تھے۔

اسلامی دنیا کے مسائل سے تعلق:

امت مسلمہ کے مسائل کو ملاربانی مرحوم نے اپنے زندگی میں خاص اہمیت دی تھی اور امارت کے دور میں چیچنیا،فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر منفرد قسم کے بیانات جاری کئے تھے۔

طرززندگی :

اگرچہ ملا ربانی مرحوم پوری زندگی اعلیٰ اداری اور فوجی مناصب پر فائز رہے لیکن پھر بھی ان کی طبیعت اور مزاج میں غرور اور تکبر کی کوئی جھلک تک نہ تھی۔ان کا اٹھنا ، بیٹھنا، چلنا پھرنا سب ایک عام شخص کی طرح تھااور باقی احباب کے مقابلے میں اپنے لئے کسی امتیاز کے قائل نہ تھے۔دفتری اوقات میں کوئی بھی عام بندہ ان سے آرام سے مل سکتا تھا اور دفتر کے دروازے پر چپڑاسی کو صرف زائرین کی بے ترتیبی اور بے نمبری روکنے کے لئے کھڑا کرتے۔

عبوری حکومت میں معاون وزیر سے لے کر امارت میں وزیر اعظم تک کے عہدے کے دوران ان کا ذاتی محافظ یا باڈی گارڈ نہ تھا۔جو لوگ ان کے ساتھ سفرو حضر میں رہتے ، وہ ان کے جہاد کے ساتھی اور درسی شاگرد تھے۔ دوستوں کے ساتھ نہایت ہی بے تکلف رویہ رکھتے اور کبھی بھی ان سے امتیازی سلوک نہ کرتے۔جب وہ وزیر اعظم تھے تواپنی رہائش گاہ وزیر اکبر خان سے لے کراپنے دفتر ایوان صدارت تک اپنے ۳،۴ دوستوں سمیت چہل قدمی کرتے ہوئے جاتے۔اپنے احباب کے ساتھ تما م جہادی امور اور کھیلوں میں حصہ لیتے اور کابل کے علاقائی کھیل چغ کو بہت پسند کرتے تھے۔

ذاتی زندگی کی اقتصادی حالت:

اگرچہ اپنے عہدے کے لحاظ سے مولانا ربانی مرحوم کو پیسہ استعمال کرنے کا وسیع اختیار تھا لیکن پھر بھی انہوں نے ایک عام فرد کی سی زندگی گزاری۔زندگی کے آخری مرحلے تک انہوں نے اپنے آبائی گھر میں گزارہ کیا اور بیت المال کے پیسوں سے اپنے لئے گھر نہ بنایا۔جب 2000ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے افغانستان پر ظالمانہ یک طرفہ اقتصادی پابندی عائد کی اور امارت کے مسؤلین کے تمام بینک اثاثے منجمد کرنے کا حکم جاری ہوا تو امارت کے باقی مسؤلین کی طرح ملا ربانی مرحوم بھی باوجود اپنے عہدے کے وہ شخص تھے جن کا بینک میں اکاؤنٹ ہی نہ تھا۔

عوام کے دلوں میں محبت:

ملا محمد ربانی مرحوم اپنے نیک اخلاق کی وجہ سے اپنے تواپنے غیروں کے دل میں بھی آپ کا ایک خاص مقام تھا ۔افغانستان کے مختلف اقوام اور قبیلے ملا محمد ربانی مرحوم کو ایک ہمدرد اور سمجھدار بزرگ کی حیثیت سے جانتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد نے غمگین چہروں اوراشک بار آنکھوں کے ساتھ شرکت کی ۔

ملا محمد ربانی مرحوم ایک ایسے جہادی،سیاسی،علمی اور ملی شخص تھے جن کے جہادی کارنامے اور باقی خدمات کا احاطہ کرنا ان چند سطور میں نا ممکن ہے۔لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے ۔

(آپ کے حسن کے پھول تو بہت زیادہ ، لیکن میری جھولی بہت چھوٹی،کس پھول کو میں سمیٹوں)۔

وفات:

بالآخرجہاد و قتال کے رستے کا نہ تھکنے والا عظیم راہی،تقویٰ،زہد ،جانثاری،اخلاق اور شرافت کا نمونہ اللہ کے مرضی سے سرطان (کینسر) کی طویل علالت کے باعث راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں  1422ہجری،محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو جان ،جان ِ آفریں کے سپرد کر گئے اور ہمیشہ کے لئے اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ۔انا للہ واناالیہ راجعون ۔

ان کی روح شاد اور یاد ہمیشہ باقی رہے۔[آمین]