ملا راز محمد خنجری: ایک زندگی ایک بندگی

   افغانستان آزادی بخشنے والی جنگوں کا ملک ہے۔ اس ملک کی آدھی سے زیادہ تاریخ جہاد اور مزاحمت سے بھری پڑی ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے بڑی قوتوں کو مار پڑی ہے۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوجیوں کی شکست کے ساتھ عالمی سطح پر اس ملک کو استعمار کے قبرستان کا لقب […]

   افغانستان آزادی بخشنے والی جنگوں کا ملک ہے۔ اس ملک کی آدھی سے زیادہ تاریخ جہاد اور مزاحمت سے بھری پڑی ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے بڑی قوتوں کو مار پڑی ہے۔

افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوجیوں کی شکست کے ساتھ عالمی سطح پر اس ملک کو استعمار کے قبرستان کا لقب دیا گیا ہے۔ افغانستان میں ہر دور کے فرعون شکست کھا چکے ہیں۔ جس سے اس قوم کو بہت سے تاریخی اور قابل فخر اعزاز ملے ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہی مفت میں نہیں ہوا ہے، بلکہ اس ملک کے صاحب ایمان شہریوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ایثار اور شہادت کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں، جن کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے طاغوت شکست کھا گیا۔ نتیجۃ امت مسلمہ کو نجات مل گئی۔

   افغان عوام کی جرأتوں، شہادتوں اور قربانیوں کی قابل فخر داستانیں اتنی طویل ہیں، جس کا احاطہ شاید کسی مصنف کے بس کی بات بھی نہ ہو۔ یہاں ہر گھر سے شہید نکلا ہے۔ ہر گھر میں غازی موجود ہے۔ ہر چوٹی پر مورچہ، ہر پتھر شہید کے لہو سے رنگین ہے۔ ہر کھائی میں کوئی نہ کوئی مغرور قوت اوندھے منہ گری پڑی ہے۔ ایمانی قوت سے لیس اس قوم کی قربانیوں کی ایک جھلک دکھانے کے لیے مشت نمونہ از خروارکے طور پرایک شہید کی مختصر سوانح عمری آپ سے شیئر کرتے ہیں، تاکہ اس مظلوم… مگر قابل فخر قوم کی بہادری کے قصے تاریخ کے سینے میں محفوظ رہ جائیں۔ آئیے افغانستان کے جنوب مشرق میں موجود پکتیکا چل کر ایک گمنام سپوت ملا راز محمد خنجری کی یادوں کا خوشبو دار تذکرہ چھیڑتے ہیں۔ ان کے جہادی قصوں کی مہک اُڑاتے ہیں۔

   ملا راز محمد خنجری:

   ملا راز محمد خنجری کے والد کا نام حاجی خان محمد اور دادا کا نام لعل گل ہے۔ ان کا تعلق پشتون قبیلے ”سلیمان خیل” سے تھا۔ وہ صوبہ پکتیا میں ضلع ڈیلی، دشت لوڑ گی کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ 22 سال کی عمر یعنی کمیونسٹوں کی بغاوت تک دینی علوم میں مصروف رہے۔ انہوں نے غزنی کے ضلع ناوہ اور مقر میں بادینی کے سرحدی علاقے اور دیگر مختلف جگہوں کے علاقائی مدارس میں پڑھائی کا آغاز کیا۔ جب انقلاب ثور کے بعد پورے افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تو ملا راز محمد خنجری اس وقت نوجوان تھے، انہوں نے اپنی دینی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور کمیونزم کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کردیا۔

   کمیونسٹوں کے خلاف جہاد:

   ملا راز محمد خنجری نے پہلی مرتبہ پکتیکا کے ایک جہادی کمانڈر سید امیر کی قیادت میں جہاد کا آغاز کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوانی کے ایام میں ان کے پاس بندوق خریدنے کے لئےپیسے نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے ایک خنجر خرید لیا تھا، جسے وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔ اسی خنجر کی وجہ سے وہ خنجری کے نام سے مشہورہوگئے تھے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ اس کارروائی میں شرکت کی، جو زابل ضلع شملزو کے مضافات میں درخت یحیی کے علاقے میں کمیونسٹ فوج کے ایک مرکز پر کی گئی تھی۔ بعد ازاں زابل اور پکتیکا کے سرحدی علاقوں میں بھی بہت سی کارروائیوں میں حصہ لیا اور اپنی جرأت، بہادری اور جہادی مہارت کی وجہ سے علاقائی سطح پر ایک ممتاز مجاہد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ کمیونسٹوں کے خلاف شروع ہونے والے جہاد کو ابھی چار سال ہوئے تھے کہ وہ افغانستان میں بننے والی مولوی محمد نبی محمدی کی ایک تنظیم حرکت انقلاب اسلامی میں ایک مستقل کمانڈر کی حیثیت سے متعین کیے گئے۔ وہ کمیونزم کے خاتمے تک اپنے علاقے میں ایک فعال کمانڈر کی حیثیت سے فعال رہے۔ سیکڑوں مجاہدین ان کے زیر کمان رہے اور بڑی تعداد میں کارروائیاں کیں۔

   سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دور میں ملا راز محمد خنجری کے زیر کمان مجاہدین کا مرکز پکتیکا ضلع شنکی غرہ کے علاقے زرگلانہ میں تھا۔ یہیں سے آس پاس کے علاقوں میں کارروائیوں کے لیے گروپ بھیجے جاتے تھے۔ کٹواز تک کے مضافاتی علاقے ان کی کارروائیوں کی رینج میں رہے، مگر ان کی زیادہ توجہ گواشتی اور پتنی غرہ کے علاقوں پر تھی۔ کیوں کہ کٹواز اور غزنی ضلع ناوہ سے وازیخوا کی جانب سے دشمن کو رسد کی فراہمی انہیں دو علاقوں سے ہوتی تھی۔ ان کے جہادی کارناموں کے بہت سے واقعات مشہور ہیں۔ یہاں ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں:

   ان کے ساتھیوں کے بہ قول: اُن کا کہنا تھا کہ روس کے خلاف جہاد کے دور میں ایک مرتبہ ضلع وازیخوا کی مغربی جانب زنگلی کے علاقے میں سوویت فوجیوں سے ہماری جھڑپ ہوگئی۔ شدید لڑائی میں ہم ایک بار ان کے مورچوں کے بہت قریب پہنچ گئے۔ مَیں روسیوں کے مورچے کے انتہائی قریب تھا کہ میری گولیاں ختم ہوگئیں۔ سامنے مورچے میں ایک روسی فوجی کو دیکھا تو اسے پتھر دے مارا۔ اس نے فورا دستی بم پھینکا۔ بم میرے بہت قریب آگرا۔ لیکن مَیں نے اس کے پھٹنے سے پہلے ہی اُسے اٹھا کر واپس اسی مورچے کی طرف اچھال دیا۔ بم گرتے ہی پھٹا اور روسی فوجی اپنے ہی بم کا شکار ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں ہم نے تیرہ فوجی مارے اور تمام مرنے والے فوجیوں کا اسلحہ بھی غنیمت میں لے لیا۔

   ملا راز محمد خنجری روس کے خلاف جہاد کے دور میں ایک فعال مجاہد رہنما تھے۔ انہوں نے وازیخوا کے ضلعی مرکز، خٹک کلا، ضلع خوشامند، فیضگی کلا ، ضلع خیر کوٹ مرکز، ناوہ کے مضافاتی علاقے اور آس پاس کے دیگر علاقوں کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر نجیب حکومت کے دور میں غزنی ضلع ناوہ کے گاؤں سرہ کلی میں دشمن کے اہم مورچوں پر، غزنی، زابل اور پکتیکا کے مجاہدین کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں بھی کیں۔ ان تمام کارروائیوں میں ان کاکردار نمایاں رہا۔

   تحریک اسلامی طالبان میں شمولیت:

   کمیونزم کے خلاف جہاد مکمل ہونے پر ملا راز محمد خنجری نے اسلحہ رکھا اور اپنی ادھوری تعلیم کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔ وہ تنظیمی لڑائیوں کے پورے دورانیے میں اپنی پڑھائی میں مشغول رہے۔ جب طالبان کی تحریک اٹھی، اس وقت طالبان قندہار سے غزنی کی جانب جارہے تھے۔ وہ غزنی کے علاقے ‘مقر’ میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت طالبان سے مل گئے۔ انہوں نے اپنا سارا اسلحہ، اہم وسائل، دو گاڑیوں سمیت ایک ٹینک طالبان تحریک کے حوالے کردیا۔ غزنی کے حملے کے بعد انہیں اسی شہر میں ایک عسکری گروپ کی قیادت سونپ دی گئی، مگر وہ اکثر اوقات اپنے گروپ کے ساتھ میدان شہر کے جنگی خط پر رہے۔ میدان شہر اور کابل کے درمیان طالبان کا ایک جنگی خط تھا۔ انہیں شیرعالم چیک پوسٹ نامی ایک مرکز پر حملے کے وقت پاؤں پر زخم لگ گیا۔ مجاہدین کی رہنمائی ایک اور ساتھی ملا عبدالقہار نے اپنے ذمے لے لی۔ ملا عبدالقہار نے کابل کی فتح تک یہ ذمہ داری نبھائے رکھی۔ جب کابل فتح ہوا تو ملا عبدالقہار تھوڑے عرصے بعد شمال کی جنگوں میں شہید ہوگئے۔ ملا راز محمد خنجری نے ذمہ داری ایک بار پھر خود سنبھال لی۔ انہوں نے اسلامی تحریک طالبان کے دور میں بہت سے محاذوں پر خدمات انجام دی تھیں۔ وہ اپنے گروپ سمیت طالبان کے اس عظیم قافلے کے ساتھ تھے، جو 1998 میں درہ سالنگ کے ٹنل سے نکلا اور پل خمری کی فتح کے بعد قندوز پر قابض ہوگیا۔ ملا راز محمد خنجری کو قندوز میں کچھ عرصہ مزاحمت کے بعد دشمن کے طیاروں کی ایک بمباری میں سر اور ہاتھ پر زخم لگے۔ انہیں علاج کے لیے کابل شہر بھیج دیا گیا۔ ملا صاحب شفا یابی کے بعد ایک عسکری بریگیڈ کے ذمہ دار کی حیثیت سے متعین کیے گئے۔ اس کے بعد لغمان میں اس وقت تک عسکری بریگیڈ کے ذمہ دار رہے، جب تک امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا۔

   امریکیوں کے خلاف جہاد:

   جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو امارت اسلامیہ نے شہروں سے پسپائی اختیار کرلی ۔ ملا صاحب بھی اپنے ساتھیوں سمیت اپنے علاقے میں واپس آگئے۔ انہوں نے کچھ مہینے گزرنے کے بعد جہادی تحریکات کا آغاز کیا اور اپنے علاقے میں مجاہدین کی پھر سے صف بندی کر کے جارحیت پسندوں کے خلاف گوریلا حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انہیں اس دور میں کٹھ پتلی انتظامیہ کی جانب سے بار بار دعوت دی گئی کہ حکومتِ کابل سے مل جائیں۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ایک سابق جہادی کمانڈر کابل انتظامیہ کے نمائندے کی حیثیت سے اُن سے ملے اور کہا کہ امریکیوں سے مقابلہ ناممکن ہے۔ اس لیے آئیں اور نئی حکومت میں شامل ہو کر جہاد کا وقت آنے کا انتظار کریں، مگر خنجری صاحب نے کہا کہ مَیں کفر کے خلاف اسلحہ کندھے سے نہیں اتاروں گا۔ مجھے یہ اچھا لگتا ہے کہ گن اور کمر بند کے ساتھ ہی اس دنیا سے چلا جاؤں۔

     امریکا کے خلاف جہاد کے ابتدائی سالوں میں پکتیکا کے عمومی جہادی ذمہ دار مولوی عبدالکبیر اور ملا خنجری اپنے علاقے میں نمایاں عسکری ذمہ دار کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اس وقت وہ اور ان کا خاندان دور افتادہ پہاڑی علاقے میں خیموں میں رہ رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ خفیہ طور پر جہادی کارروائیوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ مجاہدین نے ان کی قیادت میں جارحیت کے ابتدائی دنوں میں ضلع وازیخوا فتح کر لیا اور بڑی مقدار میں اسلحہ دشمن سے غنیمت میں ملا۔ وازیخوا کے علاوہ پکتیکا کے ڈیلہ، تروو، خوشامند اور جانی خیل کے اضلاع میں بھی بہت سی کارروائیاں کیں، جن میں دشمن کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی پورے علاقے میں جہادی کارروائیاں دوبارہ زندہ ہوگئیں۔

ملا   خنجری کی شہادت:

   خنجری شہید روس کے خلاف جہاد کے دور میں بھی ایک نمایاں مجاہد رہے اور انہوں نے امریکیوں کے دور میں بھی جہادی پرچم اٹھائے رکھا۔ انہیں وازیخوا اور آس پاس کے تمام اضلاع میں بہت شہرت اور اعتماد حاصل تھا۔ بہت سے نوجوان انہی کی دعوت پر جہادی صف میں داخل ہو گئے۔ امریکیوں نے ان کا طریقہ کار سے ڈر گئے تھے، اس لیے ان کی کوشش تھی کہ جس قیمت پر بھی ہو ان کا خاتمہ کردیا جائے۔ بالآخر 25 مارچ 2005 کو امریکیوں نے ان کا ٹھکانہ معلوم کر کے ایک وحشیانہ چھاپے میں انہیں شہید کردیا ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

   خنجری صاحب کے جانشین حاجی محمد عمر حنفی، خنجری صاحب کی شہادت کے عینی شاہد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت خنجری شہید کا خاندان وازیخوا کے دورافتادہ پہاڑی علاقے میں ایک خیمے میں مقیم تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ موٹر سائیکل کے لیے تیل لے کر آؤ۔ ان کا جہادی سفر کا ارادہ تھا۔ صبح کا وقت تھا، خنجری صاحب نے اسی روز سیٹلائٹ فون پر ساتھیوں سے گفتگو کی تھی۔ شاید اسی لیے امریکیوں کو ان کا مقام معلوم ہوگیا تھا۔ مَیں ان کے مقام سے چند کلومیٹر دور ایک بلند علاقے میں تھا، جہاں سے خنجری صاحب کے رہائشی خیمے نظر آرہے تھے۔ مَیں چاہ رہا تھا کہ چھوٹے وائرلیس سے ان سے رابطہ کروں۔ اچانک امریکی جنگی ہیلی کاپٹر فضا میں نظر آنے لگے اور خنجری صاحب کے گرد چاروں طرف پیادہ فوجی اتار دیے۔ امریکی فوجی اور نیشنل آرمی کے اہل کار آہستہ آہستہ خنجری صاحب کے گھر کے قریب ہوتے گئے اور پھر اچانک فائرنگ شروع ہوگئی۔ دوطرفہ فائرنگ بہت دیر تک جاری رہی۔ جنگ کے بعد فائرنگ ختم ہوئی اور امریکی ہیلی کاپٹر واپس چلے گئے۔ مَیں اس علاقے میں پہنچا تو دیکھا کہ امریکیوں نے شدید وحشت ڈھائی ہوئی تھی۔ وہاں کئی خیمے تھے، جہاں خنجری صاحب کا بڑا خاندان مقیم تھا۔ بچوں اور خواتین کے سمیت خاندان کے سات افراد شہید ہوگئے تھے۔ خنجری صاحب کے خاندان کے افراد نے بتایا کہ وہ اپنے خیمے میں چھوٹے بچے اور بچی کو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہ امریکی ہیلی کاپٹروں کی آوازیں آنے لگیں۔ خنجری صاحب نے راکٹ لانچر اٹھا کر اس میں راکٹ فٹ کردیا۔ پھر اپنے گرد ایک کمبل لپیٹا، جس میں انہوں نے راکٹ لانچر چھپایا ہوا تھا۔ وہ اسی حالت میں خیمے سے باہر نکل پڑے۔ اس دوران بیرونی اور داخلی فوجی خیمے کے قریب آگئے ۔ ان میں عنایت کلیوال نامی کیمپین کا سربراہ بھی تھا۔ اس نے مائیکرو فون پر اعلان کرکے خنجری صاحب سے کہا کہ خود بہ خود خیمے سے باہر آکر سرنڈر کردو۔ اپنے خاندان کا لحاظ کرو۔ خنجری صاحب نے انتہائی سرعت سے کمبل سے راکٹ لانچر نکالا اور فورا ان پر گولہ فائر کردیا۔ جس سے وہ سب ایک ہی فائر میں ہلاک ہوگئے۔ اس کے فورا بعد خنجری صاحب کے جوان بیٹے بشیر احمد اور بھتیجے طاؤس نے بھی ایک ٹیلے پر مورچہ سنبھالا اور لڑائی شروع کردی۔ چند فدائی مجاہدین اور مسلح افواج کے درمیان یہ جنگ بہت حیران کن تھی۔ مرد خنجری صاحب کی قیادت میں لڑتے رہے، جب کہ خواتین اور بچے انہیں اسلحہ پہنچاتے رہے۔ جب خنجری صاحب شہید ہوگئے تو خواتین نے اسلحہ سنبھال لیا اور امریکی فوجیوں سے آخری گولی تک لڑتی رہیں۔ اس جنگ میں خنجری صاحب سمیت 8 ، افراد شہید ہوئے تھے، جن میں تین خواتین بھی شامل تھیں۔ واضح رہے اس سے قبل روس کے خلاف جنگ میں بھی ان کے خاندان کے 7 ،افراد شہید ہوئے تھے۔ اس معرکے میں امریکیوں کے بھی کئی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر کو بھی نقصان پہنچا۔ امریکی ان کا جسد خاکی اپنے ساتھ ارگون امریکی ائیربیس لے گئے اور وہاں سے پکتیکا کے مرکز شرنی منتقل کردیا۔ وہ ان کی لاشیں خاندان کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے، مگر چند دن گزرنے کے بعد علاقے کے بڑے لوگوں کی درخواست پر 9 دن بعد ان کا جسد خاکی خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔

   اس طرح پکتیکا میں ایک دورافتادہ علاقے میں وہ گمنام مجاہد اپنی جدوجہد والی زندگی گزارنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملا۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کی دفاع اور سربلندی کے لیے وقف کررکھی تھی۔         ؎

آئے عشاق گئے وعدۂ فردالے کر

اب انہیں ڈھونڈوچراغ رخ زیبالے کر