مولانا عبداللہ ذاکری رحمہ اللہ

ایک شخصیت، ایک زندگی، جس کی یادیں باتیں ابھی تک دلوں میں مہک رہی ہی صدیوں سے امت مسلمہ بڑے بڑے مصائب اور آزمائشوں کا شکار ہے۔ یورپ کی صنعتی اور سائنسی ترقی کے بعد پوری اسلامی دنیا کفریہ جارحیت خصوصا یورپیوں کے عسکری، سیاسی، فکری اور اقتصادی استعماری پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ مگر […]

ایک شخصیت، ایک زندگی، جس کی یادیں باتیں ابھی تک دلوں میں مہک رہی ہی

صدیوں سے امت مسلمہ بڑے بڑے مصائب اور آزمائشوں کا شکار ہے۔ یورپ کی صنعتی اور سائنسی ترقی کے بعد پوری اسلامی دنیا کفریہ جارحیت خصوصا یورپیوں کے عسکری، سیاسی، فکری اور اقتصادی استعماری پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ مگر امت مسلمہ کی اس بری حالت اور مسلمانوں کی محکومیت کے خلاف پوری امت خاموش نہیں بیٹھی، بلکہ امت کی صفوں میں ایسے علماء، مفکرین، مجاہدین، مصنفین اور دیگر با احساس و با ادراک لوگ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کی بیداری اور کفر کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کردی ہے۔

اگر افغانستان کی سطح پر بات کی جائے تو کفر مخالف مزاحمت کے سلسلے میں ایک قابل فخر اور راہ نما مولانا عبداللہ ذاکری صاحب کی شخصیت نظر آتی ہے، جنہوں نے کمیونزم کی یلغار کے بعد سے امریکی جارحیت اور شکست کے تمام ادوار میں ایک بیدار مغز اور باادراک رہنما کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائے رکھی۔ شیخ عبداللہ ذاکری صاحب کا یہ جہادی اور دعوتی موقف تھا، جس نے کفر کے اسٹریٹجک پالیسی سازوں کو بے چین اور پریشان کر رکھا تھا۔ اس لیے آخر میں ایک شیطانی چال چل کر ایک قاتلانہ حملے میں امت مسلمہ کے اس قابل فخر رہنما کو شہید کردیا گیا۔ ذاکری صاحب مرحوم کی شہادت کی پہلی برسی کی مناسبت سے اُن کی حیات اور کارناموں کی مختصر رُوداد میں آپ کو شریک کیا جارہا ہے۔

پیدائش:

عبداللہ الذاکری صاحب 1353ھ بمطابق 1934 کو افغانستان کے صوبہ قندہار کے قریب ’’ذاکر شریف‘‘ کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام شیخ میاں نظام الدین اور دادا کا نام شیخ میاں خیرالدین تھا۔

زندگی کے ابتدائی مراحل:

ذاکری صاحب کا خاندان کئی صدیوں سے اسی علاقے میں علم اور تصوف نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کے آباء و اجداد میں کئی پشتوں تک علماء، مشائخ، اور صوفیائے کرام کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ ذاکری صاحب نے چار سال کی عمر میں اپنے والد کے زیر سایہ علمی سفر کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ اپنے علاقے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حصول علم کے لیے سفر کیا۔ قندہار اور آس پاس کے دیگر علاقوں میں مختلف مدارس کے علاوہ غزنی میں بھی حصولِ علم میں مشغول رہے۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں علم حاصل کرتے رہے۔ 21 سال کی عمر میں دینی علوم کی رسمی تعلیم سے فراغت کے موقع پر قندہار کے جید علمائے کرام اور مشائخ سے دستار فضیلت حاصل کی۔

تعلیم و تزکیہ اور تبلیغی زندگی:

جس طرح شیخ ذاکری صاحب کا ایک علمی خاندان تھا، اسی طرح تصوف اور تزکیے کے شعبے میں بھی انہوں نے بہترین خدمات انجام دیں ہیں۔ ان کے خاندان کے بزرگ عوامی اصلاح اور امورتزکیہ میں سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ بانوریہ کے افراد تھے۔ ذاکری صاحب اپنی عین نوجوانی کے ایام ہی سے اس راہ کے ایک سالک کی حیثیت سے طریقت میں داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ علم کے سفر کے خاتمے کے ساتھ ہی طریقت کا سلسلہ بھی اختتام کو پہنچا اور اُنہیں نقشبندیہ سلسلے میں خدمات کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے فراغت کے بعد تدریس اور اصلاح کے علاوہ تبلیغ کا بھی آغاز کردیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ پہلی شخصیت تھے، جنہوں نے قندہار میں دعوت وتبلیغ کی وہ پہلی جماعت بلائی، جس کی بنیاد ہندوستان کے عظیم عالمِ دین مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ رکھی ہوئی تھی۔ اور پوری دنیا میں تبلیغ کے کام کا آغاز کردیا تھا۔ اس سے قبل افغانستان میں لوگ دعوت وتبلیغ کی جماعتوں کو شک اور بدگمانی کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، مگر ذاکری صاحب نے ہمہ پہلو تحقیق کے بعد انہیں قندہار شہر میں دعوت دی۔ اس طرح لوگوں کا اعتماد ان جماعتوں پر بحال ہوا اور شیخ صاحب نے اپنے مدرسے کو دعوت وتبلیغ کا مرکز بنا دیا۔ اسی طرح ذاکری صاحب نے علمی خدمات کے سلسلے میں قندہار کے کابل دروازے میں ’’دارالعلوم صدیقیہ‘‘ کے نام سے ایک بڑے مدرسے کی بنیاد رکھی۔ جس نے بہت عرصے تک دینی علم کی اشاعت میں بڑی خدمات انجام دیں ہیں۔ اس مدرسے میں مولوی محب اللہ اخندزادہ، مولوی عبدالغفور سنانی، محمد رسول اخند زادہ اور مولوی عبیداللہ ایوبی جیسے اپنے دور کے کبار علمائے کرام مدرسین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

اگرچہ ظاہر شاہ کے دورِ بادشاہت اور پھر داؤد خان کے دورِ جمہوریت میں دینی مدارس اور علمائے کرام کے خلاف مشکلات اور مسائل کا بند توڑ دیا گیا تھا، مگر ذاکری صاحب نے پوری بہادری اور تدبر سے سرخ انقلاب تک اپنا مدرسہ فعال رکھا اور انہی حالات میں دینی علوم کی اشاعت میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔

کمیونسٹوں کی جارحیت اور شیخ صاحب کی اسارت:

کمیونسٹ انقلاب کے بعد جب وہ اقتدار لوٹ کر لے گئےتواُن کا پہلا کام مدارس اور دین دار شخصیات پر حملہ تھا۔ کمیونسٹوں کی جارحیت کے دو ہفتے بعد ملک کے ہزاروں علمائے کرام اور مشائخ کی طرح شیخ ذاکری صاحب بھی گرفتار اور ان کا مدرسہ بند کردیا گیا۔ کمیونسٹوں کی جانب سے پہلی بار گرفتاری کے موقع پر شیخ صاحب چالیس روز قندہار جیل میں رہے ۔ مگر اُنہیں کچھ عرصے بعد پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار ساڑھے دس ماہ قندہار اور کابل میں کمیونسٹوں کے وحشیانہ عقوبت خانوں میں پابندِ سلاسل رہے۔

شیخ صاحب کا قندہار جیل میں تاریخی اور جرأت مندانہ کردار آج تک ان کے رفقاء کو یاد ہے۔ اس حوالے سے ان کے قیدی ساتھی قاضی عبیدالرحمن صاحب کہتے ہیں: ’’مَیں قندہار جیل میں تھا۔ یہ کمیونسٹوں کا جیل تھا، جہاں ایک عام سپاہی کے ہاتھوں بھی قیدیوں کو مارنا، پھانسی دینا یا سخت ترین اذیتیں پہنچانا روز کا معمول تھا۔ ہر معمولی کمیونسٹ کو اس کا پورا پورا اختیار تھا۔ جیل میں شدید وحشت طاری تھی۔ کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا تھا اور نہ کمیونسٹ جلّادوں کے سامنے کسی کو کچھ کہنے کی جرأت تھی۔ مگر ایک دن ایک ایسے آدمی کو جیل لایا گیا، جس نے دیگر قیدیوں کو بھی حوصلہ دیا اور جیل کی حالت بدل کر رکھ دی۔ یہ عبداللہ ذاکری صاحب تھے۔ ان پر سخت ترین تشدد کیا گیا تھا۔ پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں پشت کی جانب ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں۔ مگر وہ اپنی پوری قوت سے کمیونسٹوں کے خلاف تنقید جاری رکھتے، جس کا کوئی اُس وقت تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ انہیں منہ پر کافر اور روس کا غلام کہتے تھے۔ کھلے بندوں جہاد کی باتیں کرتے۔ ان سے مباحثے کرتے اور انہیں دھمکاتے رہتے۔ کمیونسٹوں نے ہر طرح کے مظالم ڈھاکر کوشش کی کہ ان کا منہ بند کر دیں، مگر انہیں کامیابی نہ ملی۔ وہ اِنہیں قتل کی دھمکی دیتے تو یہ جواب میں بہت واضح انداز میں شہادت کی تمنا کرنے لگتے۔ قیدی پہلے کمیونسٹوں کے خوف اور دہشت سے نماز ادا نہیں کرسکتے تھے۔ ذاکری صاحب نے قندہار جیل میں پہلی بار اذان دی اور جماعت سے نماز پڑھانی شروع کردی۔ یوں بہت سے قیدی ان کی امامت میں نمازیں پڑھنے لگے۔ ذاکری صاحب ایسے شہید ہیں، جن کے احسان سے لوگ سَر اُٹھا کر جینے کے قابل ہوتے ہیں۔‘‘

قندہار کے رہائشی مولوی عبدالستارصاحب اُن کے جرأت مندانہ کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جیل میں جہادی موقف رکھنے کے باوجود ایک مرتبہ کمیونسٹ گورنر انجنیئر ظریف، ان کے وزراء اور دیگر کمیونسٹ حکام کی جانب سے انہیں طلب کیا گیا۔ انہیں مختلف طریقوں سے بے انتہا دولت کے بدلے جہادی موقف سے دست بردار ہونے کا کہا گیا۔ زیادہ دولت اور اونچے مناصب کی پیش کش کی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ ’’وزارتِ تعلیم کا قلم دان آپ کے سپرد کیا جائے گا۔ گاڑی اور ذاتی ہیلی کاپٹر دیا جائے گا۔‘‘ مگر شیخ صاحب کا موقف ایک ہی تھا کہ اگر تم لوگ اسلام کو مانتے ہو؟ تمہارا قبلہ بیت اللہ اور راہبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو نہ صرف مَیں بلکہ سارے عوام آپ کے حامی ہیں۔ لیکن اگر آپ کا راہبر لینن، قبلہ ماسکو اور قانون و عقیدہ کمیونزم ہے تو پھر تمہارے خلاف جہاد فرض ہے۔ اگر عوام جہاد چھوڑ بھی دیں تو اس ملک کے شجر وحجر آپ سے لڑیں گے۔ کیوں کہ یہ ایک اسلامی سرزمین ہے، جو کفریہ نظام کو ہرگز قبول نہیں کرتی۔‘‘

قندہار کے شہری حاجی سیف اللہ کامران قندہار جیل میں ذاکری صاحب کے ساتھ ایک بیرک میں رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ’’جب قندہار جیل سے کمیونسٹ کسی قیدی کو باہر لے جاتے تو وہ زندہ نہ بچتا۔ ایک رات شیخ صاحب کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ باہر نکالا گیا۔ مگر تھوڑی دیر بعد انہیں واپس لایا گیا۔ ہم نے کئی بار پوچھا کہ واپس کیسے آئے؟ شیخ صاحب نے بتانے سے احتراز کیے رکھا۔ میرے بہت زیادہ اصرار کے بعد بتایا کہ’’ کمیونسٹوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور پھانسی کی جگہ تک لے جانے لگے۔ مَیں پہلے تھوڑا سا گھبرایا، لیکن عین اسی وقت مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہاتفِ غیبی مجھ سے کہہ رہا ہے ’’لاتخف ولاتحزن، نجوت من القوم الظلمین‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ کمیونسٹوں نے مجھے گاڑی سے اتارا اور واپس جیل بھیج دیا۔‘‘

شیخ صاحب کی جرأت اور بہادری کو دیکھتے ہوئے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ کمیونسٹوں کی قید سے آزاد ہوجائیں گے۔ مگر اللہ تعالی نے انہیں نجات دی اور روسی جارحیت کے تھوڑے عرصے بعد وہ جیل سے رہا ہوگئے۔ اپنے اور گھروالوں کی حفاظت کی خاطر جہاد کے ارادے سے ہجرت کی اور قندہار سے بلوچستان کے شہر کوئٹہ چلے گئے۔

کمیونزم کے خلاف جہاد:

قندہار کے رہائشی ملامحمد رسول صدیقی مدرسے کے دور سے شیخ صاحب کے شاگرد اور خادم کی حیثیت سے ان کے ساتھ رہے۔ وہ تمام جہادی اسفار میں ان کے ہمراہ رہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’جب شیخ صاحب نے پاکستان ہجرت کی تو پہلے جنوب مغربی زون کے 10 صوبوں کے عمومی جہادی ذمہ دار کی حیثیت سے ان کا تقرر کیا گیا۔ وہ مجاہدین کی رہنمائی اور رسد کی فراہمی کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ شیخ صاحب نے یہ ذمہ داری تین ماہ تک نبھائی۔ مگر جب انہیں کچھ کمانڈروں اور مالیاتی امور کے کار کنوں کی خیانت کا علم ہوا تو انہوں نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ ان کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ یہاں تک کہ بات جہادی قائدین تک پہنچ گئی۔ چوں کہ کئی نامور کمانڈر اس خورد برد میں ملوث تھے اور تنظیمی قائدین نے بھی اس پر آنکھیں بند رکھی تھیں، شیخ صاحب نے احتجاجا اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور کہا: ’’مَیں اپنے احاطۂ ذمہ داری میں یہ سب کچھ ہوتا برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘

ملا محمد رسول اخند اس حوالے سے ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں: ’’ایک بار مجاہدین کے لیے مخصوص پستولیں آئیں تھیں۔ شیخ صاحب چاہتے تھے، یہ پستولیں قندہار شہر اور دیگر شہری علاقوں میں گوریلا مجاہدین کے درمیان تقسیم کی جائیں۔ مگر صوبائی امراء اور کمانڈروں کی کوشش تھی کہ ایک ایک پستول اپنے لیے ذاتی طور پر رکھ لیں۔ شیخ صاحب نے ان کے اس بات کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ ’’ آپ لوگوں کوجہادی مال ذاتی طورپر استعمال کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ مجاہدین کو اسلحے کی ضرورت ہے۔ وہ ان پستولوں سے اسلام کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں اور تم اپنی ذات کے تحفظ کے لیے انہیں اپنے پاس رکھ رہے ہو۔ پہلا حق اُنہیں کا ہے۔‘‘

شیخ صاحب نے اس طرح کمانڈروں کے پیچھے اسلحے اور پیسوں کی تقسیم کے حوالے سے حساب کتاب شروع کیا اور بڑے کرپشن کا انکشاف کیا۔ جب انہوں نے تنظیمی سربراہوں کی سرد مہری دیکھی تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ استعفاء کے بعد شیخ صاحب نے اپنا ایک دفتر قائم کیا۔ حالانکہ وہ کسی تنظیم کے باقاعدہ رکن یا ممبر نہیں تھے۔ مجاہدین کے ساتھ بلا تفریق مختلف حوالوں سے تعاون جاری رکھتے۔ وہ مختلف کیمپوں کے دورے کرتے، علماء اور عوام کو جہاد کی دعوت دیتے۔ اسی طرح وہ علماء اور مجاہدین، جو غریب اور لاچار ہوتے، ان سے تعاون کرتے۔ وہ دیار ہجرت میں جہادی اور اصلاحی کوششوں کے علاوہ بار بار افغانستان بھی گئے، جہاں وہ براہِ راست جہاد میں حصہ لیتے۔ ملا محمد رسول کہتے ہیں: ’’انہوں نے پہلی بار ہلمند کا دورہ کیا۔ وہاں رئیس عبدالواحد اور نسیم اخند زادہ کے نام سے دو مشہور کمانڈر تھے، جن کے درمیان اختلافات تھے۔ شیخ صاحب نے اپنی کوششوں سے ان کے درمیان صلح کروائی اور ان کے باہمی نزاع کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد شیخ صاحب افغانستان کے جنوب اور مرکزی علاقوں تک بار بار گئے۔ ایک سفر میں وہ صوبہ زابل گئے، جہاں انہوں نے ’’ملا مدد‘‘ اور دیگر مقامی کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں اور وہاں کے جہادی کیمپوں کے دورے کیے۔ قلات، میزانی اور دیگر علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد قندہار گئے۔ ارغنداب، محلہ جات، زنگاوت، پاشمول اور تقریبا قندہار کے تمام اضلاع کے جہادی محاذوں تک پہنچے۔ بعد ازاں وہ اروزگان چلے گئے۔‘‘

امارت اسلامیہ کے سابق وزیر اور روس مخالف جہاد کے عظیم مجاہد ’’ملا محمد غوث‘‘ کہتے ہیں: ’’ذاکری صاحب ایسے وقت میں اروزگان آئے، جب اروزگان کے ضلع ’’دہراوود‘‘ میں روسی فوجیوں کے خلاف شدید جنگ جاری تھی۔ دہراوود ان شدید تاریخی جنگوں میں سے ہے، جہاں کی جنگ تقریبا ڈھائی ماہ تک مسلسل جاری رہی۔ روسیوں کے کئی طیارے اس جنگ میں گرائے گئے اور دنوں فریقوں کو شدید نقصان پہنچا۔ ذاکری صاحب اس جنگ کے دوران اسی علاقے میں تھے اور مجاہدین کے شانہ بہ شانہ جنگ میں شریک تھے۔ شیخ صاحب کا یہ جہادی دورہ سولہ ماہ کے طویل دورانیے پر مشتمل رہا۔ انہوں نے اس دورے میں عملی جہاد کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی رہنمائی اور وہاں کے جہادی محاذوں کے درمیان اختلافات ختم کیے۔‘‘

شیخ صاحب نے ایک اَور سفر زابل کے ’’اتغر‘‘ کے راستے قلات سرخگان اور وہاں سے ہوتے ہوئے قندہار تک کا کیا۔ قندہار کے مختلف علاقوں میں گئے اور وہاں مختلف جہادی مراکز کے مجاہدین سے ملاقاتیں کیں۔ انہیں لازمی ہدایات دیں۔ وہ اپنے ایک اَور سفر میں ’’ریگ‘‘ کے راستے قندہار گئے۔ وہاں 6 ماہ تک مختلف مراکز کے مجاہدین کے درمیان اتحاد اور رابطے کی کوششیں کرتے رہے، تاکہ وہ آپس میں مربوط ہوکر یک بارگی سے کمیونسٹوں پر اپنے حملوں کا آغاز کردیں۔ ان تمام اسفار میں شیخ صاحب کی کوشش یہ تھی کہ مجاہدین کی ضروری رہنمائی کرسکیں۔ اُنہیں جہاد کے اعلی مقاصد کی طرف توجہ دلائیں۔ انہیں کرپشن، ظلم، اختلاف اور ناجائز قبضوں سے روکیں۔ اس طرح انہوں نے مختلف جہادی کمانڈروں اور مجاہدین کے درمیان اختلافات کے خاتمے اور اصلاح کی کوششیں کیں۔ شیخ صاحب اگرچہ کسی تنظیم کے باقاعدہ رکن نہیں تھے، مگر جہاد میں فعال حصہ لیا۔ وہ واحد ایسی شخصیت تھے، جو تنظیمی قائدین کے سامنے کھلم کھلا بات کرتے تھے اور انہیں اپنی غلطیوں کی جانب متوجہ کرتے۔ مجاہدین کو رسد فراہمی، یتیموں اور بے آسرا مہاجرین کی کفالت، ان سے تعاون، علمائے کرام کی حفاظت اور ان سے مالی تعاون ان کی اہم مصروفیات تھیں۔ جب جہاد کے کچھ ’’معاون حلقوں‘‘ نے یہ کوشش کی کہ جہادی تنظیمیں اَور بھی بڑھ جائیں اور اس طرح مجاہدین کے درمیان اتحاد قائم نہ ہوسکے، شیخ صاحب کو مختلف طریقوں سے پیش کش کی گئی کہ الگ تنظیم کا اعلان کر دیا جائے۔ مگر شیخ صاحب نے اس مطالبے کو قبول نہیں کیا۔ وہ تنظیموں کی تعداد میں اضافے کو ایک بڑا فتنہ سمجھتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ موجودہ تنظیموں کو آپس میں قریب کرکے آپس میں ضم کردیا جائے۔

اتحادِ علماء افغانستان کی تاسیس:

جب روسیوں کی شکست کے بعد نجیب کے دور اقتدار میں جہادی تنظیموں کے درمیان نفاق اور ذاتی اختلافات کی علامات ظاہر ہونے لگیں، اسی طرح کچھ نئے افکار اور عقائد بھی افغانوں کے درمیان پھیلنے لگے تو ذاکری صاحب نے کئی جید علمائے کرام سے مل کر ان مشکلات کے خاتمے کے لیے سیکڑوں علماء کو جمع کیا۔ ایک غیر سیاسی اصلاحی اتحاد کا فارمولہ سامنے رکھا۔ اس اتحاد کا مقصد یہ تھا کہ یہ صرف ایک اصلاحی جماعت ہوگی۔ جو معاشرے کی اصلاح، مجاہدین کے درمیان ثالث اور دیگر خیر کے کام انجام دے گی۔ اس اتحاد کے پہلے اجتماع میں 700 علمائے کرام نے شرکت کی۔ اجتماع میں اتحادِ علماء کا منشور ترتیب دیا گیا، جو 5 فصلوں اور 44 شقوں پر مشتمل تھا۔

ذاکری صاحب کی قیادت میں ’’اتحادِ علمائے افغانستان‘‘ نے افغانستان اور اسلامی دنیا کے مختلف مسائل پر اپنی ذمہ داری بہت احسن طریقے سے ادا کی۔ علمائے کرام کی اس جماعت کے مسلسل اجلاس منعقد ہوتیرہے۔ ان میں مختلف مسائل اور قضیوں کے حوالے سے مباحثے ہوتے رہے۔ پھر انہیں فتوی اور پیغام کی شکل میں نشر کیا جاتا۔ عمومی فقہی مسائل سے لے کر سیاسی واقعات اور قضایا تک اتحادِ علماء افغانستان تمام شعبوں میں لوگوں کی رہنمائی کرتا رہا۔ 1991ء میں خلیجی جنگ کے دوران امریکا نے صدام حسین کو روکنے کے بہانے ہزاروں فوجی جزیرۃ العرب میں داخل کردیے تھے۔ ذاکری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے امریکیوں کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی۔ بی بی سی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کے خلاف امتِ مسلمہ پر جہاد کو فرض عین قرار دیا۔ وہ تنظیمی رہنماؤں کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرتے کہ لڑائی اور فساد سے دست بردار ہوجائیں۔ صرف شریعت کے نفاذ کے لیے کام کریں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری باربار نبھائی۔ تنظیمی لڑائیوں کے خاتمے کے لیے 11 بار کابل گئے۔ ایک مخلص، جرأت مند اور غیور مؤمن کی حیثیت سے تنظیمی جنگجوؤں کو ان کی غلطیوں کی جانب متوجہ کیا اور سمجھایا۔

’’اتحادِ علماء افغانستان‘‘ کی جانب سے افغانستان پر امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی۔ امریکا کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتوی دیا گیا۔ اسی طرح عالمی قوتوں کے اسلام مخالف اقدامات، جیسے توحید کے نام پر گمراہ کن کوششیں، مصر میں ڈاکٹر مرسی کی اسلامی تنظیم کی حکومت کے خاتمے اور اس طرح کے دیگر اہم مسائل کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کیا اور عالمِ کفر کی سازشوں کو بے نقاب کرتے رہے۔ ذاکری صاحب کی قیادت میں علمائے کرام کی اس جماعت نے درجنوں اہم ترین مسائل پر خصوصی تحقیق کی اور ان کا نچوڑ فتوی کی شکل میں لوگوں تک پہنچایا۔ اسی طرح وقتا فوقتا اسلامی ممالک کے سربراہان اور معروف و بااثر شخصیات کو باربار تنبیہی اور اصلاحی خطوط لکھے، جن کی تعداد 500 تک ہے۔

امریکا کے خلاف جہاد:

ذاکری صاحب اپنی ذاتی ذمہ داریوں اور مقامی اصلاحی کوششوں کے علاوہ سیاسی مسائل سے بھی بے پروا نہ تھے۔ انہوں نے امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں مسلسل افغانستان کے اسفار کیے۔ نہ صرف امارت اسلامیہ کے حکام کو اصلاحی دعوت دی، بلکہ امارت اسلامیہ کے سربراہ عالی قدر امیر المؤمنین ملامحمد عمر مجاہد کو بھی ہمیشہ نیکی کی نصیحت کرتے۔ انہوں نے امارت اسلامیہ اور مخالفین کے درمیان کئی بار صلح کی بھی کوششیں کیں۔ جب امریکا نے افغانستان پر حملے کا ارادہ کیا تو شیخ صاحب نے ایک فتوی دیا، جس کی رو سے امریکا کے خلاف جہاد کو فرض عین قرار دیا گیا تھا۔ وہ امریکی جارحیت سے کچھ عرصہ قبل افغانستان گئے۔ ملک کے کئی جنوبی، مرکزی اور جنوب مشرقی صوبوں کا دورہ کیا۔ عام لوگوں اور علمائے کرام سے ملاقاتیں کیں اور جہاد کی دعوت دی۔ وہ امریکا کے خلاف جاری حالیہ جہاد کے شدید حامی تھے۔ مختلف اجتماعات، مجالس، حتی کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمیشہ امریکا کے خلاف جہاد کی تبلیغ کرتے رہے۔ جارحیت کی موجودگی میں دشمن کے ساتھ کسی بھی قسم کی مصالحت کو اسلامی اصولوں سے سرتابی سمجھتے تھے۔

شیخ صاحب علی الاعلان انتہائی قطعیت سے ان نام نہاد علماء کی مخالفت کرتے تھے، جو امریکی جارحیت کو عالمی تعاون قرار دیتے اور اسے جواز فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کے ایک مفتی کے جواب میں، جنہوں نے امریکا کے خلاف جہاد کو ناجائز قرار دیا تھا، کہا کہ ’’یہ مفتی صاحب یا تو جاہل اور اسلام سے بے خبر ہیں یا دجال ہیں، جو لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ کفر کا حمایتی اور وکیل بننے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ شیخ صاحب نے 1991 میں حجاز کی مقدس سرزمین پر امریکی جارحیت کے خلاف جو فتوی دیا تھا، زندگی کی آخری سانس تک اسی موقف پر قائم رہے۔ امریکا کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔ انہوں نے افغانستان کے مسئلے پراپنا موقف درج ذیل نکات میں خلاصے کے ساتھ پیش کیا تھا:

1… امریکا اپنی ناکامی کا اعلانیہ اعتراف کرے۔

2… اپنی وحشی اور ظالم فوج افغانستان سے نکال دے۔

3… افغانوں کو اس جنگ میں ہونے والے جانی ومالی نقصان کا تاوان ادا کرے اور افغانستان کے معاملات سے دست بردار ہو جائے۔ افغان عوام اپنی ہمت سے عالمی استعمار کو شکست دے سکتے ہیں۔ اگر عالمی دنیا اس میں مداخلت سے باز آجائے تو یہ اپنے ملک کی تعمیر بھی خود کرسکتے ہیں۔

حال میں جب امریکیوں کو دائمی اڈے دینے کا موضوع سامنے آیا تو شیخ صاحب نے انتہائی دوٹوک انداز میں ان اڈوں کی مخالفت کی اورکابل حکام کو خبردار کیا کہ وہ اس معاہدے پر دستخط سے باز آجائیں۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ پر اپنے انٹرویوز میں ان اڈوں کی مخالفت میں خصوصی گفتگو کی۔ چوں کہ شیخ صاحب کو ایسے حساس حالات میں نامعلوم قاتلوں نے حملے کا نشانہ بنایا، اس لیے ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس قاتلوں نے اس اہم مسئلے پر شیخ صاحب کے موقف کی وجہ سے ہی انہیں نشانہ بنایا ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر:

شیخ صاحب خود کو حرام اور مشتبہات سے محفوظ رکھتے تھے۔ ہمیشہ نیک کام، اذکار، وظائف اور خیر کے کام انجام دیتے تھے۔ اَوروں کو بھی ہمیشہ نیک کاموں کا کہتے۔ حرام کاموں کے خلاف انتہائی سرگرمی سے کام کرتے۔ وہ بدعات، غیر شرعی طور طریقوں، مغربی کفریہ افکار، فحاشی، عریانی اور دیگر فتنوں کی روک تھام کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے۔ نہ صرف اپنی باتوں اور مواعظ سے لوگوں کو تنبیہ کرتے، بلکہ فتاوی اور رسائل کی اشاعت سے بھی یہ کوششیں جاری رکھتے۔ انہوں نے فلم سازی، تصویر کشی، ٹی وی، کیبل، غیر اسلامی ممالک سے گوشت کی درآمد، اسی طرح بینک کے سودی نظام، مغربی این جی اوز اور مغربی طریقۂ تعلیم اور دیگر غیر اسلامی تحریکوں کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے اس سلسلے میں 1433ھ کو مساجد میں لوگوں کی نصیحت اور دینی تعلیم کے لیے ایک جامع طریقہ تشکیل دیا۔ علمائے کرام اور ائمہ کو اس کا پابند بنایا کہ اپنی مسجد کے عام لوگوں کو دین کے بنیادی احکامات کی تعلیم اور درس دیں۔

تصنیفات:

شیخ صاحب نے اپنی علمی زندگی میں کئی رسالے اور تصنیفات چھوڑیں ہیں، جن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں:

’’الاذکار و فضائلہا، التصوف و مقاماۃ العشرۃ فی ضوء القرآن والسنۃ، الافتاء فی عدم جواز التصاویر والاوثان، اقوال المفسرین والفقہاء الحنفیۃ فی موجب السعی الی صلوۃ الجمعۃ و ترک التجارۃ، تنبیہ الاخوان علی استماع قرأۃ القرآن، التحقیق الاتم فی مسئلۃ لبس الخاتم، اقوال العلماء فی منع خروج النساء، العجالۃ النافعۃ فی سقی النفس العاطشۃ، تبدیل النسب ومذمتہ فی الاسلام، القول الفاصل بین الحق والباطل، حکم الشوری فی الشریعۃ الغراء، فصل الخطاب فی تشریح الخضاب، البیان الوافی فی بیان حکم المعازف والمزامیر و الملاہی، حکم الہجرۃ فی الشریعۃ المنورۃ، اشراط الساعۃ، اقوال الاخیار فی تشریح مولد النبی المختار، بیان المغرورین وعلاجہم، اثبات الکرامۃ بالقرآن والسنۃ، علاج الاسقام بالحجامۃ فی الاسلام، القول المفصل فی خواص العسل، الاستشفاء باستعمال الحبۃ السوداء، حکم اللحوم المستوردۃ من دول الکافرۃ، القول الجمیل فی فضیلۃ دعاء الخلیل، زاد الابرار الاستغفار بالاسحار، الدر المکنون فی فضیلۃ دعاء ذی النون علیہ السلام، الاحادیث الشریفہ فی فضیلۃ الحوقلہ وغیرہ۔

شہادت:

ذاکری صاحب 28 ربیع الاول 1435ھ بروز بدھ ظہر کے فرض کے بعد سنتوں کی ادائیگی کے لیے گھر جارہے تھے۔ مسجد کے صحن میں دروازے کے قریب دو نامعلوم افراد کی جانب سے ان پر فائرنگ کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق صرف ’’الحمد للہ‘‘ کے الفاظ کہے اور قبلہ رخ پر گر گئے۔ انہوں نے جامِ شہادت نوش فرما لیا تھا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

شیخ صاحب کے جنازے کی نمازجنازہ شہادت کے اگلے روز پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایوب اسٹیڈیم میں ہزاروں شرکاء کی موجودگی میں ادا کی گئی۔ ان کی نماز جنازہ ان کے صاحبزادے عبدالقیوم ذاکری صاحب نے پڑھائی۔ اسی روز شام چھ بجے کوئٹہ سبزل روڈ کے قریب ذاکری مسجد کے قریب مدرسے کی چاردیواری میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ شہادت کے بعد دارالعلوم حقانیہ کے شیخ الحدیث اور عالم اسلام کے عظیم عالم دین شیر علی شاہ صاحب مدنی نے انہیں ’’شیخ الشہداء‘‘ کا لقب دیا۔ بعد ازاں بڑے علمائے کرام: مفتی محمد تقی عثمانی، شیخ الحدیث مولانا حمد اللہ داجوی، مفتی زرولی خان صاحب اور دیگر علمائے کرام کی جانب سے بھی اس کی تائید کی گئی۔

کچھ یادیں:

شیخ صاحب کی زندگی کے کئی پہلو تھے۔ اس مختصر تحریر میں تمام اہم واقعات کا احاطہ ناممکن ہے۔ کوشش کریں گے بعض دل چسپ واقعات کی جانب اشارہ کریں۔

زابل کے شہری مولوی عبدالقادر کہتے ہیں: ملا مدد کے محاذ کے ایک مجاہد ملا خیرالدین نے واقعہ سنایا۔ ’’روس کے خلاف جہاد کے دوران ذاکری صاحب زابل آئے تھے۔ جب ہمارے جہادی مرکز پر آئے تو یہاں دشمن نے حملہ کردیا۔ اکثر مجاہدین پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔ مگر ذاکری صاحب نے ایک بڑی چٹان کی آڑ لے کر روسی طیاروں پر کلاشنکوف سے فائرنگ شروع کردی۔ مقامی جہادی ذمہ دار مولوی عصمت اللہ نے کہا: شیخ صاحب! گن کی گولیاں طیارے تک نہیں پہنچتیں۔ خدانخواستہ آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔‘‘ شیخ صاحب نے جواب دیا: ’’خاموش رہو، گولی کا پہنچانا ہم اور آپ پر لازم نہیں ہے۔ وہ مالک کوئی اَور ہے۔ ہم پر صرف کافروں کو نشانہ بنانا فرض کیا گیا ہے۔ ‘‘شیخ صاحب کے خاندان کے افراد اور قریبی متعلقین کے مطابق انہیں اللہ تعالی نے تقوی اور توکل کے ساتھ شجاعت اور زُہد کی صفت سے بھی خوب نوازا تھا۔ انہوں نے ساری زندگی اپنا جہادی موقف پوری جرأت سے بیان کیا۔ وہ خود فرماتے کہ ’’یہ اللہ تعالی کا احسان ہے میرا دل ایمان پر اتنا مطمئن ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اور حکومت سے ذرہ برابر خوف محسوس نہیں ہوتا۔ نہ انہیں مکھی کے پَر جتنی حیثیت دیتا ہوں۔ میرا اس پر ایمان ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ کائنات کے فیصلے صرف اور صرف اللہ تعالی کے تصرف میں ہیں۔ موت وحیات، عزت و ذلت، تکلیف، راحت اور زندگی کی تمام کیفیات کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔‘‘

شیخ صاحب میں دنیا سے بے پروائی بھی خوب بھری ہوئی تھی۔ وہ منصب، حکومت اور کرسی کی نہ صرف یہ کہ محبت نہیں رکھتے تھے، بلکہ نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ گزشتہ 35 سالوں میں افغانستان میں مختلف حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ اس دوران ہر شخص نے حکومت سے کچھ نہ کچھ حاصل کیا۔ مگر شیخ صاحب نے آخر تک غربت کی زندگی بسر کی۔ انہیں بار بار موقع ملا اور امتحانات میں گرے، مگر اللہ تعالی نے انہیں آزمائشوں میں سرخ رُو کردیا۔ وہ فرماتے تھے کہ ’’اگر مَیں دولت اور سونا جمع کرنا چاہتا تو سونے کی اینٹیں جمع کر لیتا۔‘‘ مگر انہوں نے آخر تک غربت کی زندگی کو ترجیح دی۔ 1431ھ تک کسی اور شخص کے ایک معمولی مکان میں گزارہ کرتے رہے۔ اسی سال انہیں ’’کوئٹہ شال درہ‘‘ کے مہتمم شیخ الحدیث حافظ عبدالواحد صاحب کی جانب سے سبزل روڈ کوئٹہ میں ذاتی زمین ہدیہ کی گئی۔ قاری غلام حضرت صاحب، جو اصلاً قندہاری تھے اور اس وقت کوئٹہ میں مقیم تھے، انہوں نے اسی زمین پر مدرسہ اور گھر تعمیر کرکے دیا۔ آخری دور میں وہ اسی گھر میں منتقل ہوگئے۔ پھر شہادت تک وہیں رہے۔

شیخ صاحب کی خوب صورت یادیں اور باتیں بہت زیادہ ہیں، مگر تحریر کی طوالت آڑے آتی ہے…..

دیوانے گزر جائیں گے ہر منزلِ غم سے

حیرت سے زمانہ انہیں تکتا ہی رہے گا

آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوش بُو

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا