مولوی دستگیر صاحب، حیات و شہادت

عبدالرؤف حکمت اِک ستارہ تھا میں ، کہکشاں ہوگیا! افغانستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ بادغیس امریکی جارحیت کے خلاف جہاد کا ایک گرم محاذرہاہے ۔ اس صوبے میں اگرچہ امریکا کے خلاف جہادی تحریک کے آغاز میں بہت سی مشکلات تھیں ۔ جس میں خطے میں امریکی حمایت یافتہ مسلح جنگجوؤں کی حکومت […]

عبدالرؤف حکمت

اِک ستارہ تھا میں ، کہکشاں ہوگیا!

افغانستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ بادغیس امریکی جارحیت کے خلاف جہاد کا ایک گرم محاذرہاہے ۔ اس صوبے میں اگرچہ امریکا کے خلاف جہادی تحریک کے آغاز میں بہت سی مشکلات تھیں ۔ جس میں خطے میں امریکی حمایت یافتہ مسلح جنگجوؤں کی حکومت ، دشمن کا دباؤ ، اسلحہ اور جہادی وسائل کی کمی سمیت ملک کے جنوب میں گرم جہادی محاذوں سے دوری اور مجاہدین کی محاصرانہ کیفیت قابل ذکر ہے۔ مگر ان تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس خطے کے غیور عوام اور ایثار صفت مجاہدین نے استعمار سے ٹکرانے کا عزم کر لیا تھا۔

بادغیس گزشتہ تیرہ سالوں میں پورے ملک کی سطح پر ایک نمایاں اور جارحیت پر کاری ضرب کرنے والامحاذ رہا ہے۔ جس میں دشمن کو بار بار سخت نقصانات اٹھانا پڑے۔ باوجود اس کے کہ بادغیس کے جہادی امتیازیات میں تمام مجاہدین اور مجاہد عوام کا حصہ ہے، جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ مگر ایک شخصیت ایسی ہے جو اس جہادی تحریک کی محرک اور موجد سمجھی جاتی ہے۔ جسے بادغیس کے عوام آج تک احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ وہ مولوی دستگیر شہید رحمہ اللہ ہیں۔ انہوں نے اپنی جرأت ، ایمان داری ، اخلاص اور قربانی سے بادغیس میں نہ صرف علی الاعلان جہاد کی بنیاد رکھی، بلکہ جہاد کا پیغام اس صوبے کے ایک ایک کونے تک پہنچایا ۔ عوام کو جہاد کی ہمہ پہلو حمایت پر تیار کیا ۔ آج یہاں اس نامور مجاہد کے حالات زندگی کو تازہ کیا جاتا ہے۔

مولوی دستگیر رحمہ اللہ!

مولوی دستگیر… حاجی اصل خان کے بیٹے اور حاجی فیض محمد کے پوتے تھے ۔  نورزئی قبیلے سے تعلق تھا ۔ 1397ھ ق کو باد غیس ضلع ”بالا مرغاب” کے گاؤں ”چلونک” میں ایک دین دار خاندان میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے بچپن ہی میں ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ۔ اس کے بعد بالامرغاب کے علاقے ”جہاندی ستی” میں مولوی وزیر محمد صاحب نامی علاقے کے ایک معروف عالم سے دینی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں انہوں نے بادغیس کے مختلف علاقوں سمیت ہرات ، فراہ ، قندہار اور ہلمند کے مختلف علاقوں کے دینی مدارس میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ امارت اسلامیہ کے دور اقتدار میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت عرصے تک ہرات کے شہر ”چہار راہی مستوفیت” کے قریب ایک مدرسے کے ناظم بھی رہے۔ 1427 ھ ق  میں پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مرکزی میں شہر کوئٹہ کے مشہور مدرسے ”دارالعلوم شالدرہ” سے دینی علوم سے سند فراغت حاصل کی۔ اسی علاقے کے مشہور عالم اور شیخ الحدیث مولوی عبدالواحد صاحب سے احادیث کی اجازت حاصل کی۔

حق سے جو وعدہ کیا تھا وہ وفا ہوتا رہا!

مولوی دستگیر نوجوانی ہی سے جہادی جذبہ رکھتے تھے ۔ ان کے قریبی ساتھی مولوی حیات اللہ اکبر کہتے ہیں: ” امریکی جارحیت کے ابتدائی سالوں میں جب مولوی دستگیر صاحب ہلمند میں درس دے رہے تھے، وہ اسی دور سے جہادی کارروائیوں میں شرکت کرنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی جہادی زندگی کا آغاز ہلمند اور قندہار سے کیا ۔ بادغیس میں باوجود اس کے کہ جہادی زندگی کاآغاز پہلے سے ہوچکا تھا اور دشمن پر جگہ جگہ حملے جاری تھے ۔ مگر اس صوبے میں مولوی صاحب کی آمد سے قبل جہادی کام بہت کم اور خفیہ طریقے سے ہورہا تھا ۔

مجاہدین اسلحے ، اہم وسائل اور تنظیمی تشکیلات کی کمی کا شکار تھے ۔ جب2007 ء میں مولوی دستگیر صاحب دینی علوم سے فارغ ہوئے اور اپنے علاقے میں جہادی کارروائی شروع کی تو انہوں نے اپنی کوششوں سے ایک مکمل جہادی انقلاب برپا کردیا ۔ ان کے ایک ساتھی بادغیس کے ضلع ”مقر” کے رہائشی مولوی عبدالقدوس واقعہ سناتے ہیں : مولوی دستگیر صاحب نے اپنے کام کا آغاز ابتدائی کوششوں سے کیا ۔ پہلی بار وہ جہادی اقدام کرنے لگے تو نہتے تھے ۔ اسلحہ  پاس نہیں تھا ۔ ان کے ہمراہ ہمارے کچھ اور ساتھی بھی تھے ۔ پہلے اسلحہ ڈھونڈنے کے لیے بالامرغاب کے گاؤں ”پنیرک” میں ایک سابق جہادی کمانڈر ”ملا گلاب الدین” کے پاس گئے اور ان سے اسلحہ کا تعاون چاہا۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ،انہوں نے دو کلاشنکوف کہیں سے ڈھونڈ کردیے ۔ پھر اسی علاقے کے ”غورتو” کے علاقے میں مولوی باز محمد نے ایک راکٹ لانچر دیا ۔ اس طرح ہمارے کچھ اور ساتھی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ مل گئے ۔انہوں نے اس تین عدد اسلحے سے جہادی تحریک کا آغاز کیا ۔ ایک وقت جب ہماری تعداد 12 تھی، تو پہلی بار ہم نے دشمن کی ایک این جی او کے اہل کاروں پر حملہ کیا۔ دوسری رات انہوں نے ضلع بالامرغاب کے ضلعی ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا۔ پھر مختلف پوسٹوں پر حملے شروع کردیے ۔ پہلے ہم صرف رات کو کام کرتے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مال غنیمت بھی ہاتھ آتا گیا ۔ ہمارے ساتھی بھی بڑھ گئے اور اسلحہ بھی کافی مل گیا ۔ بالا مرغاب کے قریب ایک پہاڑی علاقے ”حوض کبود” میں ہم نے مرکز قائم کیا۔ جب بادغیس میں ہمارے اس مضبوط جہادی مرکز کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تو مختلف اضلاع سے لوگ ہم سے رابطہ کرنے لگے ۔ اس طرح مجاہدین کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی ۔ ہم نے اپنی اعلانیہ کارروائیاں مقر ، درہ بوم اور دیگر علاقوں تک بھی پھیلادیں اور بہت سے وسیع علاقے فتح کر لیے۔

مولوی حیات اللہ نے مزید کہا: ابتدا میں بادغیس کے مجاہدین کی قیادت مولوی عبدالرحمن کے ذمہ تھی۔ مولوی دستگیر صاحب ان کے عسکری ذمہ دار رہے ۔ ان کے آنے کے ساتھ پورے بادغیس میں اعلانیہ جہاد شروع ہوگیا ۔ مثلا انہوں نے کم عرصے میں بالامرغاب کے علاقے ”سالوچار” کی ایک پوسٹ پر حملہ کیا ۔ اس کے بعد بالامرغاب اور ضلع مقر کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور بالامرغاب کے علاقے ”اچکزو” میں دشمن کے کانوائے پر حملہ کیا ۔ ان کارروائیوں نے دشمن کو ایک شدید ردعمل پر بھڑکایا ۔ ہرات اور بادغیس کے مراکز سے ایک بڑا کانوائے بالامرغاب پہنچا۔ مجاہدین نے یہیں پر دشمن کے خلاف دفاعی لائن بنالی اور مولوی دستگیر صاحب کی قیادت میں ”جوئی کارد تنگ” کے علاقے میں اس کانوائے سے لڑائی کی ۔ دشمن شکست کھا گیا اور پھر سے ضلعی مرکز کی جانب پسپا ہوگیا۔ اس کا پہلا سا رعب اور دبدبہ ختم ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی عوام میں جہادی جذبہ اٹھنے لگا اور جہاد مکمل طورپر اعلانیہ ہونے لگا۔ مولوی حیات اللہ کہتے ہیں: مولوی دستگیر صاحب نے گنتی کے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کرتب جہادی کام شروع کیا، جب ان کے پاس اسلحہ بھی نہیں تھا۔ مگر جب ان کی شہادت کے بعد مجاہدین کی گنتی کی گئی تو صرف ان کی کمان میں لڑنے والے مسلح اور فی الوقت فعال مجاہدین کی تعداد 3 ہزار تھی ۔

گولیاں چلتی رہیں اور فرض ادا ہوتا رہا!

اعلانیہ جہاد کے بعد بادغیس کے صوبہ بھر میں مولوی دستگیر صاحب کی عسکری قیادت میں جہادی کارروائیاں ہونے لگیں ۔ صرف 2007 میں دشمن پر 52 انتہائی مہلک حملے کیے ۔ اسی طرح 2008 کی جہادی کارروائیاں اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ذیل میں ہم مشتے نمونہ از خروارے کے طورپر ان جہادی کارروائیوں کی جانب اشارہ کریں گے۔ جو مولوی دستگیر صاحب کی قیادت میں ہوئیں۔ ”جوی کار” کے علاقے میں جنگ کے بعد مرغاب کے علاقے ”بوکن” میں داخلی اور خارجی فوجیوں کے ”غورماچ” کی طرف جانے والے کانوائے پر مجاہدین نے حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں دشمن اپنی 18 لاشیں میدان میں چھوڑ کر فرار ہوگیا ۔ مجاہدین نے 5 رینجر گاڑیاں قبضے میں لے لیں ۔ جارحیت پسندوں کا ایک ٹینک اور دو رینجر گاڑیاں بھی غنیمت میں پکڑ لیں، جن کو دشمن بھاگتے بھاگتے چھوڑ گیا تھا۔لیکن اس پر امریکیوں نے بمباری کردی ۔ مجاہدین نے کئی داخلی فوجیوں کو زندہ گرفتار کر کے ان کا اسلحہ غنیمت میں پکڑلیا ۔ اس جنگ میں جنتے فوجی زندہ رہ گئے، امریکیوں نے انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اٹھا لیا۔ لیکن اس جنگ میں دشمن کی بمباری میں 7مجاہدین شہید ہوگئے۔

بالا مرغاب کے علاقے ”منگان” میں دشمن اپنی چیک پوسٹیں قائم کرنا چاہتا تھا ۔ مولوی صاحب کی قیادت میں مجاہدین نے ان پر حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں دشمن کو بھاری جانی نقصان سے دوچار کرنے کے علاوہ 2 رینجر گاڑیاں اور دیگرمال غنیمت بھی مجاہدین کے ہاتھ آگیا۔ دشمن کے فوجی، علاقے سے بھاگ گئے اور ان کا پروگرام مکمل طورپر ناکام ہوگیا ۔ بالامرغاب کے مرکز کے آس پاس دشمن محاصرے کی حالت میں تھا ۔ ایک بار انہوں نے آپریشن کرنا چاہا اور اسی مقصد کی خاطر ضلعی ہیڈکوارٹر سے نکل کھڑے ہوئے۔ مگر مجاہدین نے ان کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ۔ یہ جنگ ایک ہفتہ تک جاری رہی، جس کے آخر میں دشمن بالکل تھک ہار چکا تھا۔ وہ شکست کھاکر پسپا ہوگیا ۔ مولوی دستگیر صاحب قندہار میں بھی دشمن کے ہاتھوں ایک مرتبہ گرفتار ہوچکے تھے اور مختصر سے عرصے کے لیے جیل میں رہ چکے تھے ۔وہ 2008 ء کے اوائل میں ہرات میں پھر دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور کابل کے پل چرخی جیل منتقل کیے گئے۔ یہاں 7 ماہ تک جیل میں رہے ۔ چوں کہ بادغیس کے عوام میں اللہ تعالی نے انہیں خاص مقبولیت اور محبوبیت عطا کی تھی۔ اس لیے بادغیس کے علماء اور قومی رہنماؤں نے ان کی رہائی کے لیے خصوصی کوششیں کیں ۔یہاں تک کہ 70 افراد کا ایک بڑا وفد کابل گیا اور بڑی شدت سے حکومت سے مولوی صاحب کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ چونکہ بادغیس کے سارے عوام ان کی رہائی کے لیے ان کی پشت پر کھڑے تھے، اس لیے حکومت نے مجبورا انہیں جیل سے رہا کر دیا۔ جب رہائی کے بعد مولوی صاحب اپنے علاقے میں لوٹے تو عام لوگوں اور مجاہدین نے ان کا شاندار استقبال کیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کی رہائی اور استقبال کا منظر ایک بڑے عوامی جشن کا تھا ۔ عام لوگوں نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور صدقات دیے ۔

مولوی صاحب نے ایک مخلص مجاہد کی حیثیت سے ان کے دلوں میں اپنے لیے مقام بنایا تھا ۔ علاقے کے لوگوں اور مجاہدین کے مطالبے پر امارت اسلامیہ کی جانب سے انہیں بادغیس کا عمومی جہادی ذمہ دار اور گورنر متعین کیا گیا ۔ انہوں نے امارت اسلامیہ کے طریقے کے مطابق مختلف اضلاع کی عسکری اور عوامی تشکیلات ، کمیشنز ، عدالتی نظام اور دیگر اداروں کو پھر سے منظم کرنا شروع کیا ۔ اس طرح بادغیس میں ایک منظم جہادی انتظامیہ سامنے آگئی ۔ ضلع مقر کے رہائشی صدیق اللہ کہتے ہیں: اس وقت دشمن چاہتا تھا ضلع مقر کے علاقے ”سنجیتک” میں… جو بادغیس کے مرکز قلعہ نو کے 10 کلومیٹر میں واقع ہے… وہاں اپنی پوسٹیں اور مورچے بنائیں۔دشمن کی حرکت مجاہدین کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ اس وقت دشمن نے اپنی ملیشیا کے سابق اہل کاروں اور حکومت کے حامی عام لوگوں سے مل کر مجاہدین کے خلاف یورش کرڈالی ۔ نہ صرف یہ کہ علاقائی مجاہدین پر حملہ کیا، بلکہ مجاہدین اور ان کے حامیوں کے مال مویشی بھی لُوٹ کر لے گئے ۔ گھروں کو آگ لگادی اور مجاہدین اور عام لوگوں کو ہجرت کرجانے پر مجبورکر دیا ۔ اس حملے میں حکومتی ملیشیا کے ہاتھوں 20 عام مسلمان شہید ہوگئے اور بے انتہا مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ اس وقت مولوی صاحب بالامرغاب میں تھے۔ انہوں نے دفاع کے لیے مجاہدین کو اس علاقے کی جانب بھیج دیا اور دشمن کی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کر دی ۔ یہ جنگ ایک ہفتے تک جاری رہی جس کے نتیجے میں حکومتی ملیشیا کے سربراہ ”عثمان بیگ” سمیت بہت سے ڈاکو ہلاک ہوئے۔حکومتی ملیشیا نے ایسی شکست کھائی کہ کبھی واپس یہاں کا رخ نہیں کیا ۔ ڈاکو راج ختم ہونے پر علاقے کے بے گھر ہونے والے لوگ پھر سے اپنے مکانوں میں لوٹ آئے ۔ اس واقعے میں مولوی دستگیر صاحب عام لوگوں کے حامی اور معاون کی حیثیت سے نمایاں ہوکر ابھرے اور لوگوں کو دشمن سے نجات دلائی ۔ علاقے میں مجاہدین کے حق میں عوامی اخلاص اور بھی بڑھ گیا ۔

مولوی دستگیر صاحب کے جہادی کارنامے بہت زیادہ ہیں مگر وہ کارنامہ بہت حیرت انگیز رہا ہے، جو27 نومبر 2008 ء کو ضلع بالا مرغاب میں پیش آیا ۔ مولوی حیات اللہ کہتے ہیں: ہرات سے دشمن کا ایک بڑا کانوائے بادغیس مرکز پہنچ گیا۔ جس میں 100 فوجی گاڑیاں شامل تھیں ۔ وہ آپریشن کی نیت سے بالامرغاب کی جانب بڑھنے لگا ۔مجاہدین نے اس کانوائے کو توڑنے کے لیے پوری تیاری کررکھی تھی ۔ یہ کانوائے ”منگان” پہنچا تو وہیں اس پر حملہ ہوگیا ۔ آگے بڑھنے کے بعد ”اکازو” کے علاقے ”جوی نو” میں مجاہدین نے سڑک کے دونوں جانب مورچہ بندی کررکھی تھی ۔ جب یہ کانوائے مجاہدین کی پہنچ میں آےا تو مجاہدین نے ان پر حملہ کردیا ۔ یہ لڑائی دوپہر کو شروع ہوئی اور عصر تک جاری رہی ۔ اس میں دشمن کی درجنوں گاڑیوں میں سے 21 رینجر گاڑیاں اور 6 رسد فراہمی کی گاڑیاں صحیح سالم حالت میں مجاہدین کے ہاتھ لگیں ۔ اس آپریشن میں 45 فوجی ہلاک اور 20 سے زیادہ زندہ گرفتار کیے گئے ۔ اس جنگ میں مجاہدین نے اتنا اسلحہ اور اہم وسائل مال غنیمت میں حاصل کیے کہ آئندہ 2 سالوں تک مجاہدین اسے استعمال کرتے رہے ۔ اس آپریشن میں مجاہدین کو درجنوں کی تعداد میں ہلکا اسلحہ ہاوان ، دہشکے ، ثقیل مشین گن ، 62 مشین گن اور دیگر طرح طرح کا اسلحہ مال غنیمت میں ملا۔

ان کارروائیوں نے نہ صرف عالمی میڈیا میں بھرپور کوریج حاصل کی ،بلکہ کابل حکومت کی بھی سخت مخالفت اوران پر اعتراضات ہونے لگے۔ ذرائع ابلاغ نے لکھا: ”یہ گزشتہ چند سالوں میں حکومت کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان ہے ۔” اس کارروائی کے بعد عالمی میڈیا میں مولوی دستگیر صاحب کا نام بہت مشہور ہوا۔ اس لیے خارجی اور داخلی دشمن مولوی صاحب کو شہید کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ مولوی حیات اللہ کہتے ہیں: ”اس کارروائی کے بعد کرزئی حکومت کے انٹیلی جنس سیکرٹری ڈاکٹر عبداللہ لغمانی نے مولوی صاحب کو فون کیا اور باقاعدہ موت کی دھمکی دی ۔ مولوی صاحب نے کہا : ” تم سے جو ہوسکے کرلو۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو موت سے ڈرتے ہیں۔”

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن !

دشمن کی جانب سے مولوی صاحب کی سخت نگرانی کی جارہی تھی ۔16 فروری 2009ء بمطابق 21صفر المظفر1430 ھ کووہ دشمن کی بمباری میں شہید ہوگئے ۔ مولوی حیات اللہ اکبری کہتے ہیں: ”مولوی صاحب عام لوگوں کے مسائل اور شکایات سننے، درخواستیں وصول کرنے اور ضروری امور نمٹانے کے بعد شام کو ہمارے گھر آئے۔ کچھ دیگر مجاہدین کے ساتھ مہمان خانے میں رہے ۔ اس رات کو طیاروں کی گردش بہت زیادہ تھی ۔چوں کہ مولوی صاحب تھکے ہوئے تھے ۔ اس لیے عشاء کی نماز کے فورا بعد سو گئے ۔ میں بھی گھر چلاگیا۔ رات کو ساڑھے دس بجے کا وقت تھا، جب اچانک بھاری اور دھماکوں کی آواز سنائی دی۔ باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا امریکی طیارے مہمان خانے پرتین بڑے بم گراکر جاچکے تھے ۔ جن میں سے ایک مہمان خانے کے کمرے پر اور دو کچھ فاصلے پر گرے تھے ۔ اس بمباری میں صرف ایک آدمی زخمی حالت میں زندہ بچ گیا تھا۔ جب کہ مولوی صاحب سمیت 7 افراد شہید ہوگئے تھے ۔ شہداء میں بادغیس کے ایک معروف مجاہد ”باز محمد” بھی شامل تھے ۔ مولوی دستگیر صاحب کے سینے پر امریکی بم کے پرزے لگ گئے تھے ۔ ان کے جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جس کے بعد انہیں اپنے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا ۔ ان کے پسماندگان میں صرف ایک بیٹا ہے، جس کی عمر ان کی شہادت کے وقت 8 سال تھی۔

تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں !

مولوی دستگیر صاحب ایک مخلص اور بہادر مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے کی سطح پر مجاہدین کے درمیان ایک محبوب رہنما کی حیثیت سے رہے۔ یہی ان کی کامیابی کا بڑا راز تھا ۔ ملا یار محمد اخند اُن کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”مولوی دستگیر صاحب کو بادغیس میں اللہ تعالی نے عوام میں بہت زیادہ مقبولیت اور محبوبیت عطا کی تھی ۔ ان سے عام لوگوں کی محبت کی وجہ یہ تھی وہ ہرطرح کے تعصبات سے پاک تھے ۔ قوم پرستی ، گرو ہ بندی اور دیگر حد بندیوں سے بالاتر تھے ۔ ہر کسی سے شریعت کے مطابق سلوک کرتے ۔ اپنے جہادی مشن کے بہت زیادہ وفادار تھے ۔ ہمیشہ اپنے عوام کے درمیان رہنا پسند کرتے ۔ ہمیشہ ان سے رابطے میں رہتے ۔ خود کو عام لوگوں سے بڑا نہ سمجھتے ۔ اسی قریبی تعلق کی بنا پر عوام کا ان پر اعتماد بہت پختہ تھا ۔ جیل سے رہا ئی کے بعد باغیس کے عوام میں خوشی کا وہ سماں بندھا جیسے گھر کے اپنے کسی فرد نے رہائی پائی ہو ۔ مولوی حیات اللہ نے مزید بتایا: میں نے ان دنوں ایک عام آدمی کویہ کہتے سنا: ”میں نے اپنے مرحوم رشتہ داروں کے لیے اتنے صدقے خیرات نہیں کیے جتنے مولوی صاحب کی رہائی کے لیے کیے ہیں۔” اکبری صاحب مزید بتاتے ہیں: ”جب مولوی دستگیر صاحب قید میں تھے ،تو میں اور مولوی اسماعیل صاحب ایک صحرا کی جانب نکلے ،جہاں مال مویشی چرانے والے لوگ رہتے ہیں۔ وہاں ایک کھلی مسجد کے قریب ایک ایک جھونپڑی تھی۔ ہم اس کے پاس بیٹھ کر عام لوگوں سے باتیں کرنے لگے ۔ اتنے میں ایک بڑھیانے پوچھا: ”مولوی دستگیر کو جیل سے رہائی نہیں ملی؟” ہم نے کہا: ” نہیں، اب تک رہا نہیں ہوئے ۔” یہ سنتے ہی وہ بڑھیا سسکیاں بھرنے لگی اور مولوی صاحب کی رہائی کے لیے سجدہ ریز ہوگئی۔ ہم اس کی آواز سن رہے تھے وہ اتنی عاجزی سے دعائیں مانگ رہی تھیں کہ ہمیں بھی رونا آگیا۔

مولوی حیات اللہ صاحب کہتے ہیں: ”مولوی دستگیر کا جہادی خاندان تھا ۔ ان کے والد صاحب روس کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ ان کا انتقال بہت پہلے ہوچکا تھا۔ صرف ایک والدہ زندہ تھیں۔ مولوی صاحب کی والدہ انتہائی دین دار اور غیور خاتون تھیں ۔ انہوں نے اپنے یتیم بچوں کی جہادی فکر کے ساتھ پرورش کی تھی۔ مولوی دستگیر صاحب کی شہادت کے بعد ان کے ایک اور بھائی بھی جہاد میں شہید ہوگئے ۔ جب ہم تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے، تو ان کی ا مّاں جان ہمارے پاس آئیں اور بولیں: ” میرے دو بیٹے شہید ہوگئے ہیں۔ مگر اب تک میں نے ان پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔” اس دوران مولوی دستگیر صاحب کا کم سن بیٹا بھی آگیا۔ دادی نے اپنے پوتے کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ” میں اپنے بچوں اور پوتوں کو جہاد کا نظریہ دے کے جوان کرتی ہوں۔ میں انہیں جہاد کا جذبہ دے کر پالتی ہوں ۔ میں نے انہیں جہاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ اگر یہ سب شہید ہوجائیں تو میں خود لڑنے کے لیے نکل آؤں گی۔ ان کے دیگر ساتھی اور وہ مجاہدین جنہوں نے مولوی صاحب کے ساتھ وقت گزارا تھا، اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ایک مخلص مجاہد اور بااثر رہنما تھے۔ جنہوں نے اپنا جہادی کردار بہت اچھے طریقے سے نبھایا۔

خدا رحمت کند ایں پاک طینت را