مولوی عبدالحکیم مرحوم ،ایک عہد ساز شخصیت

مولوی عبدالحکیم حقانی ان قابل قدر شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے روس کے خلاف جہاد، امارت اسلامی کی تاسیس اور پھر امریکا کے خلاف جہاد میں اہم کردار اد کیا۔ آپ نے ان تینوں مرحلوں میں اپنی ذمہ داری نہایت بحسن و خوبی انجام دی اور اسلامی نظاام کے نفاذ کیلئے اہم کارنامے انجام […]

مولوی عبدالحکیم حقانی ان قابل قدر شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے روس کے خلاف جہاد، امارت اسلامی کی تاسیس اور پھر امریکا کے خلاف جہاد میں اہم کردار اد کیا۔

آپ نے ان تینوں مرحلوں میں اپنی ذمہ داری نہایت بحسن و خوبی انجام دی اور اسلامی نظاام کے نفاذ کیلئے اہم کارنامے انجام دئیے۔ اس تحریر میں آپ کی جہادی زندگی کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے، تاکہ ہم ان کے کارناموں ان کی استقامت اور طویل جدوجہد کو سامنے رکھ کر اپنا مستقبل کا لائحہ عمل طے کرسکیں۔

زندگی کے ابتدائی ایام:

مولوی عبدالحکیم حقانی   کا تعلق پشتون قبیلے کی ذیلی شاخ ترہ کئی سے تھا۔ آپ   1936ء کو صوبہ ہلمند کے ضلع ہزارجفت میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور محلے کی قریبی مسجد سے   حاصل کی ، اور پندرہ سال کی عمر میں مزیددینی   تعلیم کے حصول کیلئے گھر کو خیر باد کہا اور زابل کے ضلع ارغنداب میں مولوی دُر محمد صاحب سے اسباق شروع کئے، اس کے بعد اسی علاقے میں قاضی عبدالحبیب صاحب، کندھار میں مولوی فضل الدین   صاحب اور زابل کے ضلع شاجوئی میں مولوی ضیاء الدین صاحب سے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا اور بالآخر 1974ء کو اسی ضلع کے مشہور عالم دین مولوی کمال الدین اخنذادہ صاحب سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔

علم کے اس طویل سفر میں آپ نے تمام علوم مثلاً صرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، تفسیر، علم الحدیث، منطق، تجوید سمیت مختلف مروجہ علوم حاصل کر نے کے بعد زابل میں درس و تدریس کا آغاز کیا، آپ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب تک اسی علاقے میں امامت اور درس و تدریس سے منسلک رہے اور سینکڑوں طلباء کو پڑھاتے رہے۔

کمیونسٹ جارحیت کے بعد:

۱۳۵۷ش کو جب سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر جارحیت کا آغاز ہوا اور اس کے مقابلے کیلئے جہادی تحاریک شروع ہوئیں اس وقت مولوی عبدالحکیم صاحب زابل کے ضلع شاجوئی میں درس وتدریس میں   مصروف تھے ۔ لیکن جہادی تحاریک کے آغاز میں ہی مجاہدین کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور آہستہ آہستہ تدریس کے میدان سے جہادی میدان میں آگئے۔

آپ دو سال تک اسی علاقے میں رہے اور جب شاجوئی میں مجاہدین کی قوت مضبوط ہوئی اور اکثر علاقے مجاہدین کے قبضے میں آئے تو آپ اپنے دیرینہ ساتھی مولوی عبدالغفار صاحب اور اپنے بھائی مولوی عبدالرزاق صاحب کے ساتھ اپنے آبائی علاقے   ہلمند کے ضلع ہزار جفت آئے تاکہ اس علاقے میں جہادی تحریک کا آغاز کر سکے کیونکہ اس علاقے   میں اس سے قبل جہاد کی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی۔

مولوی عبدالغفار صاحب کہتے ہیں جب ہم مولوی عبدالحکیم صاحب کی رہنمائی میں ہزار جفت پہنچے اس وقت ہلمند کے شمالی اضلاع میں جہادی تحریک کا آغاز ہوگیا تھا، لیکن جنوبی اضلاع جیسے ہزارجفت، نادعلی اور دوسرے علاقواں میں جہادی   تحریک شروع نہیں ہوئی تھی، ہم علاقے میں گشت کرتے اور   لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے، مولوی عبدالحکیم کچھ عرصہ بعد پاکستان تشریف لے گئے اور مولوی محمد نبی محمدی صاحب سے ملاقات کی، انہوں مولوی عبدالحکیم صاحب کو اسی علاقے کے جہادی کمانڈر کے طور پر منتخب کیا اور کچھ صفحات جس میں جہاد کی دعوت تھی اپنے ساتھ لائے۔ اس وقت ہم نے لوگوں کی مدد سے کچھ رقم کا بندوبست کیا کیونکہ جہاد کیلئے ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ موجود نہیں تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب اس رقم سے تین   بندوق اور تین پستول خرید کر لائے۔ اس کے بعد ہم نے عام لوگوں سے بھی کہا کہ اپنے ساتھ موجود اسلحہ نکال کر لائیں اس طرح 35 افراد پر مشتمل مجاہدین کی پہلی جماعت کمیونسٹ جارح پسندوں کے خلاف میدان میں اترنے کیلئے تیار ہوئی۔

جس طرح مجاہدین عام آبادی والے علاقوں میں اپنا مرکز نہیں بنا سکتے تھے   اس لئے ایک پہاڑی علاقے میں اپنا خفیہ مرکز بنا لیا اس دوران مجاہدین نے دو گاڑیوں کا بندوبست بھی کرلیا تاکہ دشمن پر حملے کی صورت میں علاقے سے نکلنے اور مرکز تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ ۱۳۵۹ش میں موسم گرما کے اواخر تک مولوی صاحب کی کوششوں سے مجاہدین دشمن پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہوئے۔ اور اسی سال موسم خزاں کے دوران   ایک حکومتی بیس پر حملہ پہلا حملہ کیا گیا۔

اس حکومتی مرکز پر مجاہدین کا حملہ کامیاب رہا اور یہ مرکز مجاہدین نے فتح کیا جس کے بعد ہلمند کے شمالی اضلاع سے بھی مجاہدین ہزار جفت پہنچنا شروع ہوئے جس کے بعد   مجاہدین نے مل کر جنوبی اضلاع میں دشمن کے مراکز پر حملے شروع کئے اور ۶ ماہ کے عرصے میں گرمسیر، ناوہ اور ناد علی مکمل طور پر مجاہدین نے فتح کئے اور یہ علاقے مجاہدین کے قبضے میں آگئے۔

لیکن کچھ عرصہ بعد روسی جارحیت پسندوں نے ملکی   کاسہ لیسوں   کے ہمراہ ان   اضلاع پر   واپس قبضے کیلئے   بڑا آپریشن کیا جس کے نتیجے مین ان اضلاع کے مراکز ایک مرتبہ پھر دشمن کے قبضے میں آگئے۔ لیکن نواحی علاقوں پر مجاہدین کا قبضہ برقرار تھا۔

مولوی عبدالحکیم صاحب اس علاقے کے مجاہدین کے ایک بہادر کمانڈر تھے۔ آپ نے ضلع گرمسیر میں مجاہدین کیلئے ایک بڑا مرکز بنایا تھا اور آپ کی رہنمائی میں لڑنے والے مجاہدین گرمسیر، ناوہ، نادعلی، گرشک اور یہاں تک کہ لشکر گاہ میں بھی دشمن کے خلاف پر سر پیکار رہے، اسی طرح اگر ان علاقوں میں روسی فوجیوں اور ان کے ہمنوا کمیونسٹوں کے قافلے داخل ہوتے تو مولوی صاحب دوسرے مجاہدین کے ہمراہ ان پر حملہ کرتے اور یہی سلسلہ روسی جارحیت پسندوں کے شکست تک جاری رہا۔

امارتِ اسلامی میں خدمات:

ملا عبدالمحمد جان جو مولوي عبدالحکیم صاحب کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے کہتے ہیں کہ : جب طالبان کی اسلامی تحریک کی تاسیس کا کندھار میں اعلان ہوا تو مولوی عبدالحکیم صاحب نے ہمیں ہزار جفت سے کندھار بھیجا تاکہ ہم   مجاہدین کو اپنی حمایت کا   پیغام پہنچاسکیں۔ اس وقت طالبان نے کندھار فتح کیا تھا اور اب ہلمند کی جانب ان کی پیش قدمی جاری تھی۔ ہلمند کے ضلع گرشک میں ہماری ملاقات طالبان کی اسلامی تحریک کے امیر ملا محمد عمر مجاہد سے ہوئی، ہم نے انہیں مولوی عبدالحکیم صاحب کا پیغام پہنچایا اس وقت       ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ نے ایک وفد ہزارجفت بھیجا اور انہیں ہدایت دی کہ اگر   جنگی کمانڈروں کو سرنڈرکرنے کی ضرورت پیش آئی تو مولوی عبدالحکیم صاحب کے ساتھیوں کے علاوہ تمام جنگی کمانڈروں کو سرنڈر کیا جائے۔ طالبان کا وہ   وفد ہزار جفت پہنچا اور یہ ضلع بغیر کسی مزاحمت کے مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں آگیا۔ اس وقت مولوی عبدالحکیم صاحب نے اپنے گروپ کا وہ تمام اسلحہ جو انہوں نے نجیب حکومت کے دوران زمین میں چھپا کر رکھا تھا واپس نکال لیا اور اسے طالبان کے حوالے کیا۔

مولوی عبدالحکیم صاحب   اس کے بعد   بڑے عرصے تک ضلع ہزار جفت میں معاون گورنر کے طور خدمات انجام دیتے رہے اور جب کابل پر طالبان کے فاتحانہ حملے کا آغاز ہوا اس وقت آپ کو اپنے ساتھیوں سمیت عالیقدر امیرالمؤمنین نے لوگر بلایا اور آپ کو اس   صوبے کا گورنر بنایا گیا۔

جلال آباد کی فتح کے بعد لوگر کے سابق گورنر مولوی عبدالکبیر صاحب جلال آباد گئے تو لوگر کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی ۔

جب شمالی اتحاد کے ساتھ جھڑپوں میں پروان کے گورنر قاری جلالزئی صاحب شہید ہوئے تو ان کی جگہ مولوی عبدالحکیم صاحب کو پروان کا گورنر منتخب کیا گیا ، اس وقت مولوی صاحب کے ساتھی پروان کے علاقے پُل مٹک میں جنگی پٹی پر خدمات انجام دے رہے تھے، شمال کے ساتھ جھڑپوں میں طالبان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے تو طالبان کی جنگی پٹی پروان سے نکل کر قرہ باغ تک پہنچی۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کچھ عرصہ تک کابل کے ضلع سروبی گورنر بھی رہے اور بعد میں میدان وردگ کے گورنر منتخب ہوئے۔

ایک سال بعد جب طالبان نے بامیان پر کئی اطراف سے حملہ کیا تو مولوی صاحب بھی اس حملے میں موجود تھے اور “بھسود” کی طرف سے طالبان کی رہنمائی کرہے تھے۔ بامیان کی فتح کے بعد آپ   کو امارت اسلامی کی جانب سے سمنگان کا گورنر منتخب کیا گیا، اس فریضے کے ساتھ آپ درہ صوف میں حزبِ وحدت کے باغیوں کے خلاف ہونے والے آپریشنز میں شریک رہے۔ سمنگان میں ایک سال کی خدمات کے بعد آپ کی بے پناہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امار ت کی طرف سے آپ کو روزگان کا گورنر منتخب کیا گیا اور مریکی جارحیت تک آپ اسی منصب پر خدمات کی انجام دہی میں مصروف تھے۔

امریکی جارحیت کے خلاف جہاد:

امریکی جارحیت سے قبل روزگان میں جان محمد خان نامی ایک پرانے کمیونسٹ نے خفیہ کاروائیوں کا آغاز کیا تھا جسے طالبان نے گرفتار کرکے   کندھار جیل بھیج دیا ۔ جب ملک پر امریکی جارحیت کا آغاز ہوا، اس وقت حامد کرزئی ایک امریکی خفیہ منصوبہ بندی کے نتیجے میں روزگان پہنچے اور یہاں طالبان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔

ملا حبیب الرحمٰن رحمانی جو مولوی صاحب کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں کہتے ہیں کہ جب مولوی صاحب   کو اطلاع ملی کہ روزگان میں حامدکرزئی   کی رہنمائی میں ایک مسلح گروپ طالبان کے خلاف   مسلح کارروائی کے سلسے میں یہاں پہنچ چکا ہے، تو آپ نے فوراً مجاہدین کی ایک جماعت تشکیل دی اور اسے روزگان کے پہاڑیوں میں بھیج دیا تاکہ کرزئی کے ساتھیوں کے ٹھکانے کا سراغ لگا سکیں۔ مجاہدین کئی دنوں تک پہاڑوں میں گھومتے رہے یہاں تک ایک دن انہوں نے کرزئی کے اہلکاروں کے ٹھکانو ں کی نشاندہی کرلی اور بعد میں اس پر حملہ کیا، اس وقت امریکی طیارے کرزئی کی مدد کیلئے اسلحہ پہنچاتے رہے، لیکن کرزئی طالبان کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور   مختصر وقت میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کرزئی میدان جنگ سے فرار ہوئے جس کے بعد امریکی طیارے ان کی مدد کیلئے آئے اور طیاروں کی مدد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

ملا حبیب الرحمٰن کہتے ہیں: اس وقت جب امریکی وحشی درندے   ہر جگہ پر اندھی بمباری کررہے تھے ہم سخت امتحان میں تھے۔ اس وقت مولوی صاحب عبدالحکیم آخر تک اس صوبے کے ایک نواحی علاقے میں ٹھہرے رہے، ساتھیوں نے انہیں اس جگہ سے نکل جانے کا مشورہ دیا۔ لیکن آپ کا کہنا تھا جب تک امیرالموّمنین نکلنے کا حکم نہ دیں   اس وقت تک اگر سارے امریکی بم اکیلے مجھ پر ہی کیوں نہ گرادئیے جائیں میں یہاں سے نہیں جاوّں گا ۔ رحمانی صاحب کہتے ہیں کہ مولوی صاحب اس وقت تک روزگان میں ہی رہے جب تک کندھار سے امارت اسلامی کے رہنما وّں کی طرف سے نکلنے کا پیغام نہ آیا۔

مولوی عبدالحکیم صاحب نے بعد میں مجاہدین کیلئے امریکا کے خلاف جہاد میں ایک عظیم رہنما اور استاد کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔ آپ کی رہنمائی میں مجاہدین کی   ایک بڑی جماعت جس طرح روس کے خلاف لڑ رہی تھی موجودہ جہاد میں بھی اس کی   کارروائیاں عروج پر ہیں۔

سانحہ ارتحال:

مولوی عبدالحکیم صاحب کے بھائی مولوی عبدالرازق صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو جہاد کی طرح علم دین سے بھی بہت رغبت تھی اس سلسلے میں ہلمند کے ہزارجفت، ماجتک اور دیار ہجرت میں پنجپائی کیمپ میں   کُل   چار مدارس کی بنیاد رکھی۔ آپ جہادی میدان میں بھی   علمی میدان سے لا تعلق نہیں ہوئے۔ جہاد کے ساتھ ان کی محبت کا ثبوت یہی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ جہاد میں گزارا، نہ صرف خود جہاد میں شریک رہے بلکہ اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو بھی جہادی ذہن کا مالک بنایا ۔   آپ کے دو بھتیجے شہید ملا نوراللہ نورانی امارت اسلامی کے دور حکومت میں شمال میں اور ملا عبدالنافع صوبہ غزنی کے ضلع مقر میں امریکا کے خلاف جہاد میں شہید ہوئے۔

ملا عبدالمحمد کہتے ہیں : کہ مولو ی عبدالحکیم صاحب نہایت متّقی اور بیت المال کے ساتھ نہایت ہی احتیاط کرتے تھے۔ مجاہد رہنما ہونے کے باوجود وہ بیت المال کے پیسے خود استعمال نہیں کرتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے   ایک شخص کو مالی امور کی نگرانی پر لگا دیا تھا اور اس شخص سے ایک ادنیٰ مجاہد کی حیثیت سے روزمرہ اور ضرورت کے مطابق پیسے لیتے۔

بالآخر علم اور جہاد کا یہ درخشندہ ستارہ طویل جہادی خدمات کے بعد 8 مئی 2014ء کو جہانِ فانی سے جہانِ بقا کی طرف کوچ کر گیا۔

انالله و اناالیہ  راجعون