مولوی محمد عالم کلیم حیات اور کارناموں پر نظر

أبوعابد 6جنوری 2016 کو امارت اسلامیہ افغانستان کے ایک عظیم اور تاریخ ساز مجاہد شہادت کے رتنے پر فائز ہوگئے ۔ جی ہاں مولوی محمد عالم کلیم وہ مجاہد تھے جو مجاہدین کے درمیان ایک قابل فخر اور مخلص مجاہد تھے ۔ انہوں نے کفار اور حق کے دشمنوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔ مولوی […]

أبوعابد

6جنوری 2016 کو امارت اسلامیہ افغانستان کے ایک عظیم اور تاریخ ساز مجاہد شہادت کے رتنے پر فائز ہوگئے ۔ جی ہاں مولوی محمد عالم کلیم وہ مجاہد تھے جو مجاہدین کے درمیان ایک قابل فخر اور مخلص مجاہد تھے ۔ انہوں نے کفار اور حق کے دشمنوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔ مولوی محمد عالم کون تھے ؟ انہوں نے زندگی کیسی گذاری؟ اسلامی نظام کی راہ میں کونسی جہادی خدمات انجام دیں؟ ذیل کی تحریر میں آپ پڑھیں گے ۔

شہید مولوی محمد عالم کلیم

مولوی محمد عالم کلیم 1343ھش سال کو صوبہ زابل ضلع میزان کے ایک گاوں میں ایک گاوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام محمد اصغر تھا ۔ ان کاتعلق افغانستان کے قبیلے اندڑ سے تھا۔

مولوی محمد عالم کلیم نے کم عمری ہی میں دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے پاکستان ، صوبہ بلوچستان پشین میں حاصل کی ۔ بعد ازاں مزید علوم حاصل کرنے کے لیے قبائل گئے ۔ وہاں شمالی وزیرستان میرانشاہ میں ممتاز جہادی رہنما مولوی جلال الدین حقانی صاحب کے جاری کردہ مدرسہ منبع العلوم میں داخل ہوئے اور دینی علوم کا آغاز کردیا۔

چونکہ مولوی جلال الدین حقانی صاحب کا مدرسہ تعلیمی خدمت کے علاوہ جہادی فکر کا مدرسہ بھی تھا اس لیے ان کی تربیت جہادی ماحول میں ہوئی ۔ بعدازاں مولوی جلال الدین حقانی کی قیادت میں افغانستان کے جنوب مشرق اور پکتیا میں عملی طورپر جہاد میں شریک ہوگئے ۔ اور جہاد کے ابتدائی سفر کا آغاز یہیں سے کیا۔

خوست میں کچھ عرصہ جہاد کے بعد وہ زابل آئے اور اپنے علاقے ضلع میزان میں امیر ملا ظریف کی قیادت میں سرخ لشکر کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔

مولوی محمد عالم کلیم نے جہاد کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ لورا لائی ، کوئٹہ اور دیگر مختلف علاقوں میں دینی مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی ۔ کمیونزم کے خاتمے تک ہمیشہ جہاد پر گئے مگر خانہ جنگی اور طوائف الملوکی کے دور میں اپنی ساری توجہ صرف دینی تعلیم پر مرکوز رکھی ۔

انہوں نے اپنی دینی تعلیم کا سلسلہ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں پایہ تکمیل کو پہنچایا اور پاکستان کے علاقے مردان میں مشہور عالم مولوی حمد اللہ جان داجوی صاحب سے احادیث اور فراغت کی سند حاصل کی۔

مولوی محمد عالم صاحب اس وقت طالبان تحریک میں شامل ہوئے جب تحریک کا قندہارسے نیا نیا آغاز ہوا تھا اور ابھی قندہار شہر پر ان کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے زابل ضلع دایچوپان میں ایک گروپ کمانڈر مولوی عبدالخالق کی قیادت میں اسلامی تحریک میں جہاد کا آغاز کیا ۔ کابل کی فتح کے بعد بھی پروان ، کاپیسا اور افغانستان کے شمالی علاقوں میں بہت سی جنگوں میں ایک مخلص اور اطاعت شعار مجاہد کی حیثیت سے حصہ لیا ۔

1998 میں جب طالبان کا ایک لشکر درہ سالنگ کا ٹنل عبور کرکے افغانستان کے شمالی علاقے میں داخل ہوا تو اس وقت مولوی محمد عالم جبل السراج کے علاقے میں شوری نظار کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور کئی ماہ ان کی جیل میں رہے ۔

مولوی محمد عالم شوری نظار کے جس کمانڈر کی قید میں تھے اس کمانڈر کا بھائی امارت اسلامیہ کی قید میں تھا ۔ اس کمانڈر نے مولوی محمد عالم سے کہا کہ اگر تم میرے بھائی کو رہائی دلواو گے تو میں تمھیں آزاد کردوں گا۔ مولوی محمد عالم صاحب ایک ضامن کے ساتھ کابل آئے اور جہاد خط کے کمانڈر سے کہا کہ انہیں مشروط طورپر رہائی ملی ہے اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ فلاں کمانڈر کے بھائی کو رہائی دلائے گا ۔ اگر آپ حضرات کی مرضی ہو تو اس کے بھائی کو رہا کردو ورنہ میں واپس دشمن کے پاس جارہاہوں ۔

اس وقت پہلے مرحلے میں کمانڈر کے بھائی کی رہائی پر اتفاق نہ ہوسکا اس لیے مولوی محمد عالم صاحب نے واپس دشمن کے پاس لوٹ جانے کا ارادہ کیا ۔ ان کی واپس روانگی کے بعد مجاہدین رہنماوں نے فیصلہ کیا کہ شوری نظار کے کمانڈر کے بھائی کو رہا کردیا جائے ۔ اس طرح مولوی محمد عالم آدھے راستے سے واپس لوٹ آئے ۔ دشمن کے پاس واپس لوٹنے اور دشمن سے وعدہ کی پاسداری کا ان کا یہ ایک بے مثال کارنامہ تھا۔

امریکا کے خلاف جہاد

کابل سے طالبان کی عقب نشینی اور امریکی حاکمیت کے قیام کے بعد مولوی محمد عالم صاحب ان بہادر اور شیر صفت مجاہدین میں سے تھے جنہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ زابل میں جہاد کا آغاز کردیا ۔ زابل کے ضلع شاجوئی میں ان کا شمار صف اول کے اول ترین مجاہدین میں ہوتا تھا۔

ان کے ایک قریبی ساتھی مولوی محمد انور کا کہنا ہے کہ وہ وقت انتہائی غربت اور تنگدستی کا دور تھا۔ مولوی صاحب اور دیگر مجاہدین کے گھروں کی حکومت نے تلاشی لی تھی اور سارا اسلحہ لے کر چلے گئے ۔ یہاں تک کہ ایک عدد گن کا ملنا مشکل تھا۔ مولوی محمد عالم نے مجھے ایک طالبان حکومت کے ایک کمانڈر کے پاس بھیجا کہ ان سے کہہ دیں کہ ایک کلاشنکوف کا انتظام کہیں سے کردیں ۔ میں اس کے پاس گیا توانہوں نے جواب دیا کہ مولوی عالم سے کہو پوری امارت ختم ہوچکی ہے اب ایک کلاشنکوف یہ دوبارہ قائم نہیں ہوگی ۔ میں نے آکر مولوی محمد عالم سے ایسا ہی کہا ۔ مولوی صاحب نے قسم کھاکر کہا کہ اگر تمام کے تمام مجاہدین بھی ہتھیار ڈالدیں پھر بھی آرام سے نہیں بیٹھوں گا اور ایک کلاشنکوف بھی نہ ملے تو خالی ہاتھ بھی جہاد جاری رکھوں گا۔

مولوی عبدالحلیم منصور جو اس وقت گروپ کمانڈر تھے کہتے ہیں ان کے ساتھیوں میں پہلے پہل ہم تین آدمی یعنی مولوی محمد عالم ، اسداللہ جمشید شہید اور میں تھا جنہوں نے خفیہ طورپر جہادی کاموں کا آغاز کیا ۔ شروع میں صرف ضلع شاجوئی میں کارروائی شروع کی بعد میں دایچوپان ، خاکران اور ارغنداب تک ہم نے کارروائیوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے بتایا ہم نے 54 عدد گنیں تقسیم کیں اور نوجوانوں کو جہاد کے لیے تیار کیا۔ بعد میں اس پورے گروپ کا کمانڈر مولوی محمد عالم کو متعین کیا گیا جنہوں نے تشکیلات مزید وسیع کردیں۔

عبدالحلیم منصور ان ابتدائی سخت ترین دنوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں کرتے ہیں :” وہ انتہائی شدید حالات تھے ۔ کوئی خوف سے مجاہدین کو شب بسری کے لیے ٹھکانہ فراہم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ہم شہر میں آکر تندور سے بہت سی روٹیاں لے کر جاتے اور کئی کئی دن پہاڑوں میں اسی سے گذارہ کرتے ۔ گرمی اور سردی کی بہت سی راتیں ہم نے پہاڑوں میں کھلے آسمان تلے بسر کیں۔ یہاں تک کہ شدید سردی کے دنوں میں ریگستانوں میں قبر کی طرح کھڈے کھود اس میں لیٹ جاتے اور اوپر اپنے اوپر ریت ڈال دیتے۔ شدید سردی سے ہمارے چہرے ایسے سیاہ پڑ گئے تھے کہ قریبی جان پہچان والے لوگ پہچان نہ پاتے تھے ۔ سردی اور بھوک سے بہت سے ساتھی بے سدھ ہوکر بے ہوش جاتے ۔

ایسے ہی آزمائشی حالات سے گذر کر مولوی محمد عالم صاحب نے جارحیت پسندوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ مگر تمام مجاہدین کی طرح ان کے ساتھ بھی اللہ کی مدد شامل حال تھی ۔ ان کے ساتھیوں کی تعداد میں بہت جلد اضافہ ہوگیا۔ اللہ تعالی نے انہیں غنیمتیں عطاکیں ۔ ان کا حلقہ کار وسیع ہوا ۔ زابل کے مختلف اضلاع کے علاوہ غزنی اور قندہار میں بھی جہادی خدمات کا آغاز کردیا ۔ یہاں تک کہ حالیہ سالوں میں ان کے اپنے گروپ مجاہدین کی تعداد ایک ہزار مسلح مجاہدین تک پہنچ گئی۔

جہاد کے ابتدائی سالوں میں مولوی محمد عالم کا مشہور کارنامہ اس اطالوی افسر کا قتل تھا جو چاہتا تھا کہ قندہار سے کابل تک موٹر سائیکل پر سفر کرے ۔ بازرگان کے علاقے میں مولوی صاحب کی قیادت میں مجاہدین نے اس پر حملہ کرکے اسے ہلاک کردیا۔ اس حملے سے میڈیا پر ایک بارپھر مجاہدین کی موجودگی کی خبریں گرم ہوگئیں ۔

اس کے بعد ان کی قیادت میں ارغنداب کے پولیس سربراہ عبدالمحمد کو مجاہدین نے سیاگز بند کے علاقے میں ایک گھات حملے میں ہلاک کردیا ۔ اس کے بعد تازی کے علاقے میں عمومی شاہراہ پر دشمن سے پورے دن تک لڑائی جاری رہی اس طرح اعلانیہ طریقے سے جہادی کارروائیوں کا آغاز ہوگیا۔

اعلانیہ جہاد کے بعد ابتدائی سالوں میں وہ کارروائیاں جن میں مولوی صاحب اپنے ساتھیوں سمیت شریک تھے وہ حسب ذیل تھیں ۔

ارغنداب ، باغ میں چیک پوسٹ کا مکمل خاتمہ ، ضلع خاکران کے مرکز کی فتح ، ضلع ارغنداب میں چیک پوسٹیں اور میونسپل کارپوریشن کے مرکز پر قبضہ ، امریکی فوجیوں کے ساتھ ارغنداب میں شدید لڑائی جس میں پہلی بار امریکا کےدس فوجی ہلاک اور چار ٹینک تباہ ہوگئے ۔ غزنی سے آنے والی فوجی کانوائے کو پسپا کرنا ، جس میں جاوید نامی ایک کمانڈر کو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے مولوی محمد عالم نے راکٹ سے اڑادیا۔

 

مذکورہ کارروائیوں کے علاوہ مولوی محمد عالم نے اور بھی جہادی کارروائیاں سرانجام دیں ، یہاں سب کا تذکرہ ناممکن ہے ۔ مگر مجموعی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ زابل کی حد تک وہ ایک عظیم اور فعال مجاہد تھے ۔ ان کا اکثروقت محاذوں پر گذرتا تھا۔ گذشتہ 14 سالوں میں ان کے ایک ہزار مجاہدین کے گروپ میں سے 203 شدید لڑائیوں میں شہید ہوگئے ۔ مولوی محمد عالم صاحب امریکا کے خلاف جہاد میں 3بار زخمی ہوگئے ۔ انہوں نے زابل ، ارغنداب ، شہر صفا ، شملزو، نوبہار ، شینکی ، میزان اور دائی چوپان کے اضلاع میں عسکری ذمہ داریاں سرانجام دیں ۔ اسی طرح زابل کے صوبائی کمیشن کے رکن اور کچھ عرصہ اس کے سربراہ بھی رہے۔

مولوی محمد عالم کلیم کی شخصیت کے حوالے سے

مولوی محمد عالم کلیم ایک سچے فداکار اور سرفروش مجاہد تھے ۔ وہ ایک قابل عالم اور مدرس تھے۔ انہوں نے اپنے گھر کے قریب دو مدارس قائم کیے ایک طلبہ اور دوسرا طالبات کے لیے ۔ جس میں سینکڑوں بچے اور بڑے پڑھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی اصل مصروفیت اللہ کی راہ میں مسلح جہاد تھا۔

وہ جس طرح بیرونی کافروں کے شدید دشمن تھے ۔ انہوں نے داخلی کٹھ پتلیوں اور جاسوسوں کے خلاف موقف اپنایا ۔ ملا احمد اللہ وثیق کہتے ہیں کہ مولوی صاحب اس آیت سے زیادہ استدلل کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صفت یہ تھی کہ اشداء علی الکفار رحماء بینم۔ اسی وجہ سے وہ کفار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بہت جرات سے کام لیتے ۔ ان کی اسی تیز ترین کارروائی کی بدولت زابل میں دشمن کے ساتھیوں خصوصا جاسوسوں کا خاتمہ ہوگیا اور جو موجود تھے وہ فرار ہونے پر مجبور ہوگئے ۔

مولوی صاحب کے ایک قریبی ساتھی یحیی کہتے ہیں کہ مولوی صاحب ہر وقت قرآن کریم کی تلاوت کرتے ۔ دس منٹ کا وقت ملتا بھی تو قرآن کریم اٹھا کر تلاوت شروع کردیتے ۔ جنید نام کے ایک مجاہد کہتےہیں کہ کثرت تلاوت کے باعث بہت مرتبہ سوتے میں بھی قرآن کریم کی آیت کی تلاوت کرتے ۔ تلاوت کے علاوہ تہجد کی نماز کا بھی ان کا معمول تھا ۔ شدید سے شدید حالات میں بھی اسے قضا نہیں کرتے تھے۔

فاروق نام کے ایک مجاہد کہتے ہیں کہ زخمی ہونے کے دوران مولوی صاحب ہمارے ساتھ موٹر سائیکل پر گشت کرتے ، ایک رات موسم بہار کے ابتدائی ایام کی بارش تھی اور شدید سردی تھی ۔ شاجوئی کے علاقے کرتو میں میرے اور مولوی صاحب کی رات پہاڑوں میں تھی ۔ آدھی رات میں نے کھنکنے اور برتنوں کی آوازیں سنیں۔ گھبرا کر میں اٹھا کہ کہیں امریکی تو نہیں آئے ۔ مگر جب دیکھا کہ مولوی صاحب زخمی بھی تھے بارش اور شدید سردی میں اٹھے تھے اور ٹھنڈے پانی سے وضو بناکر نماز ادا کررہے تھے ۔

ان کے ساتھیوں کے بقول مولوی صاحب کی ایک اور صفت یہ تھی کہ جماعت کی نماز قضا ادا نہیں کرتے تھے ۔ حتی کہ دو افراد بھی ہوتے تب بھی نماز باجماعت ادا کرتے ۔ وہ ساتھیوں سے کہتے کہ موٹر سائیکل پر بیٹھتے وقت ایک طالب اور ناخواندہ مجاہد بیٹھا کرو اور جماعت کی نماز مل کر ادا کیا کرو جہاں بھی نماز کا وقت ہوجایا کرے۔

شہادت:

مولوی محمد عالم کلیم رحمہ اللہ جنہیں اللہ تعالی نے باربار دشمن کے چھاپوں اور حملوں میں نجات دی بالآخر کٹھ پتلی دشمن کے ایک بزدلانہ حملے میں رواں 2016 کے 6 جنوری کو شہادت کے اعلی رتبے پر فائز ہوگئے ۔

ان کی نماز جنازہ میں امارت اسلامیہ کے رہنماوں اور ہزاروں مجاہدین اور عام مسلمانوں نے شرکت کی ۔

ان کی روح شاد اور یادیں تازہ رہیں۔

رحمه الله تعالی