پرعزم اور صاحب بصیرت شہید مولوی اختر محمد عثمانی رحمہ اللہ

عبدالروف حکمت امارتِ اسلامیہ افغانستان کے اعلیٰ جہادی کمانڈرشہید مولوی اختر محمد عثمانی رحمہ اللہ کی سیرت زندگی اور ان کی جہادی سرگرمیوں  کا مختصر جائزہ ۔ ولادت: شہید مولوی اختر محمد عثمانی (رحمہ اللہ) 1965ءکو افغانستان کے صوبہ ہلمند میں  واقع جوشالی میں  مولوی نور محمد کے ہاں  پیدا ہوئے۔ مولوی نور محمد علاقے […]

عبدالروف حکمت

امارتِ اسلامیہ افغانستان کے اعلیٰ جہادی کمانڈرشہید مولوی اختر محمد عثمانی رحمہ اللہ کی سیرت زندگی اور ان کی جہادی سرگرمیوں  کا مختصر جائزہ ۔

ولادت:

شہید مولوی اختر محمد عثمانی (رحمہ اللہ) 1965ءکو افغانستان کے صوبہ ہلمند میں  واقع جوشالی میں  مولوی نور محمد کے ہاں  پیدا ہوئے۔ مولوی نور محمد علاقے کی مشہور شخصیت اور محترم عالم دین تھے۔

ابتدائی تعلیم

شہید مولوی عثمانی نے ابتدائی تعلیم اپنے محترم والد سے اور گاﺅں  کے مدرسے میں  حاصل کی۔ بعد ازاں  بیشتر پڑھائی کی خواہش دل میں  لیے سنگین علاقے کے مشہور و معروف مرکزی مدرسے کا رُخ کیا۔ اسی دوران افغانستان پر روسی افواج نے چڑھائی کردی اور نوجوان اختر محمد دیگر افغان نوجوانوں  کی طرح جنگ میں  مصروف ہوگئے۔ دریں  اثناءانہوں  نے مدرسے کی بھاگ ڈور بھی سنبھال لی اور کئی سالوں  تک خدمتِ دین میں  مصروف رہے۔

اعلی دینی تعلیم

افغانستان سے روسی فوجوں  کے نکلنے کے بعدشہید عثمانی مزید دینی تعلیم کے لیے ہمسایہ ملک پاکستان تشریف لے گئے جہاں  انہوں  نے چند بڑے اور مشہور مدارس میں  تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح شہید موصوف نے سال 1415 کو دارالعلوم حقانیہ سے دورہ حدیث مکمل کرکے فراغت حاصل کی۔

اسلامی تحریک طالبان میں  شمولیت

شہید عثمانی ایک ایسے وقت میں  تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوئے جب قندھار میں  پھیلی افراتفری کو مٹانے کے لیے اسلامی تحریک طالبان کا قیام عمل میں  لایا جاچکا تھا۔

عین اس وقت جب شہید اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گھر یعنی صوبہ ہلمند کی طرف جا رہے تھے تو راستے میں  انہوں  نے تحریک طالبان کی شکل میں  اُمید کی ایک نئی کرن دیکھی۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک طالبان اپنے ابتدائی دنوں  میں  ویش اور سپین بولدک جیسے سرحدی علاقوں  پر قبضہ کر چکی تھی۔

جناب عثمانی صاحب نے اپنے دینی فریضے کا پاس رکھتے ہوئے اس نوآموز اسلامی تحریک جسے لوگ طالبان کے نام سے جانتے تھے، کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اور ان کا یہ ساتھ شہادت کے حصول تک قائم رہا۔

شہید عثمانی کا تحریکِ طالبان میں  عسکری اور انتظامی کردار

شہید عثمانی امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کے نہایت قریبی ساتھی تھے اور امارت اسلامیہ کے حکومتی کاموں  میں  انہوں  نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دورانِ حکومت اور اس کے بعد امریکیوں  کے خلاف جہاد میں  شہید عثمانی کا کردار نمایاں  رہا اور ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔

ان کا پہلا سرکاری عہدہ قندھار شہر کے نائب چیف پولیس کی حیثیت سے تھا جس کے فوراً بعد ان کو اس اہم شہر کا چیف پولیس مقرر کر دیا گیا۔ بعد میں  وہ قندھار فوج کے کورکمانڈربنے اور چار سال یعنی امریکی جارحیت تک اسی عہدے پر فائض رہے۔

اس تمام جدوجہد کے دوران شہید عثمانی کا کردار بہت نمایاں  رہا۔ جب طالبان برہان الدین ربانی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کابل پر چڑھائی کر رہے تھے تو شہید عثمانی پہلی صف یعنی چار آسیاب کی فرنٹ لائن میں  موجود تھے۔ اسی طرح جب ہرات سے اسماعیل خان نے ہلمند پر حملہ کیا تو شہید عثمانی نے قندھار سے نکل کر اپنے سینکڑوں  دوستوں  کے ساتھ مل کر ایک دفاعی صف تشکیل دے کر ان کی پیش قدمی کو روکا۔ اسی طرح اسماعیل خان کی شکست کے لیے جس قافلے نے قندھار سے ہرات کا رخ کیا اس میں  بھی شہید عثمانی شریک تھے۔

ملک کے شمالی محاذ پر بھی ان کا کردار نمایاں  رہا۔ کئی مہینوں  تک انہوں  نے صوبہ بلخ کے انتظامی امور کی نگرانی کی اور پھر درہ صوف اور سنگچارک کے محاذوں  میں  بھی انہوں  نے دشمن قوتوں  سے نبرد آزمائی کی۔ مزار میں  چندایرانیباشندوں  کے قتل کے بعد جب ایرانی حکومت نے افغانستان کی سرحد پر ”ذوالفقار“ نامی جنگی مشق کا آغاز کیاتو اس وقت ملکی سا لمیت ، دفاع اور اسلامی امارت کی حرمت کا پاس رکھنے کے لیے شہید عثمانی کئی سو مجاہدین کی رہنمائی کرتے ہوئے ایران کی سرحد پر پہنچ گئے۔

افغانستان پر امریکی جارحیت سے دو سال قبل، عالی قدر امیر المومنین کی طرف سے بھیجے گئے ایک وفد کی سرپرستی میں  شہید عثمانی شمالی افغانستان کے دورے پر گئے۔ اس ایک ماہ میں  شہید عثمانی نے تمام شمالی صوبوں  کا دورہ کیا‘ مختلف قبائلی اور دیگر شخصیات سے ملاقاتیں  کیں  اور اس طرح انہوں  نے عوام میں  دینی اور فکری شعور کو بیدار کرنے میں  اہم کردار ادا کیا۔ ان کے ایک ساتھی جو اس سفر میں  ان کے ہمراہ تھے کا کہنا ہے کہ جناب عثمانی نے شمال کے سارے علاقوں  کا گاﺅں  کی حد تک دورہ کیا اور وہاں  جاکر اسلامی امارت کے منشور اور اہداف ومقاصد پر عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی۔ اسی طرح انہوں  نے دھیان کے ساتھ لوگوں  کی شکایات اور خواہشات کو سنا اور ان کی مشکلات کا جائزہ لیا۔

امریکی جارحیت کے خلاف شہید عثمانی کا عسکری کردار:

امریکی جارحیت کے بعد شہید اختر محمد عثمانی نے اپنی ذمہ داریاں  متانت اور صداقت کے ساتھ نبھائیں ۔ امریکی حملے کے بعد موصوف کا کام مجاہدین کو دوبارہ یکجا اور متحد کرنا تھا اس راستے میں  انہیں  بے شمار مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ہمت نہ ہارے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔

امریکیوں  کے خلاف جہاد کو ازسرنو منظم کرنے کے لیے امیرالمومنین کے حکم پر جس مجلس شوریٰ کو تشکیل دیا گیا اس میں  شہید عثمانی بھی شامل تھے اور عین اسی وقت شہید عثمانی صوبہ ہلمند میں  مجاہدین کے بالعموم کاموں  کے نگراں  بھی تھے۔ وہ اس دوران اپنی ذمہ داریوں  کو نہایت خلوص اور محنت کے ساتھ انجام دیتے رہے یہاں  تک کہ 28 ذوالقعدہ 1427 ہجری مطابق 18/12/2006 ءکو ہلمند کے علاقے برامچہ میں  دشمن کے ایک جاسوسی طیارے کے حملے میں  شہادت پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

شہید عثمانی کی علمی اور جہادی شخصیت

شہید عثمانی کو اللہ تعالی نے نیک صورت اور سیرت سے نوازا تھا۔ ان میں  بہت خوبیاں  تھی اور ان کا اخلاق نہایت اعلی تھا۔شہید عثمانی شکل و صورت میں  درمیانہ قد اور معتدل جسامت کے مالک تھے۔ ان کا تعلق ایک علمی اور دینی خاندان سے تھا، اسی بنا پر تقویٰ اور دیانت داری ان کی ذات کا حصہ تھی۔ ان کا دینی تعلیم سے اتنا لگاﺅ تھا کہ جب وہ قندھار میں  کورکمانڈر کی حیثیت سے کئی ذمہ داریاں  نبھا رہے تھے تو اس وقت بھی وہ شہر کی جامع مسجد میں  کتابیں  پڑھتے اور طلبا کے دروس میں  شرکت کرتے تھے۔ عثمانی کے چھوٹے بھائی جنہوں  نے مختلف ادوار میں  ان کا ساتھ دیا کہتے ہیں  کہ موصوف نہ صرف ذاتی بلکہ حکومتی معاملات میں  بھی نہایت احتیاط سے کام لیتے تھے اور تقویٰ کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔ وہ کہتے ہیں  کہ موصوف شہید نے کبھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں  کیا۔

اسی طرح ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ شہید عثمانی نے اپنی حیات میں  کبھی اچھی گاڑی، کھانے پینے یا عیش و عشرت کی طلب نہیں  کی اور دیگر لوگوں  سے بھی ان کی یہی خواہش تھی کہ وہ اس طرح کے کاموں  سے پرہیز کریں ۔

شہید عثمانی سخت عزائم اور بصیرت کے مالک تھے۔ وہ ہمیشہ صرف اور صرف اللہ تعالی پر توکل کیا کرتے تھے۔ جب امریکی بمباری کے نتیجے میں  اسلامی امارت کی حکومت گری اور طالبان کو کوئی بھی پناہ نہیں  دے رہا تھا تو اس وقت حالات بہت دشوار تھے۔ شہید عثمانی اس دوران مجاہدین کی تنظیم نو میں  مصروف تھے۔ امریکیوں  نے ایک سابق کمانڈر عبدالواحد باغران کے ہاتھوں  ان کو پیغام بھجوایا کہ آپ اسلحہ ڈال کر ہمارے ساتھ مل جائیں  اور آرام کی زندگی گزاریں  ورنہ آپ کو سخت انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس کے جواب میں  امریکیوں  کو شہید موصوف کی طرف سے ایمان سے لبریز جواب ملا۔ شہید نے انہیں  پیغام بھیجا کہ:

”جہاد میرا ایمانی اور دینی فریضہ ہے۔ اب جب حالات سخت ہیں  اس کا یہ مطلب نہیں  کہ میں  اپنے ایمان سے پھر جاﺅں ۔ تم لوگ جو کرنا چاہتے ہو کر لو اور مجھے میرے اللہ کے حوالے چھوڑدو۔“

شہید عثمانی کے قریبی ساتھیوں  کا کہنا ہے کہ انہوں  نے مجاہدین کی فتح و نصرت کے لیے بہت سی صعوبتیں  جھیلیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاد کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں  انہیں  مختلف جگہوں  کا سفر کرنا پڑتا جس دوران انہیں  طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن وہ نہایت اخلاص اور اطمینان سے وہ سب سہہ لیتے اور ہمت نہیں  ہارتے تھے۔

شہید اختر عثمانی امارت اسلامی کے مالی معاملات کے سربراہ بھی رہے جہاں  انہوں  نے نہایت خلوص اور امانت داری کے ساتھ اپنے فرائض نبھائے۔

شہید عثمانی نہایت اعلی اخلاق کے مالک تھے۔ جو کوئی بھی ان سے ملتا ان کو یوں  لگتا جیسے وہ موصوف کو کافی عرصے سے جانتا اور پہچانتا ہو۔ وہ سب ہی سے خندہ پیشانی سے ملتے اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کی ایک اور نمایاں  خوبی فراخ دلی تھی۔ وہ سب کے ساتھ اعتماد کی فضا میں  کام کرتے اور بے جا شک و تردید سے گریز کرتے تھے۔

 

شہادت :

جیسا کہ سطور بالا میں  ذکر ہوا شہید عثمانی امریکی فورسز کے آپریشن کے نتیجے میں  شہید ہوئے۔ اس وقت وہ طالبان قیادت کی طرف سے ہلمند صوبے میں  تشکیل نو کے سربراہ مقرر تھے اور اس راہ میں  بہت ساری مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی انتھک محنت اور ایمانِ راسخ سے شہید موصوف نے ہلمند کو مجاہدین کا نیا گڑھ بنا دیا۔ اسی طرح جنگی معاملات کے ساتھ ساتھ شہید عثمانی دیگر امور میں  بھی اپنا بھرپور کردار نبھاتے رہے۔

شہید عثمانی کے بانفوذ شخصیت ہونے کا اعتراف سبھی کرتے ہیں ۔ ان کی سیاسی اور جہادی حکمت عملی کا اسلامی جہاد میں  بہت بڑا کردار رہا۔ انہوں  نے بالآخر اپنے اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے ذی قعدہ 1427 کی 28ویں  تاریخ مطابق 18/12/2006 کو ہلمند کے برامچہ علاقے میں  امریکی ڈرون طیارے سے فائر کیے گئے ایک راکٹ حملے میں  شہادت پائی۔ انہیں  دیگر کئی گمنام شہداءکے ساتھ ایک علاقائی قبرستان میں  سپرد خاک کیا گیا۔ شہید عثمانی کے یادگار تین بیٹے اور دو بیٹیاں  ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چل کر اللہ کے دین اور اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔