پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اوربیرونی قوتوں کی سازشیں

تحریر: سیف العادل احرار اسلام سلامتی کا دین اور امن کا علمبردار مذہب ہے، جو لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ کا درس دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کی ہدایت ہے کہ نہ ابتداءً کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا۔ یہ حدیث اسلامی احکام، اخلاقی قواعد اور لوگوں سے […]

تحریر: سیف العادل احرار

اسلام سلامتی کا دین اور امن کا علمبردار مذہب ہے، جو لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ کا درس دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کی ہدایت ہے کہ نہ ابتداءً کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا۔ یہ حدیث اسلامی احکام، اخلاقی قواعد اور لوگوں سے باہمی تعامل کا ایک ضابطہ فراہم کرتی ہے، امارت اسلامیہ جو اسلامی نظام کے احیا کی علامت ہے اورجس کی قیادت علماء کرام کررہی ہے اس کی پالیسیاں اسلام کے زرین اصولوں کے مطابق تشکیل پاتی ہیں، پڑوسی ممالک کے ساتھ امارت اسلامیہ کی پالیسی عین اسلام کے مطابق ہے کہ وہ دوسروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور نہ ہی کسی اور کواپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق دیتی ہے، یہ پالیسی نہ صرف افغانستان کے لئے باعث خیر ہے بلکہ ہمسایہ ممالک کے مفادمیں بھی بہترہے۔
اچھے روابط اور تعلقات کے علاوہ امارت اسلامیہ کی پالیسی معیشت کی بحالی اورمعاشی استحکام پرمبنی ہے، افغانستان کو اللہ تعالی نے جو جغرافیائی حیثیت دی ہے، امارت اسلامیہ کے اعلی حکام کی کوشش ہے کہ وہ اس حیثیت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور افغانستان کوسینٹرل ایشیاسے جنوبی ایشیاتک تجارت کے لئے بطورپل استعمال کریں، ٹاپی، ٹاپ اورکاسازرجیسے بڑے منصوبوں کے لئے افغانستان واحد راستہ ہے جس سے یہ تمام بڑے منصوبے گزرتے ہیں، اگرچین، روس، تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، قزاقستان،ترکمنستان، ایران، پاکستان اورہندوستان باہمی تجارت کوفروغ دینے کی پالیسی اختیارکریں تو مجھے یقین ہے کہ نہ صرف یہ سب ممالک معاشی طور پرمغرب کی غلامی سے آزاد ہوکر ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہوجائیں گے بلکہ یہ خطہ بھی باہمی تجارتی مفادات کی وجہ سے امن کا گہوارہ بن جائے گا، امارت اسلامیہ نے اپنی پالیسی معاشی استحکام کومدنظررکھتے ہوئے تشکیل دی ہے اورپڑوسی ممالک سے بھی وزیر خارجہ محترم مولوی امیرخان متقی ہر ملاقات میں اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ تنازعات سے نکل کرباہمی تجارت کو فروغ دینے کی پالیسی پر اختیارکریں۔
بدقسمتی سے کچھ قوتیں ہیں جو افغانستان میں امن چاہتی ہیں اور نہ ہی پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہاں ہیں اسی لئے ایک بار روس کے سفارت خانہ کو نشانہ بنایا گیا، کچھ عرصہ بعد پاکستان کے سفیر پر حملہ کیا گیا اور اب چند روز قبل چینی باشندوں کے زیر اہتمام ایک ہوٹل کو ہدف قرار دیا گیا، ان تمام واردات کا مقصد افغانستان اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو سبوتاژ کرنا ہے،اگرچہ امارت اسلامیہ نے ان واقعات کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اعلان کیا ہے کہ وہ ان واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے گی تاہم وقتی طور پر ان تعلقات کو جودھچکہ لگا ہے جس کا خمیازہ پوری افغان قوم بھگت رہی ہے۔
افغانستان نصف صدی تک بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا تھا اورپہلی بار اس میں ایک مستحکم مرکزی حکومت قائم ہوئی ہے جو ملک میں ترقیاتی منصوبوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ بیرونی ممالک کے ساتھ تجارتی ،سیاسی اور سفارتی تعلقات کو وسعت دینے کی پالیسی پرگامزن ہے لیکن ان تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک تیسری قوت مسلسل سازشوں میں مصروف عمل ہے جس کی روک تھام کے لئے امارت اسلامیہ اعلی سطح پر اقدامات اٹھارہی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ پڑوسی ممالک بھی ان قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کی کوشش کریں جو افغانستان میں امن کو خراب کرنے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے روابط اور تعلقات کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہیں، اگر خدانخواستہ افغانستان میں ایک بار پھر امن تہہ و بالا ہوا تو اس کے مضر اثرات سے نہ صرف افغانستان بلکہ پڑوسی ممالک اورمغرب بھی محفوظ نہیں رہ سکتےجس کا اعتراف مغربی ممالک کے حکام نے متعدد بار کیا ہے اور اس بات کا ادراک کیا ہے کہ پرامن افغانستان ہی خطے اور دنیا کے بہتر مفاد میں ہے تاہم کچھ قوتیں پرامن افغانستان سے خائف ہیں اور داعش کے نام پر بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے کی سازشوں میں مصروف ہیں جن کوناکام بنانے کے لئے مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔