کابل

چابہار بندرگاہ تک رسائی اور اس کی اہمیت

چابہار بندرگاہ تک رسائی اور اس کی اہمیت

 

رپورٹ: سیف العادل احرار

چابہار بندرگاہ ایران کے مشرق میں صوبہ سیستان و بلوچستان میں واقع ہے جو کہ پاکستان کے گوادر کے قریب ہے اور چین نے اس کو تعمیر کرنے کی کمر کس لی ہے، یہ بندرگاہ بھارت کی تجارتی بندرگاہ ممبئی سے 1420 کلومیٹر اور افغانستان سے 950 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہندوستان اور ایران نے اس روٹ کی متعلقہ سڑکیں بھی بنائی ہیں۔ یہ بندرگاہ افغانستان کو ہندوستان اور ایران سے جوڑتی ہے، ہندوستان وسط ایشیا کے ممالک افغانستان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغزستان اور آذربائیجان کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ ہندوستان کی دوسری دلچسپی یہ ہے کہ وہ چابہار سے افغانستان کے صوبہ بامیان کے علاقے حاجی گک تک ریلوے لائن نصب کرے اور وہاں کی کانوں سے اس روٹ کے ذریعے لوہا منتقل کرے۔

اپریل 2016 میں سابق کابل انتظامیہ کے سربراہ نے بھارت اور ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، بھارت نے چابہار پورٹ کے ذریعے 101 ملین ٹن گندم افغانستان کو فراہم کیا اور 2019 میں افغانستان نے اس پورٹ کے ذریعے ہندوستان کو افغان سامان برآمد کیا۔

ڈیورنڈ لائن کی بندش سے ہمارے تاجروں اور کسانوں کو ہر سال سیزن میں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، اس مشکل کے حل کے لئے چابہار پورٹ متبادل راستہ ہے تاکہ ایک راستہ پر انحصار کم رہے جب کہ دوسری طرف بھارت افغان سامان کی ایک بڑی منڈی ہے جسے ہمارے خشک اور تازہ پھلوں اور جڑی بوٹیوں کی ضرورت ہے، اس لیے چاہ بہار بندرگاہ افغان تاجروں کے لئے ایک پرامن متبادل راستہ ہے۔

امارت اسلامیہ نے حال ہی میں واخان راہداری یا شاہراہ ریشم کو بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جو چین کی سرحد تک 49 کلو میٹر پر مشتمل ہے، اس کی فعالیت سے چین کو افغانستان کے راستے چابہار تک باآسانی رسائی حاصل ہوگی، نیز وسط ایشیا کے ممالک کو بھی ہندوستان سمیت مغربی دنیا تک رسائی حاصل ہوگی اور کسی حد تک بظاہر یہ راستہ محفوظ بھی ہے۔

امارت اسلامیہ نے بڑے منصوبے شروع کرنے کے لئے متعلقہ ممالک سے متعدد بار رابطہ کیا ہے جن میں ٹاپی، ٹاپ، ٹرانس ریلوے پروجیکٹ اور کاسا زر منصوبے شامل ہیں ان منصوبوں پر عمل درآمد سے نہ صرف افغانستان کو سالانہ کروڑوں ڈالر کی آمدنی کی صورت میں فائدہ ہوگا بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی معاشی اور اقتصادی ترقی کے لحاظ سے بڑے مواقع ملیں گے تاہم اب وہ متعلقہ کی پالیسیوں پر منحصر ہے کہ وہ کب یہ منصوبے شروع کریں گے۔

چونکہ ہمارا ملک اور خطہ گزشتہ چند عشروں سے دہشت گردی اور بدامنی کا شکار رہا ہے اس لئے معاشی استحکام کے لئے باہم مربوط اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ متعلقہ ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جوڑے رہے اور ان مفادات کے تحفظ کے لئے پھر ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرنے اور الزامات لگانے سے گریز کریں گے اور یہ پالیسی سب کے مفاد میں بہتر ہے۔ ملک کی مشرقی طرف واخان راہداری اور مغربی زون میں چابہار تک رسائی حاصل کرنے سے نہ صرف برآمدات اور درآمدات کے لئے متعدد راستے میسر ہوں گے بلکہ تجارتی سرگرمیوں کو بھی پروان چڑھنے میں مدد ملے گی جس سے تاجر برادری کو شفاف مختلف ملیں گے۔