کابل

چابہار بندر گاہ میں افغانستان کے لیے ایک آزاد زون: مواقع اور چیلنجز

چابہار بندر گاہ میں افغانستان کے لیے ایک آزاد زون: مواقع اور چیلنجز

تحریر: محمد کوثر

ایران کی جانب سے چابہار بندرگاہ میں افغان تاجروں کے لیے آزاد زون مختص کرنا بلاشبہ افغان تاجروں کے لیے اچھی خبر ہے تاکہ کراچی بندرگاہ اور واہگہ بارڈر پر افغان تاجروں کا انحصار کم سے کم ہو۔ زیر نظر مضمون میں چابہار بندرگاہ میں افغانستان اور افغان تاجروں کے لیے چند مواقع اور چیلنجز کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جن پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی۔
سب سے پہلے یہ کہ چابہار بندرگاہ کو مکمل فعال کرنا افغانستان اور خطے کے لیے نہ صرف بے شمار مواقع پیدا کر سکتا ہے بلکہ افغانستان کو حقیقی معنوں میں وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان سنگم بنائے گا۔ اس کے علاوہ چابہار بندرگاہ میں افغانستان کی 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اس بات کا ثبوت ہے کہ امارت اسلامیہ خطے کو جوڑنے اور اسے اقتصادی ترقی دینے کے لیے سنجیدہ ہے۔ یہ سب ایسے مواقع ہیں جو افغانستان کے روشن مستقبل کی نشان دہی کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی چا بہار بندر گاہ میں افغانستان کے لیے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ اقتصادیات کا ایک مسلمہ اصول ہے “تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالو۔” اس اصول کی بنیاد پر چا بہار بندرگاہ میں افغانستان کے لیےجو چیلنجز موجود ہیں ان کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔
ایران کو گذشتہ بیس سالوں سے امریکہ اور مغرب کی جانب سے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے ایران چابہار میں کسی بھی ملک کی جانب سے سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتا ہے۔ جب پاکستان اور چین نے 2002 میں گوادر پورٹ کی تعمیر پر اتفاق کیا تو اگلے سال ایران نے بھارت کو چابہار پورٹ میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت وہاں سرمایہ کاری نہ کر سکا، حالاں کہ بھارت خطے میں امریکا کا اتحادی ہے۔ اس وجہ سے امریکا کو بھارت کی سرمایہ کاری پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہ امریکہ کو چابہار بندرگاہ کو پابندیوں کی فہرست سے نکالنے یا اس میں نرمی کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب بھی ہوا مگر پھر بھی وہ سرمایہ کاری کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔
موجودہ حالات کے مطابق چابہار بندرگاہ افغانستان کے مفاد میں ہے، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایران مستقبل میں افغانستان پر پابندیاں عائد نہیں کرے گا۔ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ چابہار پورٹ مکمل طور پر فعال اور کامیاب ہونے کے بعد بھی افغانستان کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوگا یا ایران سخت اور کڑی شرائط نہیں لگائے گا۔ کیوں کہ ایران اشک آباد کے ذریعے چابہار بندرگاہ کو جنوبی ایشیا سے جوڑنے کے لیے بھی سرگرم ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس خطے میں پہلے سے ہی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے دوسرا یہ کہ ایران، عمان، ترکمانستان اور ازبکستان کے درمیان 2011 میں طے پانے والا اشک آباد معاہدہ موجود ہے۔ بعد میں ہندوستان بھی 2018 میں باضابطہ طور پر اس معاہدے کا حصہ بن گیا۔
اس کے علاوہ 2022 اور 2023 میں بھارت، ایران اور روس نے چابہار بندرگاہ کو بین الاقوامی شمالی جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور سے جوڑ دیا، جسے امارت اسلامیہ نے سرکاری طور پر سراہا۔ مختصر یہ کہ اس بات کا امکان بہر حال موجود ہے کہ مستقبل میں افغانستان کو نظر انداز کر دیا جائے گا یا مزید رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ اس لیے امارت اسلامیہ اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ ڈالے۔ اس سلسلے میں صرف ایران پر انحصار نہ کرے بلکہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کا امکان بھی برقرار رکھے۔ کیوں کہ بین الاقوامی تعلقات میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی، بلکہ بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ قومی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ امارت اسلامیہ کو خطے میں تمام اقتصادی اور کنیکٹیویٹی معاہدوں کا رکن بننا چاہیے، چاہے وہ انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور ہو یا چین پاکستان اکنامک کوریڈور۔