کابل

چین اور افغانستان کے درمیان رسمی تعلقات کا باقاعدہ آغاز

چین اور افغانستان کے درمیان رسمی تعلقات کا باقاعدہ آغاز

مستنصر حجازی
کابل میں چینی سفیر نے اپنی سفارتی اسناد افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخند کو پیش کر دیں۔ صدارتی محل ارگ میں چینی سفیر کو گارڈ آف آنر بھی پیش کردیا گیا۔ چینی سفیر کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی بھی موجود تھے۔ بعد آزاں چینی سفیر نے وزیر خارجہ کو بھی اپنی سفارتی اسناد پیش کردیں۔ اس طرح چین کابل میں اپنا باقاعدہ سفیر تعینات کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ چینی سفیر جاو شینگ نے وزیر اعظم کو چینی حکومت اور وزیر خارجہ کو ان کے ہم منصب وانگ ای کی نیک تمنائیں اور سلام پہنچایا۔ تقریب میں چینی سفیر نے افغانستان میں اپنی تعیناتی باعث فخر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین افغانستان کی قومی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ افغانستان میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو سالوں میں افغانستان نے اقتصادی حوالے سے نمایاں ترقی کی ہے۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ چینی سفیر کی تعیناتی سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اعلی سطح تک پہنچ جائیں گے۔ اس سے قبل جولائی میں بھی چینی کمپنیوں کے ساتھ افغان حکومت نے صوبہ سر پل میں تیل نکالنے کے معاہدے پر دستخط کیا تھا۔ مئی میں تین سال کے وقفے کے بعد بیجنگ اور کابل میں پروازیں بحال ہوگئیں۔ اس کے علاوہ جس دن کابل میں چینی سفیر وزیر اعظم کو سفارتی اسناد پیش کر رہے تھے اسی دن ایک چینی کمپنی “چیندو” کے نمائندے نے افغان وزیر پانی و بجلی سے ملاقات کے دوران ہریرود میں بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ جلد ہی افغان حکومت اور چیندو کمپنی کے درمیان معاہدہ طے پائے گا۔ یاد رہے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان یہ قربتیں رسمی طور پر سفارتی تعلقات کی بحالی سے قبل تھے۔ اب جب کہ رسمی طور پر سفارتی تعلقات بحال ہوگئے اور چینی سفیر نے باقاعدہ سفارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں، اب دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی و سفارتی تعلقات مزید وسعت پذیر ہونے اور مزید مستحکم ہونے میں کوئی امر مانع نہیں رہا۔
چین ویٹو پاور رکھنے والے پانچ بڑے ممالک میں سے ہے اور دنیا کی بہت بڑی اقتصادی قوت ہے۔ اگر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگی تو ایک بلاک کی قیادت بلا شبہ چین کرے گا۔ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات کے حوالے سے چین کی پالیسی نہ صرف متوازن ہے بلکہ باہمی مفاد کی بنیاد پر معاشی مضبوطی اور اقتصادی استحکام پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے چین کی جانب سے باقاعدہ سفیر کی تعیناتی ایک غیر معمولی خبر اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کی جانب بہت بڑی پیش رفت ہے۔ چینی حکومت کا یہ فیصلہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ بلکہ تجزیہ نگار اسے تسلیم کرنے کے ہم معنی ہی سمجھتے ہیں، کہ ابھی صرف سرکاری طور پر اعلان کرنا ہی باقی ہے۔

چین کی نئی خارجہ پالیسی:

یکم جولائی 2023 کو چین کی حکومت نے خارجہ امور کے لیے نیا قانون نافذ کیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد خارجہ امور کے لیے یہ چین کا پہلا بنیادی قانون تھا۔ یہ قانون چین کے خارجہ امور، پالیسیوں، اصولوں، موقف اور ادارہ جاتی نظاموں کا تعین کرتا ہے۔ چین بیرون ممالک کے ساتھ اسی قانونی دائرے میں تعلقات بناتا ہے۔ اس قانون کی چوتھی شق واضح کرتی ہے کہ چین خود مختار اور پرامن خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے باہمی احترام، باہمی عدم جارحیت، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے، مساوات اور باہمی فائدے اور پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ چین پرامن ترقی کے راستے اور بیرونی دنیا کے لیے اوپن پالیسی نیز باہمی فائدے پر مبنی کھلی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ چین بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا حامی ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال یا طاقت سے دھمکانے کی مخالفت کرتا ہے۔چین بالادستی اور طاقت کی سیاست کا مخالف ہے اور اس موقف پر قائم ہے کہ تمام ممالک چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے، طاقتور ہوں یا کمزور، امیر ہوں یا غریب، سب برابر ہیں اور مختلف ممالک کے عوام کی طرف سے آزادانہ طور پر منتخب کردہ ترقی کے راستے اور سماجی نظام کا احترام کیا جانا چاہیے۔
چین کی یہ خارجہ پالیسی ان ممالک کے لیے تو نیک شگون ہے جو معاشی طور پر کمزور ہو، مگر امریکا اور دیگر بڑی معاشی ممالک کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ افغانستان میں اپنے سفیر کی تعیناتی کے چند دیگر وجوہات بھی ہیں۔

چین نے کیوں کابل میں اپنا سفیر مقرر کر دیا؟

امارت اسلامیہ افغانستان اور چین کے درمیان دیگر کئی مفاداتی مشترکات کے علاوہ امریکا کی شکست اور انہیں جنوبی ایشیا کی سیاسیات سے بے دخل کرنا بھی ہے۔ امریکا نے امارت اسلامیہ افغانستان کی نہ صرف بنی بنائی حکومت چھین لی تھی بلکہ دو عشروں تک امارت اسلامیہ افغانستان کو دبانے کے لیے مکمل طاقت کا استعمال بھی کیا۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکی موجودگی چین کے لیے بھی ایک چیلنج تھا۔ چین کو افغانستان میں حقیقی “اینٹی امریکا” حکومت کی ضرورت ہے اور وہ امارت اسلامیہ افغانستان ہے۔
چین کی خارجہ پالیسی اقتصادی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ چینی وفود نے کئی مرتبہ اس حقیقت کا واضح اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی صورت حال بہتر ہے۔ کوئی سکیورٹی رسک نہیں ہے۔ ماضی کے برعکس افغانستان بھر میں ایک ہی حکومت قائم اور اسی کا حکم نافذ العمل ہے۔ اس لحاظ سے اقتصادی معاہدات کے لیے سب سے زیادہ محفوظ ماحول ضروری ہے اور محفوظ ماحول کی دستیابی امارت اسلامیہ کی بدولت ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اقتصادی معاہدات کے بعد باقاعدہ طور پر اپنا سفیر بھی تعینات کر دیا۔
خطے کے ممالک کو اب اس حقیقت کا صحیح ادراک ہوا ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے پورے خطے میں عدم استحکام آئے گا اس عدم استحکام سے سب سے زیادہ چین کو خطرہ ہے۔ کیوں کہ وہ ایک بڑی اقتصادی قوت ہے۔ افغانستان سمیت کئی ممالک میں اس کے اقتصادی منصوبے جاری ہیں جسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے چین افغان حکومت کے ساتھ سفارتی، اقتصادی، علمی و ثقافتی شعبوں میں تعاون کر رہا ہے۔
چین کی اولین ترجیح دنیا کی اقتصادی قوت بننا ہے۔ اس کے لیے وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خطے میں موجود ذخائر پر ان کی نظر ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان میں موجود ذخائر پر سرمایہ کاری ان کے لیے دوسرے ممالک کی بہ نسبت سستا پڑ رہا ہے۔ اس لیے بھی افغانستان کے ساتھ چین کے سفارتی تعلقات باہمی مفادات کی سیاست کا ایک باب ہے۔