ڈاکٹر عبدالواسع عزام شہید رحمه الله جہادی زندگی پر ایک نظر

تحریر: قاري محمد يونس الحمدلله معز الاسلام بنصره ومذل الشرک بقهره ومستدرج الکافرین بمکره والصلوة والسلام علی من اعلی الله منار الاسلام بسیفه وجعل العاقبة للمتقین بفضله . اعوذ بالله من الشیطن الرجیم * بسم الله الرحمن الرحیم * ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتا بل احیاء عندربهم یرزقون . جی ہاں : […]

تحریر: قاري محمد يونس

الحمدلله معز الاسلام بنصره ومذل الشرک بقهره ومستدرج الکافرین بمکره والصلوة والسلام علی من اعلی الله منار الاسلام بسیفه وجعل العاقبة للمتقین بفضله .

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم * بسم الله الرحمن الرحیم * ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتا بل احیاء عندربهم یرزقون .

جی ہاں : الحاج ڈاکٹر عبدالواسع عزام رحمہ اللہ شہید ہوگئے ۔ ڈاکٹر صاحب تقبلہ اللہ ابدی زندگی کی جانب رو بسفر ہیں ۔ شہادت کے دن سے ہمیشہ کے لیے وہ ہر طرح کی مشکلات سے محفوظ اور بے فکر ہوگئے ہیں ۔ اب وہ پریشانیاں نہ ہوں گی ۔ اب دشمن انہیں وحشتوں کی جیل میں بند نہیں کرسکے گا ۔ ڈاکٹر عبدالواسع عزام اب اپنے بھائیوں اور بہنوں کی پریشانیوں سے غم زدہ نہ ہوں گے ۔ اب وہ ایسی راہ پر  ہیں جہاں اب کوئی غم نہیں ۔ سچے مومنوں کے لیے دنیا کی ساری پریشانیاں اور سارے غم اور درد بے پایاں رحمتوں ، جنتوں اور خوشیوں میں بدل جاتے ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب شہید رحمہ اللہ شہداء کے پرنور قافلے کے ساتھی ہوگئے ہیں ۔ ہمیں امید ہے انشاء اللہ وہ اب یہ الہی خطاب پاچکے ہوں گے : یا ایتها النفس المطمئنة ارجعي الی ربک راضية مرضية ، فادخلي في عبادي وادخلي جنتي

ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ امارت اسلامیہ کے ان بڑے کمانڈروں میں سے ہیں جنہوں نے عنفوان شباب سے شہادت تک اسلام کے مقدس دین اور مظلوم مسلمانوں کی دفاع اور جہادی زندگی میں ہر طرح کی تکالیف کے سامنے سینہ سپر رہے ۔

ڈاکٹر صاحب شہید رحمہ اللہ نے بلند جہادی حوصلے ، پورے اخلاص اور مدبرانہ قیادت سے مجاہدین کے نظم ونسق اور عسکری تربیت کے حوالے سے وسیع کوششیں کیں اور انتہائی سخت حالات میں انتہائی مضبوط عزم اور پوری استقامت سے جہادی خدمات انجام دیں ۔

تعارف : ڈاکٹر عبدالواسع عزام آج سے 49 برس قبل 15 جمادی الثانی 1386 ھ ق صوبہ قندہار ضلع پنجوائی کے علاقے سفید روان میں حاجی عبدالباقی کے دیندار خاندان میں پیدا ہوئے ۔

تعلیم :

ڈاکٹر صاحب نے سات سال کی عمر میں دینی تعلیم کا آغاز پنجوائی میں اپنے گاؤں کے امام مسجد سے کیا ۔ ابھی نوجوان ہی تھے کہ وحشی روسیوں کے سرخ لشکروں نے وطن عزیز پر یلغار کردی ۔ اور دیگر مظلوم افغانوں کی طرح ڈاکٹر صاحب کے خاندان نے بھی ہجرت کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے دارالہجرت میں اپنی دینی تعلیمی جاری رکھی اس وقت بلوچستان کے علاقے پنجپائی کیمپ کے مدرسے افضلیہ میں کچھ عرصہ دینی تعلیم جاری رکھی ۔ مگر ان کے دل میں جہادی ولولہ اور تحریک کے پاک احساس نے اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی دینی تعلیم یوں ہی ادھوری چھوڑ کر دیگر مجاہدین ساتھیوں کی طرح جہاد کے گرم محاذوں پر چلے جائیں ۔

چونکہ اس وقت جہادی صفوں میں بہت سے مجاہدین زخمی ہورہے تھے اور دیگر اسباب کے ساتھ  ایک ایسے آدمی کی بھی ضرورت تھی کہ جو میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کی مرپم پٹی کرے ۔ مجاہدین نے ڈاکٹر صاحب کے استعداد اور ذکاوت کے پیش نظر انہیں منتخب کیا کہ وہ طبی تربیت حاصل کریں ۔ یہی وہ دور تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس وقت ضروری طبی تعلیم کی تکمیل کی اور ایک ابتدائی معالج کی حیثیت سے محاذوں کے زخمی مجاہدین کی خدمت کا آغاز کیا ۔ اور یہ ذمہ داری پورے خلوص اور دیانت داری سے نبھائی ۔

جہاد اور محاذ:

ڈاکٹر عبدالواسع عزام ابھی نوجوان تھے کہ سرخ لشکروں کے مقابلے کے لیے میدان میں کود پڑے اور قندہار کے علاقے سنگ حصار میں مرحوم فیض اللہ آخوندزادہ صاحب کے محاذ پر کام کا آغاز کیا ۔ ان کی جہادی تربیت ایسے محاذ پر ہوئی کہ محاذ پر امت مسلمہ کے معروف غازی اور روشن جبین جہادی قائدین ان کے ہمراہ تھے ۔ جیسے امارت اسلامیہ کے زعیم عالی قدر امیر المؤمنین حفظہ اللہ ، الحاج ملا برادر اخوند حفظہ اللہ اور کئی دیگر رہنما۔

جہادی صفوں میں کچھ عرصہ عسکری خدمات انجام دینے کے بعد محاذ کے رہنماؤں کی جانب سے میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کے علاج معالجے کے لیے انہیں طبی تعلیم کے مرکز میں متعارف کرایا گیا ۔ طبی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ واپس جہادی محاذ پر لوٹ گئے ۔ اور فورا ہی عملی طورپر زخمی مجاہدین کی خدمت کا آغاز کردیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں طبی حوالے سے علاقے کے علماء اور عام لوگوں کی خدمت کرتے ۔طالبان تحریک کے ظہور تک وہ اسی خدمت میں مصروف رہے ۔

طالبان تحریک میں شمولیت:

ڈاکٹر عبدالواسع عزام تحریک طالبان کے اوائل ہی میں تحریک میں شامل ہوگئے ۔ انہوں نے طالبان تحریک کے عمومی عسکری کمانڈر ملا محمد اخوند شہید کی قیادت میں جہاد کا آغاز کیا ۔ اس دوران انہوں نے ایک سیار کلینک بنایا جو جنگ میں زخمی ہونے والے مجاہدین کی مرہم پٹی کرتا تھا ۔ ہرات کی فتح کی جنگ میں انہوں نے ناقابل فراموش طبی خدمات انجام دیں ۔ بعد ازاں اسی صوبے کے وزارت صحت کا آپ کو سربراہ اور بعد ازاں وزیر  انحصارات منتخب کیا گیا ۔

کابل کی فتح کے بعد افغانستان ہلال احمر کے سیکرٹری جنرل کے طورپر آپ کا تقرر کیا گیا ۔ آپ نے اس ادارے میں بہت سی اہم اصلاحات اور تبدیلیاں کرکے اپنی صلاحیت اور قابلیت کا لوہا منوایا ۔

ڈاکٹر صاحب شہید اس عہدے پر جارحیت پسند صلیبیوں کی یلغار تک برقرار رہے ۔ جارحیت کے دنوں میں وحشیانہ بمباریوں میں انتہائی بہادری اور جذبہ سرفروشی سے زخمی ہونے والے افغانوں طبی تعاون کرتے رہے ۔

بمباری میں زخمی ہونے والے مجاہدین اور عام لوگوں کو انتہائی تیزرفتاری سے بروقت طبی امدادمہیا کرتے رہے ۔ اپنی طبی جماعت کو لے کر ہر زخمی کے پاس خود پہنچ جاتے اور وہیں اس کا علاج کرتے ۔

جارحیت کے دوران انہوں نے ایک اور بڑی خدمت جو انجام دی وہ عرب مجاہدین کے خاندانوں اور بچوں کی حفاظت اور محفوظ مقام کی جانب منتقلی تھی جن کے سرپرست یا توشہید ہوچکے تھے یا جنگوں میں کہیں قید ہوکر رہ گئے تھے ۔

امریکی جارحیت کے بعد:

امریکی جارحیت کے بعد انہوں نے مسلح جد وجہد کا آغاز کیا ۔ اور پہلے پہل قندہار کے مختلف اضلاع میں جنگی کارروائیوں اور مجاہدین کی جنگی تعاون میں حصہ لیا ۔ اس دوران وہ مختصر عرصے کے لیے ضلع ارغستان میں قید بھی رہے۔

صلیبی جارحیت پسندوں کے خلاف ملک بھر میں طوفانی کارروائیوں کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے بھی کابل ، قندہار ، ہرات اور بلخ کے صوبوں میں کئی فدائی حملوں کے منصوبے تشکیل دیے ۔ ان شہروں میں خود بنفس نفیس فدائی مجاہدین کو ہدف تک پہنچایا اور فدائی حملے کے دیگر لوازمات مہیا کرکے اپنی نگرانی میں آپریشن کروائے

ایسے ہی حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب شہید مزار شریف میں گرفتار ہوگئے ۔ مگر بہت جلد اللہ تعالی نے انہیں رہائی دلادی ۔ بعدازاں  اسی طرح کے ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کے سلسلے میں وہ کابل پہنچے تھے کہ صلیبی جاسوسوں نے ان کی یہ منصوبہ بندی پکڑلی اور پھر طویل عرصے کے لیے وہ جیل چلے گئے ۔

ڈاکٹر صاحب اور جیل :

کابل میں گرفتاری کے بعد پہلے انہیں کابل میں خاد کے دفتر منتقل کیا گیا اور پہچان کے بعد ہفدہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا ۔ ہفدہ میں اس دفتر کے سربراہ گلالی کی جانب سے ان پر اتنے مظالم ڈھائے گئے  کہ دفتر کے سیکرٹری کے مطابق کسی پر بھی نہیں ڈھائے گئے ۔ مگر اللہ جل جلالہ کے فضل سے اتنے دباؤ اور مظالم کے باوجود وہ کسی قسم کا اعتراف ان سے نہ اگلواسکے ۔

ڈاکٹر صاحب نے اللہ کے فضل سے کسی قسم کا اقرار نہ کیا مگر عدالتوں کے غلام ججوں  نے انہیں دس دس سال قید کی سزا دی  ۔ ہفدہ میں آٹھ ماہ تک رہنے کے بعد انہیں پل چرخی کے مرکزی جیل میں چوتھے بلاک میں منتقل کیا گیا ۔  پل چرخی جیل میں اسیر مجاہدین کی قیادت ان کے ذمہ آگئی ۔ انہوں نے اپنے باہمت ساتھیوں کی مدد سے اس بلاک کو مدرسے میں بدل دیا اور وہاں قیدیوں کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ۔

پل چرخی جیل میں ڈاکٹر صاحب کی مقبولیت اور کارروائیوں کو دیکھ دشمن نے کئی بار انہیں دیگر جیلوں میں منتقل کردیا جن میں قندہار جیل ، پل چرخی جیل کے عسکری یا گوانتانامو بلاک اور بگرام جیل شامل ہیں ۔

جیل سے رہائی اور آخری جہادی خدمات:

ڈاکٹر صاحب نے جیل میں مجموعی طورپر تقریبا 5 سال 8 ماہ گذارے ۔ امارت اسلامیہ کی قیادت کی خصوصی توجہ سے انہیں جیل سے رہائی ملی ۔ جیل سے رہائی کے فورا بعد امارت اسلامیہ کی قیادت کی جانب سے صوبہ قندہار کے صوبائی کمیشن کے ذمہ دار کی حیثیت سے ان کا تقرر کیا گیا ۔ انہوں نے یہاں بھی بہت بڑی بڑی خدمات انجام دیں جنہیں امارت اسلامیہ کے رہنماؤں نے سراہا ۔ صوبائی کمیشن کے بعد قیادت کی جانب سے قندہار کے عمومی نگران کے طورپر آپ کا تقرر کیا گیا ۔ انہوں نے یہاں بھی حکومت کو منظم کیا اور بہت سی خدمات انجام دیں ۔

امارت اسلامیہ کی جانب سے قندہار کے صوبائی گورنر کی حیثیت سے تعین کے بعد انہوں نے مجاہدین کے لیے معسکر بنایا جہاں سے تین مرتبہ 60 سے 80 تک مجاہدین فارغ ہوکر نکلے ۔ انہوں نے صوبائی نظم ونسق میں اور بھی مثبت تبدیلیاں کیں ۔ عوامی اور عسکری اداروں کے الگ الگ ماہانہ مجالس اور پھر دودو مہینوں کے مشترک مجالس کا آغاز کیا ۔ قندہار کے تمام اداروں کے لیے عمومی اصول اور ہدایات، صوبائی کمیشن کے اصول اور طریقہ کار اسی طرح معسکر کے لیے طریقہ کار کا تعین کیا ۔ اور ہر ماہ تمام اداروں کی رپورٹیں متعلقہ ذمہ داران سے وصول کرنے کا انہوں نے عملی طریقہ کار نافذ کیا ۔ انہوں نے صوبائی ذمہ دار کی حیثیت سےعمومی وفود کے علاوہ انتظامیہ کی جانب سے مختلف وفود بھیجے تاکہ قریب سے جہادی امور کا مشاہدہ کیا جاسکے ، عوامی شکایتیں سن لیں اور مجاہدین کی مشکلات رفع کرسکیں ۔

شہادت :

1393 ھ ق کی جہادی کارروائیوں کے آغاز کے ساتھ صوبہ قندہار کے مجاہدین کی پانچ روزہ جہادی تعلیمی مجلس کے اختتام  کے ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے جہادی کارروائیوں کو منظم کرنے کے لیے کام شروع کردیا ۔ اس وقت باوجود اس کے کہ قندہار کے صف اول کے بڑے مجاہد کی حیثیت سے دشمن کو ان کی سخت تلاش تھی ۔ یہاں تک کہ دشمن نے ان کی تصویریں بھی جگہ جگہ آویزاں کردی تھیں ۔ مگر پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے دشمن کی نگرانی اور جاسوسی کی پروا نہ کی ۔ انہوں نے پوری بہادری سے قندہار کے مختلف اضلاع کا سفر کیا اور اس وقت تک محاذوں پر رہے جب تک ان کی شہادت کا المناک سانحہ پیش نہ  آیا ۔

ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنی جہادی امور کی انجام دہی کے دوران کرایے کی ایک گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ ہلمند ضلع گرمسیر کے علاقے صفار سے گزررہے تھے کہ اس علاقے میں شاہراہ پر کھڑی پولیس نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ساتھ ایک کیوبائی گن بھی رکھتے تھے ۔ اس لیے ان کی ضمیر نے یہ بالکل گوارہ نہیں کیا کہ اسلحہ ساتھ ہونے کے باوجود  گرفتاری دے دیں ۔ انہوں نے فورا  ڈرائیور کو گاڑی بھگانے کا کہا ۔ پولیس نے رینجر گاڑی میں ان کا تعاقب کیا ۔ پولیس نے اپنی گاڑی ان کی گاڑی کے برابر میں لاکر انہیں ایک بار پھر اسلحہ دکھا کر دھمکایا اور انہیں گاڑی روکنے کا کہا !

ڈاکٹر صاحب نے ان کی دھمکی کی جواب میں اپنے کیوبائی گن سے ان پر فائرکھول دیا اور گاڑی میں بیٹھے پولیس کو ہلاک کرڈالا، مگر گاڑی کے پچھلے حصے میں دو پولیس اہلکار زندہ بچ گئے ۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب پر فائرنگ کردی جس سے وہ ہاتھ اور پیٹ میں گولیاں کھاکر زخمی ہوگئے اور گاڑی بھی کام سے گئی ۔ ان کے حملے سے دشمن بھی اب کام سے جاچکا تھا ۔ ان میں اب مزید تعاقب کرنے کی ہمت نہیں تھی ۔ کچھ دور جانے کے بعد ان کی گاڑی رک گئی ۔ ڈاکٹر صاحب اور ڈرائیور نے پیدل کچھ دیر سفر کیا ۔ جس کے بعدوہ پیدل چلنے سے بھی رہے ۔ انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ تم چلے جاؤ میں اب مزید چل نہیں سکتا ۔ اس دوران ڈرائیور انہیں  منتقل کرنے کے لیے گاڑی کی تلاش میں نکل پڑا ۔ ڈرائیور کے جانے کے بعدڈاکٹرصاحب زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد ضلع پنجوائی کے علاقے سفید روان کے لوگوں نے ان کا جسد خاکی وہاں سے منتقل کرکے اپنے آبائی قبرستان میں بہت عزت اور احترام سے دفن کردیا ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ ، طاب اللہ ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ ۔

عجیب اتفاق:

اللہ کی شان ہے کہ ڈاکٹر صاحب شہید رحمہ اللہ کی ولادت اور شہادت کا دن ایک ہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب 15 جمادی الثانی کو پیدا ہوئے تھے اور اسی روز وہ شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوگئے ۔ شہادت ڈاکٹر صاحب کی دیرینہ خواہش تھی ۔ شیخ مولوی حبیب اللہ صاحب کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ایک وقت ایسے حال میں کہ صرف  میں اور وہ کمرے  میں بیٹھے ہوئے تھے، مجھ سے کہا کہ شہادت میری بہت بڑی خواہش ہے ۔ یقین کرلو جس طرح لوگ اپنی شادی کے انتظار میں خوش ہوتے ہیں میں اس سے زیادہ شہادت کا منتظر رہتا ہوں ۔

ان کے ساتھیوں کی چند یادیں :

ڈاکٹر عبدالواسع شہید کی جہادی زندگی یادوں کا مجموعہ ہے ۔ ہر ساتھی کے دل میں ان کے متعلق خوشگوار یادیں نقش ہیں ۔ ساری یادوں کا ذکر کرنے کے لیے ایک بڑی کتاب کی ضرورت ہے مگر یہاں کچھ ساتھیوں کے کچھ خیالات نمونے کے طورپر یہاں پیش کیے جارہے ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب شہید کے ساتھی الحاج حافظ بسم اللہ صاحب جو جیل میں بھی کئی سالوں تک ان کے ساتھی رہے وہ جیل کی یادوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔

مدرسہ :

ڈاکٹر صاحب شہید کی خوشگوار یادوں میں سے ایک یاد جو میرے دل میں ہے وہ یہ کہ جب انہیں پل چرخی جیل لایا گیا ۔ اس بلاک میں قیدیوں کی دیگر خدمتوں کے ساتھ انہوں نے ایک منظم مدرسے کی بھی بنیاد رکھی ۔ اور اس بلاک کو مکمل طورپر ایک مدرسے کی شکل دیدی ۔ یہاں دس سے زیادہ اساتذہ درس دے رہے تھے ۔ انہوں نے اساتذہ اور طلبہ کو سینکڑوں مختلف قسم کی کتابوں کے ساتھ اس مدرسے کے تمام لوازمات مہیا کیے ۔ اس مدرسے سے درجنوں قراء اور حفاظ فارغ ہوئے ۔ اور کئی دیگر طلبہ نے یہاں علمی پیاس بجھائی ۔ دیگر طلباء کے ساتھ خود ڈاکٹر صاحب نے بھی اس مدرسے سے بڑا استفادہ کیا ۔ انہوں نے پورا قرآن کریم تجوید کے ساتھ سیکھا ۔ اور آزاد مطالعے کے ساتھ کئی درسی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ۔ یہ مدرسہ اب بھی فعال ہے اور ان کتابوں سے اس بلاک کے علاوہ دیگر بلاکوں کے قیدی بھی استفادہ کرتے ہیں ۔

تقوی :

ڈاکٹر عبدالواسع مرحوم انتہائی متقی اور دائمی عبادت گذار تھے ۔ مجھے جیل میں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی انہوں نے تہجد کی نماز چھوڑی ہو ۔ ہر ہفتے صلاۃ التسبیح ادا کرتے ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات روزانہ  صلوۃ التسبیح اداکرتے ۔ انہوں نے قرآن کریم کی تلاوت اپنی عادت بنالی تھی ۔ ساتھیوں میں مشہور تھا کہ جو ساتھی عبادت میں کمزور ہوتا وہ کہتا میں ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں جاکر ان کے ساتھ رہوں گا تاکہ ان کی  عبادت کا اثر مجھ پر پڑے ۔ میں بھی ان سے عبادت کا رنگ پکڑ لوں ۔

ایثار وسخاوت :

ڈاکٹر صاحب انتہائی سخی مزاج تھے ۔ بہت سے نیاز مند ان کے پاس آتے اور بہت سے تحفے لے کر آتے مگر وہ سب کچھ تقسیم کردیتے ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات انہیں خود اس چیز کی اشد ضرورت ہوتی مگر پھر بھی خود پر ساتھیوں کو ترجیح دیتے ۔ جب ہمیں  بگرام جیل سے واپس پل چرخی جیل منتقل کیا جارہا تھا تو ان ساتھیوں کے پاس پیسے تھے نہ اور کوئی ضرورت کی چیز ۔ قیدی حیران تھے کہ اپنی ضرورتیں کیسے پوری کریں ۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاک کے کینٹین والے کو بلایا اور کہا جاؤ بگرام سے لائے گئے تمام قیدیوں کی کوٹھریوں میں جاکر ان سے کہو جس چیز کی بھی ضرورت ہو مجھے کہو میں لاکر دوں گا اور پیسے ڈاکٹر صاحب ادا کریں گے ۔ کینٹین والے نے ایسا ہی کیا اور تمام چیزوں کے پیسے ڈاکٹر صاحب ہی نے ادا کیے ۔

جرات اور سرشاری :

ان کی خوشگوار یادوں میں سے ایک اہم واقعہ یہ زیادہ یاد آتا ہے کہ وہ جیل یا حکومتی اعلی حکام سے قیدیوں کے حقوق کے متعلق ہر وقت بہت جرات سے بات کرتے ۔ ان کے لہجے میں کسی قسم کی معذرت یا کمزوری نہیں ہوتی تھی ۔ یہی وجہ تھی مرحوم ہروقت بند کال کوٹھری میں اور زیرسزا رہتے ۔

ایک خاص واقعہ :

ایک بار میں نے ڈاکٹر صاحب شہید رحمہ اللہ سے کہا میرے ساتھیوں کی یادگاری ڈائری میں کوئی یاد گاری جملہ لکھ کردیں ۔ انہوں نے یادگار کے شروع میں اپنا پتہ یوں لکھا :” عارضی پتہ: پل چرخی جیل چوتھا بلاک” ۔ مستقل پتہ : جنت الفردوس اونچی منزل۔

امارت اسلامیہ کے ہرات کے سابق گورنر اور فوائد عامہ کے وزیر مولوی احمد اللہ مطیع کا کہنا ہے : میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کو بچپن سے جانتا ہوں ۔ وہ انتہائی محنتی آدمی تھے ۔ جہاد سے انہیں بہت زیادہ محبت تھی ۔ رابطے قائم کرنے میں انہیں انتہائی مہارت حاصل تھی ۔ امارت اسلامیہ کے نمائندے کی حیثیت سے انتہائی خطرناک اطراف میں رابطے قائم کرتے اور پھر ملاقات کے لیے راہ ہموار کرتے اور خطرات سے بھر پور علاقوں کی جانب سفر کرتے ۔ انتہائی بہادر تھے یہاں تک کہ حالیہ جہاد میں جو ساتھی ان کے ہم سفر ہوتے وہ ان کی گاڑی میں بیٹھنے کو تیار نہ ہوتے کیوں کہ ڈاکٹر صاحب اپنی گاڑی میں جنگی مواد جیسے دھماکہ خیز مواد اور چھوٹا اسلحہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے اور مجاہدین کے مراکز تک پہنچاتے ۔ ان کی شہادت کا سن کر مجھے انتہائی صدمہ ہوا اللہ تعالی انہیں جنت میں مقام عطافرمائے ۔

ڈاکٹر صاحب کے ایک جہادی ساتھی آغاجان کہتے ہیں :

شہید ڈاکٹر صاحب جہادی کاموں میں انتہائی ماہرانہ تیکنیکوں کا استعمال کرتے ۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے فدائی حملے کے لیے تیار کی گئی دھماکہ خیز مواد سے بھری ٹونس گاڑی دی اور کہا کہ اسے قندہار شہر میں محفوظ کردو۔ میں نے بھی وہ گاڑی سیمنٹ کے بلاک بنانے کے ایک کارخانے میں کھڑی کردی ۔ وہاں کے کاریگر اور جوان ہر وقت تاش کھیلتے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا تم بھی ان کے ساتھ تاش کھیلو اور ان سے گپ شپ اور خوب ہنسی مذاق کرو تاکہ کسی کو شک نہ گزرے ۔ اگرچہ مجھے تاش کھیلنا نہیں آتا تھا مگر میں نے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کیا ۔ اس طرح ہم نے بہت عرصہ قندہار میں گزارا  ۔ اس وقت کرزئی انتظامیہ کے حکام اکثر سرف گاڑیوں کا استعمال کرتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی سرف گاڑی اسی لیے خریدی تاکہ ہر جگہ پولیس اہلکار انہیں نہ روکیں اور کسی کی توجہ کا مرکز نہ بنیں ۔ وہ ہم سے کہتے خوب نیا لباس اور فیشن ایبل کپڑے پہنا کرو تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ ہم  مجاہدین ہیں ۔ ہم ایسا ہی کرتے ۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے ساتھ ہوتے اور بڑے عرصے تک ہم شہر کے اندر کارروائیاں کرتے رہے ۔

حاجی خلیل ڈاکٹر صاحب کی جرات اور تدبیر کے متعلق فرماتے ہیں :

 

” ڈاکٹر صاحب نے اہم اسلحوں اور ضروری جنگی وسائل سے بھرا ایک مزدا ٹرک میرے حوالے کیا اور خود ٹونس گاڑی میں آگے جانے لگے ۔ ہم جب قندہار کے شکار پور بازار پہنچے وہاں سخت تلاشی جاری تھی ۔ میرے آگے ایک کرولا گاڑی کھڑی تھی اور اس کے آگے ڈاکٹر صاحب ٹونس میں بیٹھے تھے ۔ اہلکاروں نے ڈاکٹرصاحب کی گاڑی کی تلاشی کے بعد انہیں چھوڑ دیا ۔ڈاکٹر صاحب آگے بڑھ گئے ۔ میرے آگے کھڑی کرولا گاڑی جب تلاشی کے لیے کھڑی ہوگئی میں نے سوچا تلاشی بھی سخت ہے اور ڈاکٹر صاحب بھی  آگے چلے گئے ، انہیں متوجہ کرنے کے لیے میں نے مزدا ٹرک کا زور دار ہارن بجایا ۔ وہاں کھڑا ایک اہلکار آیا اور مجھے ڈانٹا کہ تم ہارن بجا کر تلاشی سے جان چھڑانا چاہتے ہو؟ ابھی اس کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر صاحب آگئے اور اہلکار سے پوچھا کیا مسئلہ ہے ؟ فوجی اہلکار نے کہا ” یہ ٹرک والا ہارن بجاکر تلاشی سے جان چھڑانا چاہتا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا ہاں یہ لوگ بڑی بڑی گاڑیاں لے کر شہر میں آجاتے ہیں اور بڑے بڑے ہارن بجاتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے لوگ گھروں میں آرام نہیں کرسکتے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے سخت ڈانٹا اور برا بھلا کہا ، مجھے گریبان سے پکڑ کر نیچے اتارا اور دو چار تھپڑ مارے ۔ پھر گاڑی کی جانب دھکا دے کر ڈانٹتے ہوئے مجھ سے کہا چلو آگے بڑھو! فوجی اہلکار حیرت سے ہکا بکا دیکھتا رہ گیا اور میں نے گاڑی آگے بڑھالی ۔ اس طرح ہم نے گاڑی کو تلاشی سے بچالیا ۔ کچھ آگے جاکر ڈاکٹر صاحب نے سائڈ مرر میں مجھے دیکھا اور ہنس پڑے  ۔ اللہ تعالی ان سے راضی ہو انتہائی جراتمند اور بہادر قائد تھے  ۔

قاری محمد یونس:

اخلاص : میں حاجی صاحب  کے جذبہ اخلاص سے بہت زیادہ متاثر تھا ۔ جوجہادی خدمت بھی کرتے سامنے کھڑی مشکلات ، خطرات اور تھکاوٹوں کی کچھ پروا نہ کرتے ۔ ایک بار انہوں نے کچھ علماء کو ان کا لائحہ عمل اور ذمہ داریاں حوالے کرنے کے لیے مدعو کیا تھا ۔ یہ لائحہ عمل امارت اسلامیہ کے بڑے ذمہ داران کی موجودگی میں حوالے کیا جانا تھا مگر صورتحال یوں بنی کہ جس دن یہ لائحہ عمل علماء کے حوالے کیا جانا تھا اسی روز ڈاکٹر صاحب کا ایک اور اہم اجلاس بھی تھا ۔ اس لیے دونوں اجلاسوں کا انعقاد ناممکن تھا ۔

حاجی ڈاکٹر صاحب نے علماء سے کہا ہم رات کو تین بجے سفر کرکے وہاں پہنچیں گے ۔ صبح کی نماز وہیں پڑھیں گے ۔ نماز کے بعد آپ کا اجلاس ہوگا ۔ اجلاس کے اختتام کے بعد میں دوسرا اجلاس شروع کروں گا ۔ ان دونوں اجلاسوں کے مقامات کے درمیان سو کلومیٹرکا  فاصلہ ہے جس کا اکثر حصہ خراب اور ویران ہے ۔ علماء نے جب یہ بات سنی تو سخت حیران رہ گئے ۔ کہ صوبائی گورنراور اتنے دور کا اکیلے سفر وہ بھی آدھی رات کو ۔

جس طرح ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا بالکل اسی طرح رات کے تین بجے ایک ساتھی ان کے ساتھ تھا ۔ وہ گاڑی چلارہا تھا جبکہ گاڑی کے کاغذات بھی نہیں تھے ۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب بہت دیر ہوچکی ہے یہ بہت خطرناک  ہے ۔ گاڑی کے بھی کاغذات نہیں ہیں ۔ صبح سویرے چلے جانا ۔ وہ ہنسے اور پوری جرات اور اطمینان سے کہا : ان شاء اللہ  کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ ایسے حال میں انہوں نے اجازت چاہی کہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اطمینان صاف جھلکتا محسوس ہوتا تھا۔ اس طرح انہوں نے دونوں اجلاس کیے ۔ مجھے اب بھی ان کا مسکراتاچہرہ نہیں بھولتا ۔ اللہ تعالی ان سے راضی ہواور انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے ۔

قاری حبیب کہتے ہیں :

ڈاکٹر صاحب نے اپنے قید وبند میں گزرے ہوئے ایام کے متعلق ایک مرتبہ مجھ سے کہا : بڑے عرصے سے میری خواہش تھی کہ دینی علوم پڑھنے ، اور دینی علوم کی خدمت کرنے کے لیے اللہ تعالی مجھے آرام دہ  ماحول دیدے تاکہ میں اچھے اچھے ساتھیوں کے ساتھ رہ کر دینی علوم پڑھوں ۔ پل چرخی جیل میں بند ہونے کے بعد باوجود اس کے کہ ہم قیدی سمجھے جاتے تھے مگرساتھیوں نے وہاں اپنی ہمت اور کوششوں سے جیل کی فضاء ایسی بنادی کہ ہم نے اس سے بے مثال فائدہ اٹھایا۔ یقینا اگر کوئی چاہے تو ہر طرح کے حالات سے اپنے دین ودنیا کا فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ جیل کا نام اگرچہ بہت برا ہے لیکن اگر مومن اور مجاہد قیدی کوشش کریں تو اس جیل کو بھی دینی خدمت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔

پل چرخی جیل میں ساتھیوں کی ہمت،اتفاق اور مفاہمت کی برکت سے ساتھیوں نے اپنی جائے رہائش (بلاک چہارم) میں ایک منظم مدرسہ بنایا ۔ اس مدرسے کا آغاز بغلان کے رہنے والے ایک قیدی ملاجنت گل اخند کی کوششوں سے ہوا ۔ بعد میں ساتھیوں نے اپنی کوششوں سے سارا سامان جیسے کتابوں کے ٹیبل ، الماری ، پردے ، 15 اساتذہ کے لیے تدریسی اور مطالعے کی کتابیں ، 120 طلبہ اور 30 سے زیادہ حفاظ کے لیے کتابوں اور قرآن کریم کے نسخوں کا اہتمام کیا ۔ مدرسہ دیگر منظم مدارس کی طرح چلتا رہا ۔ اس کے پہلے مہتمم جلال آباد کے مولوی محب اللہ تھے ۔ ان کے بعد غزنی کے مولوی محمد عثمان اور ان کے بعد ننگرہار کے مولوی روح الامین اس مدرسے کی مہتمم مقرر کیے گئے ۔

ہم نے وہاں ایک بڑی لائبریری بھی بنائی ۔ جس میں تقریبا تین لاکھ روپے کی کتابیں ساتھیوں کے مطالعہ کے لئے جمع کیں ۔ چوتھے بلاک کے اوپر دوسرے اور ساتھویں بلاک کے ساتھیوں سے بھی ہم کتابوں کا تعاون کرتے ۔ پل چرخی جیل کے چوتھے بلاک میں کچھ غیر ملکی غیر مسلم افراد بھی بند تھے ۔ ان میں سے اکثر افریقی تھے ۔ ایک ان میں انگلینڈ کا رہنے والا بھی تھا ۔ یہ اکثر نصرانی یا یہودی تھے ۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان غیر مسلموں کو بھی فائدہ پہنچانے کے لیے ہم نے انہیں دعوت دے کر اسلام کی جانب بلانے کی دعوت پر خاص توجہ دی ۔ انہیں اسلامی معلومات ، انگریزی کتابیں اور ریکارڈ شدہ کیسٹیں ڈھونڈ کر لاکر دیں ۔ جس کے نتیجے میں ان  میں سے چند افراد نے اسلام بھی قبول کیا ۔ یہ ہماری  ایک اور بڑی کامیابی تھی ۔ ان کے اسلام لانے پر ہم نے جیل میں تقریب منعقد کی ۔ تمام ساتھیوں نے انہیں مبارک باد دی ۔ ساتھیوں نے انہیں نقد رقم اور کچھ دیگر تحفے تحائف بھی دیے ۔ تو  پل چرخی باوجود اس کے کہ ایک جیل تھا مگر مجھ سمیت دیگر ساتھیوں نے مل کر اس سے ایک مدرسے کا کام لیا ۔ میں نے خود نحو، اصول ، ادب اور دیگر دینی علوم کتابیں پل چرخی جیل میں پڑیں “۔

اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب شہید پر رحم فرمائے ۔ ان کے خاندان کو صبر جمیل ، اجر عظیم اور نعم البدل عطافرمائے ۔ رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ