کابل کی کٹھ پتلی فورسز مزاحمت کی بجائے فرار پر مجبور

آج کی بات بالآخر کابل کے کٹھ پتلی اعلیٰ حکام نے بھی یہ حققیت تسلیم کر لی ہے کہ ان کی فوج  میدان جنگ میں آنے کا حوصلہ ہار چکی ہے ،  اپنے مخالف گروہ[امارت اسلامی] کے خلاف مزاحمت کی قوت نہیں رکھتے اور مجاہدین کے  معمولی حملے کے نتیجے میں  اپنے مراکز  سے راہ […]

آج کی بات

بالآخر کابل کے کٹھ پتلی اعلیٰ حکام نے بھی یہ حققیت تسلیم کر لی ہے کہ ان کی فوج  میدان جنگ میں آنے کا حوصلہ ہار چکی ہے ،  اپنے مخالف گروہ[امارت اسلامی] کے خلاف مزاحمت کی قوت نہیں رکھتے اور مجاہدین کے  معمولی حملے کے نتیجے میں  اپنے مراکز  سے راہ فرار اختیار  کر رہے ہیں۔

صوبہ ہلمند کے لیے کٹھ پتلی اشرف غنی  کے  مقرر کردہ نام نہاد گورنر حیات اللہ حیات نے گذشتہ دن ایک ہلمند کے مقامی قبائلی رہنماوّں کے ایک اجلاس  سے گفتگو کرتے ہوئے  واضح طور پر کہا کہ صوبہ ہلمند کی موجودہ صورتحال ابتر اور ہمارے کنٹرول سے باہر ہے ۔ مجاہدین صدر مقام لشکر کے علاوہ ہلمند کے وسیع علاقوں پر قابض ہیں جس میں کئی اہم اضلاع شامل ہیں یہاں تک کہ وہ اب لشکر گاہ کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں۔ گورنر نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ افغان کٹھ پتلی افواج اور دیگر سیکورٹی فورسز بزدل  ہیں اور  وہ حوصلہ ہار چکےہیں۔ وہ مزاحمت کی بجائے مجاہدین کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے مورچے خالی کر کے بھاگ جاتے ہیں۔

اشرف غنی کے گورنر نے مزید کہا کہ گذشتہ چند ہفتوں میں ڈیڑھ سو کے قریب سیکورٹی اور دفاعی  چوکیاں جس میں سینکڑوں اہل کار تعینات تھے جنگ کے اوئل میں ہی سب بھاگ گئے اور مذکورہ چوکیوں پر مجاہدین قابض ہوگئے۔ انہوں نے مجاہدین کے خلاف بغیر کسی مزاحمت کےسیکورٹی چوکیاں چھوڑ کر بھاگ جانے والے اہل کاروں کو دھمکی دی کہ ان کے خلاف خیانت اور دھوکہ دہی کے مقدمے قائم کیے جائیں گے اور بھاگ کر جانے والے ہر اہل کار 15 سال قیدکی سزا دی جائے گی ۔

ہلمند کے موجودہ گورنر جو  خود کو اشرف غنی کا ایک با اعتماد  اور با صلاحیت ساتھی بھی سمجھتا ہے نے ایک اجلاس کے دوران  اس قسم کی واضح اعترافی بیا  ن اور  مختلف رازوں سے پردہ اٹھانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہلمند کی  عسکری صورتحال کتنی ابتر اور حکومتی کنٹرول سے باہر ہے۔ یاد رہے یہ صرف وہ باتیں تھیں جو گورنر نے لوگوں کو بتانا مناسب سمجھا البتہ ان کے سینے میں چھپے کتنے ہی راز ایسے ہوں گے  جس سے افشا کرنا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔

یعنی اشرف غنی کے اس گورنر کے اعترافات سے ثابت ہوا کہ صوبہ ہلمند میں امارت اسلامی کے مجاہدین نے دشمن کی 40 ہزار کے لاوّ لشکر کو نیٹو کے ہزاروں جارحیت پسندوں سمیت  شکست سے دو چار کیاہے ۔

ہم کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے گورنر کے ان  اعترافات کو ایک ثبوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس میں ہر لفظ سے مایوسی  اور شکست     ٹپکتی نظر آتی ہے ۔ اور ان کا ہر لفظ ان کے کٹھ پتلی فورسز کے لیے باعث عبرت ہے۔ کیونکہ150  کے قریب دفاعی اور سیکورٹی چوکیاں بغیر کسی مزاحمت کے چھوڑنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو مجاہدین کی ہیبت اور قوت نے  انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنے مراکز چھوڑ کر فرار کی راہ اپنائیں یا اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مجاہدین کی حقانیت  نے ان کے دل میں یہ احساس پیدا کیا ہو کہ مجاہدین کے ساتھ مقابلہ دنیا اور آخرت دونوں کی تباہی ہے اس لیے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ مجاہدین کے ساتھ مقابلے کی بجائے میدان ان کے سپرد کیا جائے۔

بہر حال کٹھ پتلی فورسز کا مجاہدین کی عسکری قوت  کی وجہ سے محاذوں سے فرار یا دینی احساس کی وجہ سے  مزاحمت سے دستبرداری  دونوں  وجوہات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ  امارت اسلامی کے مجاہدین کا مقابلہ اب کابل کی کٹھ پتلی فورسز اور ان کے نیٹو آقا کے بس کی بات نہیں ۔ اب بھی اگر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں  کہ کسی دوسرے منصوبے یا قومی ملیشیا کے تازہ دم لشکر سے مجاہدین کا راستہ روکیں گے تو یہ محض دشمن کا خواب اور خیال ہے۔