کمیشن برائے امور صحت کے مرکزی ناظم مالیات مولوی شرف الدین سے گفتگو

ہمارے کام میں دیر کسی صورت قابل قبول نہیں کہ یہ مجاہدین کی زندگی کا مسئلہ ہے   محترم قارئین ! امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں سے ایک اہم حصہ صحت کمیشن ہے ۔ یہ کمیشن امور صحت کے متعلق خدمات انجام دیتا ہے ۔ جہاد کے زخمیوں کے معالجے کے علاوہ مریض قیدیوں اور […]

ہمارے کام میں دیر کسی صورت قابل قبول نہیں کہ یہ مجاہدین کی زندگی کا مسئلہ ہے

 

محترم قارئین !

امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں سے ایک اہم حصہ صحت کمیشن ہے ۔ یہ کمیشن امور صحت کے متعلق خدمات انجام دیتا ہے ۔ جہاد کے زخمیوں کے معالجے کے علاوہ مریض قیدیوں اور مفلوج اور معذور افراد کے لیے صحت کے حوالے سے خدمات اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں لوگوں کے لیے طبی پروگرامات کا انعقاد بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ جہادی سلسلہ کا ایک بہت درد ناک پہلو زخمی مجاہدین کی حالت ہے جو مقدس جہاد کے میدان میں زخمی ہوجاتے ہیں ۔ کیوں کہ زمان اور مکان کے حوالے سے سخت اور تنگ حالات کی وجہ سے ایسی سہولیات میسر نہیں ہیں کہ زخمیوں کا کما حقہ علاج اور خدمت ہوسکے ۔ زخمیوں کو ہسپتال اور ڈاکٹر تک پہنچانے میں بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

دوسری جانب وسائل اور طبی سہولیات کی کمی اور امتحانی حالات اس کا باعث بن جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے زخمی مجاہدین کو انتہائی سخت تکالیف سے گذرنا پڑتا ہے ۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود اللہ تعالی کے فضل سے امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنی کوششوں کے نتیجے میں صحت کے حوالے سے ایسا نظام مرتب کیا ہے تاکہ زخمی مجاہدین کی خدمت ہوسکے ۔ ان کی زندگیوں کی حفاظت ہوسکے ۔ ان کے زخموں کی مرہم پٹی ہو اور اپنی بساط کے مطابق ان سے ہر طرح کا تعاون اور ان کی طبی معاونت کی جائے ۔

صحت کمیشن کی بنیاد اور ضرورت کے حوالے سے معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اس بار کمیشن برائے امور صحت کے سربراہ مولوی شرف الدین صاحب سے گفتگو کی گئی ہے جو قارئین کے نذر ہے ۔

محترم مولوی صاحب !سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں اور اپنی ذمہ داریوں کے متعلق معلومات دیں ؟

جواب: میرا نام شرف الدین ہے ۔ صوبہ جوزجان سے میرا بنیادی تعلق ہے اور کمیشن برائے امور صحت میں کام کرتا ہوں ۔

سوال : صحت کمیشن کے متعلق کچھ معلومات اگر ہمارے ساتھ شریک کریں کہ اس کمیشن میں کون سی تشکیلات اور انتظامی شعبے شامل ہیں ؟

جواب :یہ کمیشن صحت کے امور میں امارت اسلامیہ کا ذمہ دار کمیشن ہے ۔ جو بنیادی طورپر چار حصوں میں تقسیم ہے ۔ ایک انتظامی شعبہ ہے جبکہ بقایا تین شعبے زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اسی طرح صحت کمیشن کے پورے افغانستان میں ہر صوبے کی سطح پر متعین نمائندے اور نگران موجود ہیں ۔ جو صوبے میں کمیشن کے کام کی نگرانی اور اور کمیشن کی نمائندگی کرتے ہیں ۔

سوال : آپ نے صحت کمیشن کی مختلف ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا ۔ سب سے پہلے زخمیوں کے علاج حوالے سے کچھ بتائیں کہ اس شعبے میں آپ لوگوں کا طریقہ کیا ہوتا ہے ۔

جواب: آپ بہتر جانتے ہیں کہ گذشتہ تیرہ سالوں سے ہمارے ملک میں امریکا اور دیگر مغربی جارحیت پسندوں کے خلاف مقدس جہاد جاری ہے ۔ اس جنگ میں جس طرح دشمن کو شدید نقصان اٹھانے پڑتے ہیں ہمارے مجاہدین بھی شہید اور زخمی ہوتے ہیں ۔ جہاد کے دوران زخمی ہونے والے انہیں لوگوں کا علاج ہی ہمارے کام کا مرکزی حصہ ہے ۔ اس مقصد کے لیے ہم نے مختلف صوبوں میں ابتدائی طبی امداد مہیا کرنے کے لیے لوگوں کی تربیت کی ہے اور ان کی باقاعدہ یہ ذمہ داری ہے ۔

جہادی علاقوں میں موجود عام کلینکوں کو بھی مفاہمت کے ذریعے اس بات پر قائل کیا ہے کہ اپنی بساط کی حد تک زخمی مجاہدین کی خدمت کریں ۔ اس ہنگامی علاج کے علاوہ شدید زخمیوں کے لیے یا وہ زخمی جن کی ہڈی ٹوٹ جائے یا کوئی عضو کٹ جائے ان کے لیے بنیادی علاج کے وسائل بھی مہیا کیے گئے ۔ اس حوالے سے ہم نے پورے افغانستان کے زخمیوں اور معالجے کے لیے وسائل مہیا کیے ہیں ۔ اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود اپنی کوششوں میں اب تک ہم کامیاب ہیں اور اب تک ہم اس کوشش میں کامیاب ہیں کہ بہت اچھے طریقے سے تمام زخمی مجاہدین کا علاج کریں ۔

جہاد میں زخمی ہونے والے مجاہدین چاہے وہ جیسے بھی زخمی ہوں اور جتنے بھی مصارف آئیں ہم ان کا علاج کرتے ہیں ۔ ہم ایک زخمی کا علاج اس وقت تک کرتے ہیں جب تک وہ پوری طرح صحت یاب نہ ہوجائے ۔ جن مجاہدین کے اعضاء ہاتھ، پاوں یا آنکھ وغیرہ جنگ میں کام آئے ہم ان کے لیے مصنوعی اعضاء کا انتظام کرتے ہیں ۔ اسی طرح دشمن کی قید سے جو قیدی مجاہدین رہا ہوتے ہیں ان کا علاج بھی ہم کرتے ہیں ۔

سوال : آپ نے زخمیوں کے علاج کی بات کی ۔ افغانستان کی جنگ تو ایک بڑی اور وسیع جنگ ہے اور تقریبا پورے افغانستان میں جاری ہے ۔ اس لحاط سے اس کے زخمیوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی ۔ اور زخمی مجاہدین کے علاج کا کوئی اور مرجع ذریعہ بھی نہیں تو اس حوالے سے آپ اپنا کام کیسے مکمل کرتے ہیں یا اتنے مالی وسائل کہاں سے مہیا کرتے ہیں ۔

جواب :  جیسا کے آپ نے اس جانب اشارہ کیا کہ ہمارا کام واقعی بہت حساس اور بھاری ہے ۔ دوسرے کاموں میں تاخیر یا تعطل ہوجائے تو اس کا امکان ہے مگر ہمارے کام میں تعطل یا دیر کسی صورت قابل قبول نہیں کیوں کہ یہ مجاہدین کی زندگی کی حفاظت کا مسئلہ ہے ۔ اور جس طرح سے بھی ممکن ہو ہماری اول وآخری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایک مجاہد کی زندگی بچ جائے ۔

اسی لیے امارت اسلامیہ ہر کام کے بنسبت اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دیتی ہے ۔ جتنے بھی مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے ہماری ہی ضروریات پوری کی جاتی ہیں ۔ تاکہ خدا نہ کرے کوئی زخمی کسی خطرے کا شکار نہ ہوجائے ۔ آپ جانتے ہیں آج کل ادویات بہت مہنگی ہوئی ہیں ۔ ایسے حالات میں جب ہمیں کوئی چھوٹی سے چھوٹی دوابھی مفت نہیں ملتی زخمیوں کی مرہم پٹی ، آپریشن ، مصنوعی اعضاء اور علاج کے متعلق تمام اشیاء یہ سب کچھ پیسوں سے کرنا پڑتا ہے ۔

ہمارے مالی مصارف بہت زیادہ ہوگئے ہیں ۔ اور یہ ایسی ضرورت ہے جسے فوری پورطورپر ادا ہونا چاہیے ۔ اسی لیے امارت اسلامیہ اپنے سارے وسائل اور ساری کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے زخمیوں کے علاج کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ اس حوالے سے اہل خیر مسلمان بھی ہم سے تعاون کرتے ہیں مگر ہمارا کام انتہائی ہنگامی اور ضروری ہے ۔ اس میں ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں جو لوگ امارت اسلامیہ سے تعاون کرسکتے ہیں انہیں تعاون سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔ انہیں اس ہنگامی ضرورت کا احساس کرنا چاہیے ۔ مجاہدین کی مشکلات سے خود کو باخبر رکھنا چاہیے اور اپنے تعاون سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔

سوال:

زخمیوں کے علاج معالجے کے علاوہ آپ نے ابتدائی طبی امداد کی تربیت کی بات کی اس حوالے سے کچھ معلومات فراہم کریں ۔

جواب :

جی ہاں !صحت کمیشن کے دو تربیتی مراکز ہیں ۔ جس میں  ہر چارماہی دورے میں 60 کے قریب طبی کارکنوں کو پیشہ ور ماہرین اور ڈاکٹروں کی جانب سے تربیت دی جاتی ہے اور پھر خدمت کے لیے انہیں معاشرے میں بھیجا جاتا ہے ۔

پہلے ہم مختلف صوبوں کے جہادی ذمہ داروں سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے وہ مجاہدین جنہیں وہ طبی تربیت کے لیے مناسب سمجھیں اور وہ اپنے محاذ پر خدمت کرنے کو تیار ہوں ۔ انہیں ہم تک پہنچادیں تاکہ ہم ان کی طبی تربیت کریں ۔

پہلی مرتبہ جو لوگ تربیت حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں ہم پہلے ان سے ایک امتحان لیتے ہیں ۔ تاکہ ان کے استعدادوں کا پتہ چلے ۔ اس ابتدائی ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد اسے اس تربیتی دورے میں لیا جاتا ہے ۔ جس میں اساتذہ کی جانب سے انہیں ان ضروری امور کی تربیت دی جاتی ہے جہادی محاذوںپر جس کی ضرورت پڑتی ہے ۔

زخمیوں کی ابتدائی طبی امداد ، خون روکنا ، ٹانکے لگانا ، اسی طرح اندرونی امراض کے علاج کے متعلق ضروری تربیت دی جاتی ہے ۔ چار ماہ بعد ان سے امتحان لیا جاتا ہے ۔ اور کامیاب افراد کو اسناد دی جاتی ہیں ۔ اسی طرح جن لوگوں کی خواہش ہوتی ہے توکمیشن سے متعلق میڈیکل کلینکوں یا زخمیوں کی خدمت کے لیے کسی خاص مقام پر خدمت کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے ۔

ہم جن لوگوں کو تربیت دیتے ہیں ان میں سے اکثر جہادی محاذوں پر جاتے ہیں ۔ ان کی جانب سے مجاہدین کی خدمت انتہائی قابل قدر ہے ۔ البتہ ایسے بہت سے افراد جو جہادی محاذوں پر نہیں جاتے اور اپنے علاقے ایک طبی کارکن کی حیثیت لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کا کام بھی ہماری کامیابی ہے ۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں طبی کارکنوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ ہمارے عوام کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے ۔ اپنے مسلمان عوام کی خدمت کے لیے یہ ہماری ایک کامیابی ہے کہ ہم انہیں طبی کارکن مہیا کریں ۔

سوال :

امریکی ، یورپی اورامریکیوں کی جانب منتخب کردہ افغان حکومت کا دعوی ہے کہ انہیں انسانی حقوق کے اقدار کا احساس ہے ۔ انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور متاثرین کے دفاع کے لیے جنیوا معاہدے کے جیسے معاہدے کو تسلیم کیا ہے اور اس پر دستخط کیے ہیں ۔ آپ کا کام ہی چونکہ زخمیوں کی منتقلی اور علاج ہے اور حالات سب آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ کیا واقعتا یہ لوگ اپنے دعووں میں سچے ہیں اور واقعی جنگ کے متاثرین کے حقوق انہیں رسمی طورپر معلوم ہیں ۔

جواب:

دوسرے دعووں کی طرح مغربی جارحیت پسندوں کا یہ دعوی بھی جھوٹا ہے ۔ انسانی حقوق اور انسانی اصول یہ لوگ صرف اپنے لیے جانتے اور مانتے ہیں ۔ اپنے علاوہ کسی کو بھی یہ لوگ انسان نہیں سمجھتے ۔ زخمیوں کا علاج کرنے کی بجائے یہ لوگ انہیں جیلوں میں  ڈالدیتے ہیں تاکہ ان کے زخم اور خراب ہوجائیں اور ان کےاعضاء ٹھیک طرح سے واپس نہ جڑ سکیں ۔ ایسا بھی کئی مرتبہ ہوا ہے کہ زخمیوں کو انتہائی ظلم سے شہید کردیا گیا ۔

ان کے انہیں مظالم اور قساوت قلبی کے باعث زخمیوں کو بہت دردناک صورتحال کا سامنا ہوتا ہے ۔ وہ فاصلہ جو ایک زخمی ایک دن میں طے کرکے اپنے علاج کے لیے پہنچ سکتا ہے ۔ سخت اور خطرناک حالات میں پہاڑی راستوں میں یہ فاصلے 7، 8 میں طے کرنے پڑتے ہیں ۔ ایسے حالات میں جب مجاہدین کے پاس ایمبولینس اور گاڑیوں کی سہولت نہیں ہے ۔ مجاہدین اپنے زخمیوں کو پیٹھ پر لاد کر یاکسی جانور پر باندھ کر منتقل کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے اکثر زخمیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ زخمی انہیں طویل راستوں پر خون ضائع ہونے کی وجہ سے راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ کبھی کبھی میدان جنگ میں ایک مجاہد زخمی ہوجاتا ہے مگر علاج کے لیے اپنے علاقے سے اس لیے اسے منتقل نہیں کیا جاسکتا کہ راستے میں دشمن موجود ہوتا ہے جو اسے تازہ زخم دیکھ کر پہچان جائے گا۔

اس لیے مجاہد اپنے علاقے میں کچھ عرصہ رہتا ہے تاکہ زخم کچھ ٹھیک ہوجائیں ایسے میں ابتدائی طبی اور دیسی طریقے سے علا ج کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں جب زخمی اپنے زخم ڈاکٹر یا معالج کو دکھاتا ہے تو بہت مرتبہ ٹوٹی ہوئی ہڈی غلط جڑ گئی ہوتی ہے ۔ جس سے ان کی دائمی معذوری کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ تب ڈاکٹر کو مجبورا ان کے غلط جڑے ہوئے اعضاء توڑ کر پھرسے جوڑ نے پڑتے ہیں ۔ اس طرح زخمی پر تکلیف نئے سرے سے آجاتی ہے ۔ اور ایک زخم کی وجہ سے اسے دو مرتبہ تکلیف سے گذرنا پڑجاتا ہے ۔

یہ اور اس طرح کی دیگر مشکلات ہیں جو ہمارے زخمیوں کے ساتھ دشمن کے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے پیش آتے ہیں ۔ ان کی ظاہری باتوں اور پروپیگنڈوں پر نہیں جانا چاہیے ۔ ہم وطنوں کو اگر ان کا اصلی چہرہ دیکھنا ہے تو ان کے ایسے شقاوت کے واقعات کا جائزہ لیں ۔

سوال : ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ دشمن کی جانب سے جنگ میں زہریلے اور کیمیائی اسلحوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ آپ نے زخمیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس طرح کے اثرات آپ نے ان میں دیکھے ہیں ؟

جواب:

جی ہاں !ایسے برے اثرات ہم نے  بارہا زخمیوں میں دیکھے ہیں جس کا باعث ڈاکٹروں کے مطابق دشمن کی جانب سے جنگ میں زہریلے مواد کا استعمال ہے ۔ مثلا ایک شکایت بعض زخمیوں کے ساتھ یہ ہوتی ہے کہ زخمی ہونے کے بعد انہیں جلد کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے  جس کا بعد میں علاج نہیں ہوتا ۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کا سبب دشمن کا استعمال ہونے والا اسلحہ ہے ۔ ایسے بھی کچھ واقعات ہوئے ہیں کہ گولی یا بم کے پرزے لگنے کے بعد زخمی کا جسم ٹھیک نہیں ہوتا ۔ کچھ عرصہ کے لیے زخم مندمل ہوجاتے ہیں مگر پھر سے سڑ جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات اگرچہ بہت کم ہیں مگر قابل تشویش ہیں ۔ جس کی تحقیق ہونی چاہیے اور دشمن کے اس جنگی جرم کی تحقیقات ہونی چاہییں ۔

سوال: اپنے مسلمان بھائیوں ، عالمی خیراتی اداروں اور وہ جنہیں انسانی حقوق کی دفاع کا دعوی ہے ان کے لیے آپ کا پیغام کیا ہے ؟

جواب: اپنے مسلمان اور مومن افغان عوام کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ زخمی بھائی جن کا علاج امارت اسلامیہ کا صحت کمیشن کررہا ہے وہ فداکارنوجوان  ہیں جنہوں نے اپنی صحت ، اعضاء اور ساری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیاہے ۔ اسلام میں سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی اور ایک جسد کی طرح ہیں ۔ ہر مسلمان کا درد دوسرے مسلمان کو محسوس کرنا چاہیے ۔ ایسے زخمیوں کا درد ہر مسلمان کو اپنا در سمجھنا چاہیے ۔ ان کی مشکلات سے خود کو باخبر رکھے اور ہر جگہ ہر وقت ان سے تعاون اور ہمدردی رکھیں ۔ زخمیوں کے علاج ، خدمت اور ان کی زندگیوں کی حفاظت اور سہولت کے شعبے میں جتنا ہوسکے تعاون سے گریز نہ کریں ۔ کیوں کہ یہ اسلام کے ان بہادر سپوتوں کا ہر مسلمان پر حق ہے ۔

اسی طرح عالمی اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے پیغام یہ ہے کہ انسانی حقوق اور انسانیت کے حوالے ان کے جو نعرے ہیں یا جو انہوں نے اصول وضع کیے ہیں اس پر اس طرح سے عمل کیا جائے جیسا کہ ان کے طے شدہ اصول اور انسانیت کی خدمت کا تقاضا ہے ۔ بلاامتیاز زخمیوں سے تعاون کریں ۔ یعنی کسی کے دباو اور اثر سے آزاد ہوکر ۔ افغانستان کے مظلوم عوام سے ہمہ پہلو تعاون کریں ۔ خصوصا زخمیوں اور معذوروں کا علاج ۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے زیر کمان کام کرنے کا سیاہ دھبا اپنی تمام تنظیموں اور اداروں کے چہروں سے مٹادیں ۔

سوال :    آخر میں وہ خاندان جنہوں نے اپنی اولادیں جہاد کی راہ میں زخمی یا معذور کرادیں آپ انہیں کیا پیغام دیں گے ؟

جواب :  وہ خاندان اور مومن بھائی جن کے رشتہ دار اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے قربان ، زخمی یا معذور ہوگئے ہم انہیں اس بڑے اعزاز کے حصول اور اتنی بڑی قربانی پر مبارکباد دیتے ہیں کیوں کہ انہوں نے اصلی وراثت پائی ہے کہ دین کی خاطر زخمی ہوئے ہیں ۔ کیوں کہ ہمارے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی دین کی خاطر زخمی ہوئے ہیں ۔ بدر ، احد ، خندق اور دیگر تمام غزوات میں ہمارے لیے مثالیں موجود ہیں کہ صحابہ کرام نے ان جنگوں میں دین کی خاطر زخم اٹھائے ۔ یہ مقام ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس قربانی کی قدر ومنزلت صرف اللہ تعالی  کے علم میں ہے اور اس کا حقیقی بدلہ بھی اللہ تعالی ہی عطافرمائے گا ۔ کسی اور کے بس میں یہ نہیں ہے ۔ امارت اسلامیہ کا صحت کمیشن اس معاملے میں ایک ذمہ دار کمیشن کی حیثیت سے ان کی خدمت کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے ۔ باربار ان کی طبی خدمت کی ہے اور آئندہ کے لیے بھی پوری طرح سے تیار ہیں ۔

زخمیوں کے ورثاء کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ وہ بھی اپنے محتاج اور معذور رشتہ داروں کی خدمت سے بیزار نہ ہوں ۔ اپنے محتاج رشتہ داروں کا بہت خیال رکھیں ۔ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہیں اور اپنے زخمی بھائیوں کو جنہوں نے اسلام اور قرآن پر غیرت کرتے ہوئے اپنے اعضاء کی قربانی دی انہیں مایوس نہ کریں ۔ اور اللہ تعالی کی رضاء کے حصول کی خاطر اس کا دل رکھیں اور اسے حوصلہ دیں ۔