کٹھ پتلی جیلوں میں بے حال قیدی

آج کی بات: جان کیری کے ہاتھوں وجود میں آنے والی موجودہ انتظامیہ نے اپنے آغاز سے اب تک دو اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ ایک سکیورٹی معاہدے کے نام پر اپنی سرزمین پر کفار کو مکمل آزادی دی ہے، جس کے نتیجے میں آئے روز کفار اور ان کے ایجنٹوں کی جانب سے عام […]

آج کی بات:

جان کیری کے ہاتھوں وجود میں آنے والی موجودہ انتظامیہ نے اپنے آغاز سے اب تک دو اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ ایک سکیورٹی معاہدے کے نام پر اپنی سرزمین پر کفار کو مکمل آزادی دی ہے، جس کے نتیجے میں آئے روز کفار اور ان کے ایجنٹوں کی جانب سے عام شہریوں کا خون پانی کی طرح بہایا جانے لگا ہے۔ دوسرا کارنامہ کٹھ پتلی حکومت کا یہ ہے کہ جن قیدیوں کی مدتِ سزا پوری ہونے پر اُن کے مقدمات ختم ہو رہے تھے، اُنہیں روک کر قیدیوں کی رہائی معطل کر دی، جب کہ مقدمات  کی سماعت بھی نامعلوم مدت تک ملتوی کر دی گئی۔ کرزئی کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بگرام جیل افغان کٹھ پتلیوں کے کنٹرول میں ہے، اُسے موجودہ حکومت نے دوبارہ قیدیوں سے بھر کر امریکی جارحیت پسندوں کے کنٹرول میں دیا ہے۔

گزشتہ دن کابل کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اب بھی بگرام جیل میں سیکڑوں قیدی بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں، جن کے مقدمات ابھی تک التوا کا شکار ہیں۔ ان قیدیوں میں 150 سے زیادہ بچے اور نوجوان شامل ہیں۔ مذکورہ تنظیم نے اعتراف کیا ہے کہ انتظامیہ کا رویہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پل چرخی جیل  کے لیے لویہ جرگہ کی جانب سے منتخب کیے گیے وفد نے کہا ہے کہ جیل میں 800 قیدی اپنی سزا کی مدت پوری کر چکے ہیں۔ 440 قیدیوں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جب کہ 144 قیدی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

وفد کا کہنا ہےکہ انتظامیہ چاہتی ہےکہ قیدیوں کے بارے میں نئی قانون سازی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے ہزاروں قیدیوں کے مقدمات  نامعلوم وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہیں، جنہیں رہائی کی اجازت ملتی ہے نہ مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ یہ وہ قیدی ہیں، جو کئی ماہ سے اپنی سزا کی مدت پوری کر چکے ہیں۔

اس سے بھی دردناک بات یہ ہےکہ رواں ماہ نومبر کے آغاز میں پل چرخی جیل میں دو قیدی  مناسب علاج  نہ ہونے کے سبب انتقال کر گئے۔ ان قیدیوں میں  ہلمند کے ضلع مارجہ کے ملا امین اللہ بھی تھے، جنہیں چارسال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔وہ  شدید تشدد کے بعد بیمار پڑ گئے تھے اور گزشتہ جمعے کو اُن کا جیل میں انتقال ہوگیا ہے۔ دوسرے قیدی موسی ٰجان تھے، جن کاتعلق صوبہ غزنی کے ضلع شلگر سے تھا۔ اُنہیں دو سال قبل گرفتار کیاگیا تھا۔ وہ بھی جیل میں بیماری کے سبب انتقال کر گئے۔

قیدیوں کے خاندان کے مطابق انہوں نے بہت کو شش کی کہ وہ اپنے مریضوں کا جیل میں باہر سے اپنے پیسوں سے علاج کرائیں، لیکن جیل حکام نے ہمیں علاج کرانے کی اجازت دی اور نہ خود ان کے علاج کے لیے مناسب اقدامات کیے، جس سے وہ انتقال کر گئے ہیں۔

بلاشبہ یہ انتقال اشرف غنی کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں میں ’قتل‘ کے نام سے لکھا جائے گا۔

اسی طرح افغانستان کے مختلف جیلوں میں سیکڑوں قیدی بے یار ومدد گار پڑے ہوئے ہیں، جنہیں جیل میں انسانی ضروریات کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ قیدیوں کو وہ سہولیات بھی نہیں ملی ہیں، جو کٹھ پتلی ادارے کے قوانین میں درج ہیں۔ کابل ادارے کے اس غیرانسانی رویے پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی ممالک بھی خاموش ہیں۔ حالانکہ ان کے انسانی حقوق کے دعوے ہمیشہ میڈیا پر سنائی دیتے ہیں، لیکن عملی میدان میں ثابت ہو چکا ہےکہ اُنہیں صرف اپنے دعووں سے ہی غرض ہے۔ جس انسانیت کا نعرہ لگا کر اپنے لیے نام نہاد نیک نامی کا اسٹاک لگایا جا رہا ہے، ان تنظیموں کو اُس سے کوئی غرض نہیں ہے۔