گمنام سپوت ملامحمد نعیم نافذ شہید کے مختصر حالات زندگی

عبدالرؤف حکمت اسلامی جہاد کا تسلسل ان گمنام سپوتوں کے شاندار کارناموں اور جانبازیوں کے رہین  منت ہے جن کے نام ، حالات زندگی اور چہروں سے ہم نا آشنا رہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے دائرے ہمیشہ مشہور شخصیات اور معروف ہستیوں کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان گمنام ہستیوں کو […]

عبدالرؤف حکمت

اسلامی جہاد کا تسلسل ان گمنام سپوتوں کے شاندار کارناموں اور جانبازیوں کے رہین  منت ہے جن کے نام ، حالات زندگی اور چہروں سے ہم نا آشنا رہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے دائرے ہمیشہ مشہور شخصیات اور معروف ہستیوں کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان گمنام ہستیوں کو ہمیشہ بھلایا گیا جنہوں نے انقلابات کے برپا کرنے ، کارناموں کو وجود بخشنے اور رجزیہ ترانوں کو زندگی دلانے میں براہ راست اور بنیادی کردار ادا کیا ۔

اسلامی تاریخ کے یہ فرزند اگرچہ دنیاوی لحاظ سے گمنام سمجھے جاتے ہیں مگر یقین ہے کہ ان کا اخروی حصہ بہت وزنی ہوگا ۔ کیوں کہ وہ اللہ تعالی کے حضور اپنی خالص عبادت اور خدمت کا سرمایہ لے کر جارہے ہیں ۔ جس میں کسی قسم کے نام ونمود اور ریاکار ی کا شائبہ تک نہیں ۔

افغانستان میں امارت اسلامیہ کا قیام معاصر اسلامی دنیا میں ایک بڑا واقعہ تھا ۔ پہلی مرتبہ کئی دہائیوں کے بعد اللہ کی زمین پر صحیح معنوں میں ایک خالص اسلامی نظام کی آواز بلند ہوئی ۔ اس آرزو کی تکمیل میں بہت سے جوانوں نے اپنے خون کے نذرانے دیے ۔ انہوں نے اللہ سے کیا ہوا اپنا عہد پورا کردیا ۔ معرکہٴ حق کے میدان میں آئے اور وعدہ نبھا کر چلے بھی گئے ۔ ان سب کے سوانح جمع کرکے مدون کرنا ممکن نہیں ۔ مگر ایک بات کا اعتراف کرنا لازمی ہے کہ اس محاذ کا ہر گمنام شہید اس بات کا حق دار ہے کہ امت کا ہر فرد ان کی یاد اپنے سینے میں محفوظ رکھے ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنا خون شجر اسلام کی آبیاری میں بہا یا اور اس کے بدلے کوئی خون بہا نہیں مانگا ۔

اسی قافلہ شہداء کے ایک گمنام شہید ملا محمد نعیم نافذ بھی ہیں آج کی مجلس میں ہم ان کے حالات زندگی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔

ملامحمد نعیم نافذ شہید:

محمد نعیم نافذ کے والد کا نام حاجی گل محمد اور دادا کا نام سعید جان تھا ۔ پشتون قبیلے میرانی سے تعلق تھا ۔ ان کی پیدائش صوبہ اروزگان ضلع خاص اروزگان کے علاقے شیرہ میں ایک دیندار گھرانے میں ہوئی ۔ انہوں نے اپنا بچپن اپنے ہی گاؤں میں گذارا ۔ اپنے گاؤں کے امام مسجد سے انہوں نے قاعدہ پڑھا ۔ پھر اروزگان کے مرکز ترین کوٹ کے علاقے چرمستان گئے اور وہاں دینی مدرسے میں داخلہ لیا ۔

اسی علاقے میں ایک سال تک پڑھنے کے بعد صوبہ زابل ضلع دایچوپان کے علاقے ہزاربوز گئے ۔ وہاں ایک علاقائی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کردیا ۔ اس وقت افغانستان پر روسی جارحیت پسندوں نے حملہ کردیا اور اس کے مقابلے میں افغانوں کا مسلح جہاد شروع ہوچکا تھا ۔ ان کے خاندان نے اروزگان سے پڑوسی ملک پاکستان صوبہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ ہجرت کی اور وہاں مہاجرین کے ایک کیمپ میں رہائش اختیار کی ۔

محمد نعیم نافذ اس وقت نوجوان تھے ۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مختلف مدارس میں اپنی دینی تعلیم کو دوام بخشا ۔ مسلم باغ ، کوئٹہ ، سرخاب ، میزئی اڈہ اور دیگر علاقوں مشہور اساتذہ سے دینی تعلیم حاصل کی ۔ یہاں تک کہ فنون کی کتابیں ختم کرکے موقوف علیہ تک پہنچ گئے ۔کمیونسٹوں کے خلاف جہاد کے آخری سالوں میں انہوں نے پہلی بار جہاد میں حصہ لیا اور ملا محمد شفیق اخند کے محاذوں پر جہادی خدمات انجام دینی شروع کیں ۔

اسلامی تحریک طالبان میں شمولیت اور خدمت:

اسلامی تحریک طالبان کے آغاز کے وقت اس وقت جب طالبان نے سرحدی علاقے بولد ک پر قبضہ کیا ملامحمد نعیم نافذ اسلامی تحریک میں شامل ہوگئے ۔ قندہار کی فتح کے بعد جب دوسرے صوبوں کی جانب تشکیلات جاری تھیں ملا محمد نعیم اس جماعت میں تھے جس کی تشکیل صوبہ اروزگان کی جانب ہوئی ۔ صوبہ اروزگان میں اکثرسابقہ جہادی کمانڈروں نے طالبان کی پکار پر لبیک کہا اور اسلامی تحریک سے مل گئے ۔ صر ف محمد نبی ، معلم عبدالخالق اور اختر محمد کے نام سے تین کمانڈروں نے مزاحمت کی ۔ ان کے ساتھ اروزگان کے مرکز ترین کوٹ کے مضافات میں جنگ شروع ہوگئی ۔ جس میں ملامحمد نعیم  ایک گروپ سربراہ کی حیثیت سے شریک رہے ۔ اروزگان کی فتح کے بعد ملا محمد نعیم کو اسلامی تحریک کی قیادت کی جانب سے ضلع دہراوود کے پولیس سربراہ کی حیثت سے تعینات کیا گیا ۔

طالبان کی تحریک جب غزنی اور کابل کی جانب بڑھی ملا محمد نعیم اس لشکر میں تھے جنہوں نے غزنی ، میدان وردگ اور لوگر کی جنگوں میں حصہ لیا ۔ یہاں تک کہ کابل کے چہارا سیاب کا مرکزی گوٹی اور کابل شہر کے کئی جنوبی علاقے طالبان کے ہاتھ آگئے ۔ اس دوران انہیں  علاقے ریشخورمیں 1200 مجاہدین کی ایک بریگیڈ کی کمان سونپی گئی ۔ اور وہ اسی علاقے میں اپنے جہادی ساتھیوں کے ساتھ رہنے لگے ۔

اسی علاقے میں ایک روز جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جہادی دفاعی خط پر گشت کررہے تھے دشمن کے فائر کیے ہوئے مارٹر گولے سے شدید زخمی ہوگئے ۔ جس کے بعد انہیں علاج کے لیے وہاں سے منتقل کرلیا گیا۔علاج کے بعد وہ واپس جہادی صف میں حاضر ہوگئے ۔ اس وقت طالبان نے ہرات فتح کرلیا تھا ۔ اور بادغیس کے مضافات میں جنگ جاری تھی ۔ وہ امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد کے حکم پر بادغیس کے دفاعی لائن پر گئے جہاں خط اول کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ۔

بادغیس میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد وہ چہارا سیاب آئے ۔ یہاں وہ اس وقت تک خدمات انجام دیتے رہے جب تک طالبان نے کابل فتح کرلیا ۔ کابل کی فتح کے وقت جب طالبان میدان شہر ، چہاراسیاب اور پل چرخی کے راستے کابل میں داخل ہوگئے وہ چہارا سیاب کے دفاعی لائن پر تھے ۔ سہ طرفہ جنگ کے نتیجے میں دشمن کے دفاعی محاذ ٹوٹ گئے اور طالبان فاتح بن کر کابل میں داخل ہوگئے ۔

کابل کے شمال میں جہادی خدمت:

ملامحمد نعیم کے قریبی ساتھی ملاعبدالحنان کا کہنا ہے کہ کابل کی فتح کے بعد انہیں کابل کے شمال میں شکر درے کے علاقے میں ذمہ دار متعین کیا گیا ۔ بعدازاں کچھ عرصہ کے لیے صوبہ کاپیسا چلے گئے اور پھر بگرام کے دفاعی محاذ پر خدمات انجام دینے لگے ۔ ملاعبدالحنان کا کہنا ہے کہ اس وقت جب احمد شاہ مسعود کی جانب سے کابل پر دوبارہ قبضے کے لیے آپریشن شروع ہوا اور طالبان مجاہدین نے بگرام میں کاریزمیر کے علاقے سے عقب نشینی کرلی ، دوسری طرف شکر درے پر بھی سخت جنگ  چل رہی تھی اس وقت حالات انتہائی سخت تھے افغانستان کے وزیر دفاع ملا عبیداللہ اخند جنگ کے فرنٹ لائن پر آگئے اور ملا محمد نعیم نافذ سے کہا تم شکردرہ کے محاذ پر خط اول پر چلے جاؤ ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکردرہ چلے گئے وہاں کچھ دن جنگ کے بعد دشمن کی پیش قدمی رک گئی ۔ اس کے بعد انہیں شکردرہ ہی میں علاقائی ذمہ دار متعین کیاگیا ۔ اور بہت عرصے تک وہ اسی علاقے میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ وہ شمالی علاقوں میں ہونے والی تمام کارروائیوں میں شریک رہے ۔

اس وقت جب ملامحمد نعیم نافذ شمال اور قندوز میں جہادی ذمہ داریاں نبھارہے تھے گردیز کی تیسری چھاؤنی کے کمانڈر کی حیثیت سے بھی ذمہ دار رہے ۔ مگر چونکہ وہ ہمیشہ جنگی خطوں پر رہے اس لیے چھاؤنی میں ان کی نیابت عبدالمنان شہید اور ملا پائ محمد شہید سرانجام دیتے رہے ۔

قندوز کے محاصرے میں :

مئی 1997 کو افغانستان کے شمال میں بڑی تبدیلیاں آئیں ۔ اسی مہینے میں شمال کاایک مشہور کمانڈر جنرل مالک طالبان سے مل گیا ۔ ان سے مل کر طالبان نے مزار شریف سمیت شمالی صوبوں پر کنٹرول پر قبضہ کیا ۔ طالبان کا ایک اور لشکر پروان سے سالنگ ٹنل کے راستے بغلان کی جانب نکل گیا ۔ اور پل خمری کے شہر گوٹی پر قبضہ کرلیا ۔

مگر جب جنرل مالک نے طالبان سے غداری کی اور مزار شریف سمیت شمالے صوبے واپس لے لیے ۔ دوسری طرف احمد شاہ مسعود نے حملہ کرکے سالنگ ، جبل السراج اور چاریکار پر قبضہ کرلیا ۔ اس طرح طالبان کے ہزاروں مجاہدین بغلان میں محصور ہوگئے ۔ طالبان نے نجات کے واحد راستے کے طورپر قندوز پر حملہ کردیا ۔ اور علاقائی کمانڈروں کے تعاون سے قندوز کے شہر گوٹی پر قبضہ کیا ۔ اس طرح قندوز کے ہوائی اڈے کے ذریعے کابل تک فضائی راستے سے آنے جانے کا راستہ مل گیا ۔

طالبان  قندوز کے مرکز میں انتہائی محدود حصے میں محصور تھے اور ہروقت تخار ، بغلان اور سمنگان کی جانب سے مخالفین کے حملے جاری تھے ۔ انتہائی سخت حالات میں وہ شب وروز گزررہے تھے ۔ کسی کو بھی یہ توقع نہ تھی کہ اس شدید محاصرے سے وہ صحیح سلامت نکل جائیں گے ۔ یہی سخت حالات تھے جس کے باعث قندوز کے جہادی صف میں جانے کی ہمت کسی کو نہیں تھی ۔ ایسے حالات میں ملامحمد نعیم نافذ جو کابل کے شمال میں شکردرہ میں جہادی ذمہ داری نبھارہے تھے ملا محمد عمر مجاہد کی جانب سے انہیں حکم ملا کہ قندوز جاکر محاذ سنبھالے ۔ انہوں نے پوری اطاعت سے امیر کے حکم پر لبیک کہا اور یہ مشکل ذمہ داری قبول کرلی ۔

ملاعبدالحنان کا کہنا ہے شہید ملا محمد نعیم نافذ نے اپنے ساتھیوں کو کابل میں جمع کیا اور کہا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ قندوز جاکر محاصرے میں اتر جاؤں ، آپ لوگوں میں سے جو بھی تیار ہو اور میرے ساتھ جانا چاہے مجھے خوشی ہوگی مگر میری طرف سے کوئی زبردستی نہیں کہ ضرور میرے ساتھ جاؤ۔ اس وقت ان کے ساتھ صرف 11 افراد تیار ہوئے ۔ انہیں گیارہ ساتھیوں کو لے کر وہ طیارے کے ذریعے قندوز میں اتر گئے ۔ بعد میں قندوز کے محاذوں کے سربراہ ملاداداللہ شہید رحمہ اللہ کابل گئے تو ملانعیم اخند کو قندوز کا عمومی جہادی سربراہ متعین کیا گیا ۔

افغانستان کے سابق وزیر تعلیم الحاج محترم  ملاامیر خان متقی صاحب جواس وقت قندوز میں طالبان کے جہادی صف میں خدمات سرانجام دے رہے تھے ان کا کہنا ہے کہ ملا محمد نعیم انتہائی منظم شخصیت اور حربی امور کے ماہر شخص تھے ۔ قندوز کے محاصرے میں احمد شاہ مسعود کی پوری کوشش یہ تھی کہ محصور طالبان کا خاتمہ کردیا جائے ۔ اس لیے کہ قندوز میں طالبان کی موجودگی سے کابل پر اس کے حملوں کا سلسلہ رک گیا تھا ۔ وہ چاہتا تھا جلد از جلد قندوز کے محصورین کا خاتمہ کرکے پھر سے کابل کے سرحدوں پر دستک دینے پہنچ جائے ۔ مگر ملا محمد نعیم کے مسلسل حملوں نے اس کی پیش قدمی روک دی بلکہ مجاہدین کے زیر قبضہ علاقے میں وسعت پیداہوتی گئی ۔

ملا امیر خان متقی کہتے ہیں ملا محمد نعیم نے وائرلیس رابطے کا انتہائی منظم اور مضبوط نظام قائم کیا ہوا تھا جو ہر وقت فعال رہتا ۔ ملا محمد نعیم انتہائی فعال اور متحرک شخص تھے ۔ جو اکثر 18 سے 20 گھنٹوں تک کام کرتے رہتے ۔ ہمیشہ جنگی لائنوں پر گشت کرتے ۔ اور دشمن کے حملوں کا جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ۔

ملا عبدالحنان جو قندوز میں ملامحمد نعیم کے ساتھ جہادی ساتھی رہے کہتے ہیں قندوز کے جہادی ذمہ داری کے دور میں ملا محمد نعیم کی قیادت میں تخار، اشکمش، بغلان ضلع بورکہ اور دیگر علاقے فتح ہوئے اور مجاہدین کو بڑی کامیابیاں ملیں ۔

شہادت اور حیات ابدی:

قندوز میں طویل ذمہ داریاں نبھانے کے بعد 1999ء میں ایک بارپھر انہیں کابل کے شمال میں جہادی ذمہ داری سپرد کی گئی ۔ اس بار جب مخالفین نے کاپیسا کے مضافات میں آپریشن کا آغازکرنے کی کوشش کی تو انہوں نے تغاب اور نجراب کے درمیانی علاقے میں مخالفین کی چیک پوسٹوں پر حملے شروع کردیے۔ مخالفین نے علاقے کی زمین میں بارودی سرنگ بچھادیے تھے ۔ ملا نعیم نافذ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کوشش کی کہ علاقےکو صاف کرکے پیش قدمی کی جائے ۔ اس وقت جب ان کے ساتھی بارودی سرنگ صاف کرنے میں مصروف تھے اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سڑک کے کنارے پر انتظار کررہے تھے ایک دومیلہ گاڑی بارودی سرنگ پر چڑھ گئی جس سے ایک زور دھماکہ ہوا ۔ ملامحمد نعیم اخند اس دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے اور موقع پر ہی تاج شہادت پر راہی دارالبقا ہوگئے ۔

انالله  وانا الیه راجعون

ملامحمد نعیم نافذ جن کی عمر شہادت کے وقت 27 سال تھی ۔ ان کا جسد خاکی اروزگان کے مرکز کے مضافاتی علاقے چرمستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔

ملامحمد نافذ جنہوں نے زیادہ عرصہ دینی تعلیم اور جہاد کی خدمت میں گزارا تھا ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ دونوں میدانوں میں انتہائی اچھا استعداد اورمہارت رکھتے تھے ۔ علمی سرمایہ کے ساتھ اچھی شجاعت کے مالک تھے ۔

ملاامیر ¿¿¿خان متقی جو انہیں انتہائی قریب سے جانتے تھے ان کا کہناہے کہ وہ بہت اعلی اخلاق کے مالک تھے اور بڑوں کی قدر کرتے تھے ۔ ان میں عاجزی کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ تکبر اور بڑھے پن سے ایسے عاری تھے کہ صوبہ تخار کے علاقے بنگی میں دشمن سے سخت جنگ جاری تھی اس دوران ملانعیم نافذ میدان جنگ میں پہنچے ۔ ان کے آتے ہی مجاہدین خوشی سے وائرلیس سیٹوں میں چلانے لگے “نافذ پہنچ گئے نافذ پہنچ لگے “۔ وائرلیس سیٹوں میں یہ آواز دشمن تک بھی پہنچ گئی ان کی صفوں میں نافذ نافذ کی آوازیں ابھرنے لگیں اور ایک کھلبلی سے مچ گئی ۔  اور وہ ایک ایک کرکے میدان چھوڑنے لگے ۔ نافذ صاحب یہ سب کچھ سن رہے تھے اور دیکھ رہے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور کہا ” میری کیا حیثیت ہے ؟ میں تو ایک غریب آدمی کا بیٹھا ہوں ، مگر چونکہ حق کا ساتھی ہوں تو اللہ تعالی نے اسی حقانیت کی برکت سے دشمن پر اتنا رعب طاری کردیا ہے “۔

ملا ولی جان ملانعیم نافذ رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے ملا محمد نعیم بیت المال کے مال میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ۔ وہ بیت المال کی معمولی سے معمولی رقم بھی گھر میں خرچ نہیں کرتے تھے ۔

ملا ولی جان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہماری زندگی انتہائی غربت کا شکار تھی ۔ ایک مرتبہ میں نے ملا محمد نعیم صاحب سے گھر کی کمزور اقتصادی حالت کی شکایت کی ، انہوں نے کہا میرے پاس بیت المال کی بہت زیادہ رقم ہے جسے میں ذاتی ضروریات میں صرف کرسکتا ہوں مگر اللہ تعالی سے ڈرلگتاہے میری مانو تو یہی غربت کی زندگی بہتر ہے ۔ یہ رقم اگر ذاتی ضروریات میں خرچ کروں تو یہ قیامت کے دن آگ کے انگارے بن کر گلے کا طوق بن جائے گا ۔ ملا ولی جان کہتے ہیں وہ جب گھر آتے تو امارت کی قیادت کی جانب سے انہیں خاص محدود مقدار میں رقم گھر کے اخراجات کے لیے دی جاتی ۔ وہ صرف وہی رقم مجھے دیتے اور کہتے اسے گھر کے مصارف میں خرچ کرنا ۔ بیت المال کے دیگر رقوم کے ساتھ بہت احتیاط کرنا ۔

ملامحمد نعیم نافذ شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد ان کے قریبی ساتھی ملا عبدالرزاق ان کے جانشین متعین کیے گئے ۔ بعد ازاں وہ بھی نافذ کے نام سے مشہور ہوگئے ۔ اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔ ملاعبدالرزاق نے صوبہ اروزگان میں امریکی جارحیت کے خلاف جہاد کا آغاز کردیا ۔ اب تک ان کے جہادی ساتھی اور ہم مورچہ ساتھی جنگ میں مصروف ہیں ۔