ہلمند میں مزید سو  امریکی فوجی بھیجنے کافائدہ؟

آج کی بات: جب سے افغانستان میں جہاد  کی موجودہ لہر تیز ہوئی ہے اور امریکا کے تربیت یافتہ ساڑھے تین لاکھ مسلح دہشت گرد اس بات میں ناکام رہے ہیں کہ وہ مجاہدین کا راستہ روک سکیں تو انہوں نے مختلف شیطانی پروپیگنڈوں کے ذریعے مجاہدین کی فتوحات کو دھندلانے کی کوششیں شروع کر […]

آج کی بات:

جب سے افغانستان میں جہاد  کی موجودہ لہر تیز ہوئی ہے اور امریکا کے تربیت یافتہ ساڑھے تین لاکھ مسلح دہشت گرد اس بات میں ناکام رہے ہیں کہ وہ مجاہدین کا راستہ روک سکیں تو انہوں نے مختلف شیطانی پروپیگنڈوں کے ذریعے مجاہدین کی فتوحات کو دھندلانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔  غیرملکی جارحیت پسند اس کو شش میں ہیں کہ اپنے غلاموں کی مزید امداد کے ذریعے اُنہیں  شکست سے بچایا جا سکے۔ اگرچہ ایسا کچھ عرصے ہی کے لیے ہو۔

امریکا کے صدر اوباما  کے چند ہزار فوجیوں کے قیام کے اعلان سے لے کر امریکا کے وزیر دفاع کی جانب سے بی-52 طیاروں کی بمباری کا دوبارہ آغاز،  کابل ادارے کے مسلح جنگجوؤں کو رقم اور اسلحے   کی   فراہمی اور اب ہلمند میں کئی دفعہ شکست کھانے والی امریکی   جارحیت پسند وں کا   100سے زیادہ فوجی بھیجنے کا اعلان شکست خوردہ دشمن  کی وہ بے چینی ہے، جو ان کی شکست کی واضح دلیل ہے۔ یہ تمام پروپیگنڈا مجاہدین کی کارروائیوں میں ذرا برابر رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔  وہ اور اُن  کے غلام اب  مجاہدین کے مقابلے کے لیے میدان میں اترنے سے کترانے لگے ہیں۔

ہلمند افغانستان کا وہ صوبہ ہے، جسے جارحیت پسندوں  نے اپنے  لیے دوزخ قرار دیا تھا۔ یہاں ہزاروں امریکی اور برطانوی جارحیت مجاہدین کے حملوں میں واصلِ جہنم ہوئے ہیں۔گزشتہ پندرہ سالوں میں آدھے سے زیادہ امریکی اور برطانوی   جارحیت پسندوں کی توجہ ہلمند پر مرکوز تھی،  لیکن ہمیشہ مجاہدین کے مقابلے میں ناکام  و نامراد رہے ہیں۔ جارحیت پسند افواج کے اعتراف کے مطابق یہاں 35 ہزار فوجی اپنی قسمت آزما چکے ہیں۔

آج ہلمند کے  90 فیصد رقبے پر مجاہدین کا کنٹرول ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ افغان قوم پیچھے ہٹنے والی قوم نہیں ہے۔ یہ قوم ہمیشہ مجاہدین کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ غیرملکی جارحیت پسندوں  کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیورا ثابت ہوئی ہے۔

ہلمند میں   35 ہزار امریکی و برطانوی جارحیت پسند  مجاہدین کے مقابلے میں ناکام رہے اور ان کا سب سے بڑا کیمپ ’’بیشن‘‘ اب کھنڈرات  میں تبدیل ہو چکا ہے۔  اس لیے اب صرف غیرتجربہ کار  100 امریکی فوجیوں کے آنے سے کیسے اُن کے غلاموں کا حوصلہ بڑھے گا؟

اچھی بات یہ ہے کہ امریکی جارحیت پسند اپنی احمقانہ  پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے افغانستان سے نکل   جائیں، تاکہ اُنہیں اپنے فوجیوں کے لیے مزید تابوت افغانستان نہ بھیجنا پڑیں۔ اپنی اور افغان قوم کو مزید الجھن میں نہ ڈالیں۔ اب یہ اعلان کر دیں کہ ہم افغانستان میں فتح حاصل نہیں کرسکے۔ امریکی شکستوں کی تاریخ میں ویت نام کی جگہ اب افغانستان کا نام لکھ دیا جائے، تاکہ امریکا کی آنے والی نسلیں اس قوم سے لڑنے کے لیے اپنے آباء و اجداد کی تاریخ پڑھ کر سبق حاصل کریں۔ آئندہ   غازیوں اور شہداء کی اس مقدس سرزمین پر جارحیت کی سوچ سے گریز کریں۔