اسلامی نظام کوئی مبہم یا مجمل مفہوم نہیں ہے

ہفتہ وار تبصرہ افغانستان خاص حالت سے گزررہا ہے ، امریکا کیساتھ طے شدہ معاہدے کی بنیاد پر بیرونی افواج کا انخلا جاری ہے۔ ہماری قوم منتظر ہے کہ  جارحیت کے خاتمہ کے بعد افغانستان میں ایک شرعی اسلامی نظام کے نفاذ سے افغان مؤمن قوم  کی دیرینہ خواہش پوری ہوگی۔ اسلامی نظام جیسا کہ […]

ہفتہ وار تبصرہ

افغانستان خاص حالت سے گزررہا ہے ، امریکا کیساتھ طے شدہ معاہدے کی بنیاد پر بیرونی افواج کا انخلا جاری ہے۔ ہماری قوم منتظر ہے کہ  جارحیت کے خاتمہ کے بعد افغانستان میں ایک شرعی اسلامی نظام کے نفاذ سے افغان مؤمن قوم  کی دیرینہ خواہش پوری ہوگی۔ اسلامی نظام جیسا کہ الہی حکم ہے اور مسلمانوں پر اس کا قیام لازم ہے، اسی طرح ہماری قوم کا متفقہ  مطالبہ بھی ہے۔ یہاں تک دوحہ میں امریکا کیساتھ طے شدہ معاہدے کے متن میں یہی بات درج کی جاچکی ہے کہ جارحیت کے بعد افغانستان میں اسلامی حکومت ہوگی۔ اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں  کہ افغانستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ایک ایسی حقیقت ہے،جسے مذہبی، عوامی اور  ہمہ جہتی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔

اگر ایک طرف ہماری مؤمن قوم اسلامی نظام کے نفاذ کے لمحات گن رہے ہیں، دوسری جانب اسلامی نظام کے مخالف مختلف طریقوں سے کوششیں کررہے ہیں، کہ اس موضوع کے بارے میں عوام کو شکوک و شبہات میں مبتلا کریں اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے۔

حالیہ دنوں کابل میں میڈیا نے اس بات کو  ہوا دی ہے کہ اسلامی نظام ایک مجمل اور مبہم مفہوم ہے، جس کی وضاحت اور تفصیل موجود نہیں ہے، اسی لیے مشکل ہے کہ موجودہ وقت  میں  یہ نظام نافذ ہوجائے۔

اسلامی نظام کی مخالفت کرنے والوں کو یاد دلانا چاہتے ہیں،  کہ اللہ تعالی نے اسلا م کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر زمین بھیجا ہے، جو قیادت تک ہر  زمان اور مکان میں انسانوں کے تمام مسائل اور مشکلات کو حل کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ زندگی  کے بہت چھوٹے اور معمولی پہلوؤں کے لیے اسلام کے  واضح  اصول  ہیں۔ انسانی زندگی کے اہم ترین امور میں سے سمجھےجانے والے سیاسی نظام کے حوالے سے اسلام کے  اظہر من الشمس  اصول و قوانین ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے زمین پر الہی ہدایات کے مطابق اسلامی حکومت کا قیام ذمہ دار انسانوں کا حقیقی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں بھی اسلامی نظام کے نفاذ کی مثالیں ہیں، علوم دینیہ نے اس بارے میں پوری وضاحت دی ہے، لہذا اس مسئلے میں کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔

وہ لوگ جن کا کہنا ہے کہ اسلامی نظام موجودہ زمانے میں قابل نفاذ نہیں ہے، وہ دراصل اسلام کی ماہیت و حقیقت سے ناواقف اور لاعلم ہیں۔ اسلام وہ دین اور دستور ہے، جو قیامت کے دن تک انسانی زندگی کا  رہنما ہے  اور اس کے بعد کوئی دوسرا دین نہیں آتا۔

دوسرا یہ کہ ہے دو دہائی قبل امارت اسلامیہ نے اسلامی نظام کے نفاذ کا  عملی طور  پر مظاہرہ کیا، کہ اسلامی نظام موجودہ عصر میں بھی قابل نفاذ ہے۔ امارت اسلامیہ جسے اسلامی نظام کےنفاذ کا تجربہ ہے، اسے یقین ہے کہ  افغان مسئلہ کا بنیادی حل اس ملک میں حقیقی اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ ہماری مؤمن قوم نے اس نظام کے نفاذ کے لیے بہت قربانیاں پیش کی ہیں، اس کے علاوہ کسی دوسرے نظام پر باور نہیں کرتا۔ فلہذا تمام ملکی اور غیرملکی جماعتوں کو افغان قوم کے اس مشترکہ آرزو اور مطالبے کے سامنے تمکین کرنا چاہیے اور غیرضروری بہانے  اور رکاوٹیں ایجاد کرنے سے باز آجائيں۔