استعمار اپنی ناکام جنگی حکمت عملی پر نظرثانی کررہی ہے؟!!

اس دن یعنی (07/اکتوبر 2001ء) جب امریکی سامراج نے وطن عزیز افغانستان پر تجاوز کیا، اس وقت اب تک 14 سال اور ایک ہفتہ بیت چکا ہے۔ منحوس جارحیت کے اس طویل عرصے میں ہماری غیور، مسلمان اور مجاہد عوام نے دشمن کے ظلم اور وحشت کے خلاف ہر میدان میں مقابلہ کیا۔ مجاہدین نے […]

اس دن یعنی (07/اکتوبر 2001ء) جب امریکی سامراج نے وطن عزیز افغانستان پر تجاوز کیا، اس وقت اب تک 14 سال اور ایک ہفتہ بیت چکا ہے۔ منحوس جارحیت کے اس طویل عرصے میں ہماری غیور، مسلمان اور مجاہد عوام نے دشمن کے ظلم اور وحشت کے خلاف ہر میدان میں مقابلہ کیا۔ مجاہدین نے اللہ تعالی کی نصرت اور باہمی صبروتحمل اور پختہ تدبیر اور عوام کے تعاون سے سامراج کے تمام منصوبوں، اسٹریٹیجیز اور استعماری سازشوں کو یکے بعدیگرے ناکارہ اور رسوا  کردیے۔ استعماری غاصب اللہ تعالی کی فضل اور مقدس کی جہاد کی برکت سے دنیا میں شرمندہ اور شرمناک شکست سے روبرو ہوا،  لیکن تعجب یہ ہے کہ استعمار اب ایک بار پھر قسمت آزمائی کی چکر میں ہے.!!

جب 27/ ستمبر2015ء کو صوبہ قندوز کے اسٹریٹیجک مرکز قندوز شہر کو امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے فتح کرلیا، تو امریکی استعمار، نیٹو اور ان کے کٹھ پتلیوں نے اس تاریخ سے باربار جارحیت کوجاری رکھنے اور طویل عرصے تک وحشی افواج کے قیام کے متعلق بیانات داغنے شروع کیے ہیں۔ امریکی وزیر  دفاع ایشٹن کارٹر  نے08/ اکتوبر 2015ء بروکسل میں منعقدہ نیٹو رکن ممالک کے وزراء دفاع کے اجلاس میں کہا کہ  “افغانستان میں 2016ء کے بعد  فوجیوں کی تعنیاتی کے متعلق امریکہ سمیت متعدد ممالک نظرثانی کر رہا ہے   اور جائزہ کے بعد فیصلہ ہوگا “۔ جرمن وزیر دفاع اور نیٹو کے جنرل سیکریٹری  نےبھی اسی نوعیت کے بیانات داغے۔

عوام اور مجاہدین کو پہلے ہی یقین تھاکہ وطن عزیز سے دشمن کے انخلاء اور جنگ ختم کرنے  کی تاریخیں ثابت  اور حقیقی  وعدے   نہیں ہیں، بلکہ  یہ ان کا ایک جنگی حکمت عملی اور حربی اسٹریٹیجی ہے۔ صرف اور صرف  اپنی عوام اور عالمی برادری کو ورغلانے اور استعمار کے خلاف افغان عوام کے نفرت اور غصہ کے گراف کو نیچا کرنے کی خاطر وقتافوقتا اعلانات کرتے  رہتے ہیں۔

دوسری جانب امریکی جانب سے گدی نشین کابل انتظامیہ ہے ،جس کے برسراقتدار  رہنے کی  ذمہ داری بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہے، عوامی حمایت سے محروم ہے، حتی ان افراد پر اعتماد نہیں کرتا، جو ان کے ہمراہ کام کررہے ہیں۔ موصوف انتظامیہ کے عہدیدار افغانی شہامت اور استعمار کے خلاف افغانوں کی اسلامی اور ملی احساسات کا احترام تک نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ  امارت اسلامیہ کے حالیہ پیش قدمی نے اس اجنبی انتظامیہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کی ہے۔ مجاہدین کے ہر حملے کے بعد استعمار کو ٹہرنے اور جارحیت کو طویل  عرصہ تک جاری رکھنے کی  منتیں کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کابل انتظامیہ کے نام نہاد چیف ایگزیکٹیو نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں کہا کہ ” مجھے یقین ہے کہ امریکی اور افغان جنرل یہ مانتے ہیں،  کہ 2016ء کے بعد بھی  امریکی فوجی افغانستان میں رہیں اور یہ بہت ضروری بات بھی ہے”۔

امارت اسلامیہ کو یقین ہے کہ افغان تنازعہ کا صرف فوجی حل نہیں ہے۔ ظلم، جارحیت اور قبضے کو جاری رکھنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ جنگ اور طاقت آزمائی بربادی اور افغان عوام کو مصیبت پہنچانے کے علاوہ اور کوئی ثمرہ نہیں رکھتی۔ جنگ کی آگ  میں مظلوم اور ظالم دونوں  جلتے ہیں۔ ہمارے خیال میں سالم فکر اور عقل، عدالت اور انسانیت کو رجوع کرنا حل کا واحد راستہ ہے۔ جارحیت انسانی فطرت اور اکیسویں صدی کے تہذیب کے خلاف منحوس عمل ہے۔ قسم خوردہ کٹھ پتلیوں کے علاوہ دنیا میں کوئی عاقل انسان اور متمدن عوام اسے ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے ہمارے معقول مطالبات کو ماننے چاہیے: ملکی قبضہ ختم ہونی چاہیے، افغانوں کی مرضی سے اسلامی حکومت قائم کی ہوجائے، افغانستان کے امورو میں بیرونی دخل اندازی بند ہوجائے، ہم آمادہ ہے کہ جنگ کو ختم کرنے کی خاطر ذیدخل جہتوں سے فوری بات چیت کریں، ہمارے خیال میں  جب جارحیت کے خاتمے اور بیرونی افواج کے انخلاء کے متعلق افغان عوام کو اطمینان حاصل ہوجائے، تو پھر ان شاءاللہ بین الافغانی افہام وتفہیم اور بات چیت کے ذریعے ملک کے تمام مسائل آسانی سے ختم ہوسکتے ہیں ۔ واللہ الموفق