افغان فوج کے پاس کوئی نظریہ نہیں

بشیراحمد افغانستان بھرمیں غیرملکی حملہ آوروں کی موجودگی کے خلاف برسرپیکار بہادر مجاہدین کی جانب سے عمری آپریشن کی کامیابی کے بہترین نتائج توقعات سے بڑھ کر سامنے آ رہے ہیں۔ مجاہدین نے متعدد اضلاع اور علاقوں پر قبضہ واپس لے لیاہے۔ کابل میں غیرملکیوں کے زیراستعمال انٹیلی جنس کاموں کے لیے استعمال ہونے والے […]

بشیراحمد

افغانستان بھرمیں غیرملکی حملہ آوروں کی موجودگی کے خلاف برسرپیکار بہادر مجاہدین کی جانب سے عمری آپریشن کی کامیابی کے بہترین نتائج توقعات سے بڑھ کر سامنے آ رہے ہیں۔ مجاہدین نے متعدد اضلاع اور علاقوں پر قبضہ واپس لے لیاہے۔

کابل میں غیرملکیوں کے زیراستعمال انٹیلی جنس کاموں کے لیے استعمال ہونے والے نارتھ گیٹ ہوٹل کو چار فدائی مجاہدین نے نشانہ بنایا تھا۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدکے مطابق:

’’ایک فدائی مجاہد نے پہلے اس ہوٹل کی عمارت پر دھماکہ خیزمواد سے بھرے ٹرک کے ذریعے حملہ کیا،جس کے نتیجے میں ہوٹل کاایک حصہ زمین بوس ہوگیا، جس کے ملبے تلے آ کر کئی درجن اہل کار ہلاک و زخمی ہوئے۔ بعدازاں ہلکے و بھاری ہتھیاروں سے لیس تین فدائی مجاہدین ہوٹل میں گھس گئے، جہاں انہوں نے غیرملکیوں کونشانہ بنانا شروع کیا اور صبح پانچ بجے تک اس ہوٹل میں کارروائی جاری رہی۔ جس کے نتیجے میں ہوٹل میں موجود تمام غیرملکی ہلاک اور شدید زخمی ہوگئے۔

اس کے بعدفدائی مجاہدین نے ترتیب دیے گئے منصوبے کے تحت ہوٹل کے باہر موجود غیرملکی اور افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، جو 2 گھنٹے تک جاری رہی۔ جس کے نتیجے میں بھی متعدد غیرملکی فوجی اور افغان اہل کار ہلاک و زخمی ہوگئے۔ اس طرح دشمن کے سیکڑوں اہل کار مجاہدین کی درست انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ ہوٹل کی عمارت اور گاڑیوں کوبھی نقصان پہنچا ۔

اگرچہ دشمن نے حسب روایت کوشش کی کہ ہلاکتوں کی تعداد کم بتائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سورج کو ایک انگلی سے نہیں چھپایا جا سکتا۔

کچھ دنوں بعد مشرقی صوبے ننگرہار بیس کے قریب امریکی کانوائے پر ایک فدائی مجاہد نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 2 ٹینک تباہ اور  6 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے۔ مجاہدین ذرائع کے مطابق ان حملوں کا مقصد یہ ہے کہ امریکا نے جن مذموم مقاصد کے لیے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، ان کوحاصل کرنا اتنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں بہت ساری طاقتیں ناکام رہی ہیں۔ اب سوویت یونین کی طرح امریکا کا حشر بھی ویسا ہی ہو گا۔

امریکا افغانستان میں طویل مدت تک قیام کے لیے نئے آلات اور جدیدٹیکنالوجی کے بل بوتے پر زور آزمائی کر رہا ہے، لیکن اس کے مقابلے میں مجاہدین کے حوصلے بہت بلند اورمنظم اندازمیں ان کے خلاف جہادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکا کے جرائم کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ امریکا اپنی معیشت پر رحم کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا یقینی بنائے۔

افغانستان بھر میں فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ عمری آپریشن کے سلسلے میں ہلمندسے بدخشان، تخار، قندوز، بغلان، لغمان اور غزنی تک مجاہدین کی کارروائیاں منظم انداز میں جاری ہیں۔ فتوحات کی خوشخبریاں بھی سنی جا  رہی ہیں۔ ہلمند کے ضلع گرمسیر، خانشین، نادعلی، صوبہ پکتیا کے  ضلع جانی خیل،صوبہ پکتیکا کے ضلع اومنہ اور صوبہ بغلان میں مرکزی بغلان پر مجاہدین نے سفید پرچم لہرا دیا ہے۔ ہلمند میں مجاہدین لشکرگاہ شہر تک پہنچ گئے ہیں۔ اسی طرح صوبہ فراہ، جوزجان، بدخشان، قندوز، بغلان اور غزنی میں بھی مجاہدین دشمن کے مراکز کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔

امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد امریکا اور اس کے زرخرید میڈیا نے پروپیگنڈا کیا کہ مجاہدین کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے اور وہ کمزور ہو چکے ہیں، لیکن مجاہدین کی حالیہ فتوحات اور کارروائیوں نے دشمن کے اس پروپیگنڈے کامنہ توڑ جواب دیا ہے۔ افغانستان بھر میں جاری کارروائیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ دشمن شکست سے دوچار ہے اور وہ دن دور نہیں، جب  امریکا کا حشر بھی سوویت یونین جیسا ہوگا۔

سیاسی اور فوجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ 33صوبوں میں جاری کارروائیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ مجاہدین کمزور نہیں ہیں،  بلکہ پہلے سے زیادہ منظم، فعال اور مضبوط ہو چکے ہیں۔ اگر ان کی کارروائیوں کا سلسلہ اسی طرح تیزی سے جاری رہا تو ان کی فتوحات کا راستہ روکنا افغان فورسز کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ حالیہ کارروائیوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کرنے اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود اپنا ہدف حاصل نہیں کیا۔ وہ افغانستان میں شکست سے دوچار ہے۔ اسی طرح امریکا اور میڈیا نے افغان کٹھ پتلی فوج اور سکیورٹی فورسز  کی طاقت کا جو دعوی کیا تھا، وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ جدیدٹیکنالوجی کی حامل چار لاکھ فوج میدان جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں پسپا ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فورسز اور انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان، جنگی وسائل کی کمی اور کرپشن کے باعث فورسز مختلف علاقوں سے پسپا ہو رہی ہے، جب کہ خود کٹھ پتلی انتظامیہ نے دعوی کیا ہے کہ سکیورٹی معاہدے کے بعد ہر روز امریکا کی جانب سے اشرف غنی انتظامیہ کو  24 ملین ڈالر موصول ہو رہے ہیں۔ اس کے باجود وسائل کی کمی کا شور کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ کرپشن اور بدانتظامی نے تمام اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ کیوں کہ تمام اہم عہدوں پر ایسے لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے، جو کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی میں بدنام ہو چکے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ بینک بیلنس بڑھانے پر مرکوز ہے۔ انہیں افغانستان اور افغان عوام کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میدان جنگ میں دوسروں کے بیٹے ہلاک ہو رہے ہیں اور وہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ جونوجوان افغان فوج کی صفوں میں شامل ہو کر فرنٹ لائن میں ہلاک ہو رہے ہیں، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کس طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں؟ وہ کس مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں؟ وہ کن لوگوں کی خاطر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ ان کے خون کا سودا کیوں کیا جا رہا ہے؟ ان کے آقا انہیں کس کے خلاف استعمال کر رہے ہیں؟ وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

مجاہدین تو اپنے اسلامی خطے کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ وہ افغانستان کو غیرملکی حملہ آوروں سے آزاد کرانے کے لیے مقدس جہاد میں مصروف ہیں۔ جب کہ انتظامیہ میں شامل لوگوں کی بڑی تعداد یورپ اور امریکا سے آئی ہے۔ وہ چند ڈالروں کے عوض افغانستان اور افغان عوام کے مفادات کا سودا کر چکے ہیں۔ وہ افغانستان اور عوام کے غدار ہیں۔ مجاہدین اس خطے کے وفادار ہیں، جو ہر قیمت پراس کی دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذارنہ پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی مدد فرمائے۔ آمین