امارت اسلامیہ  عوام کی جان، مال اور عزت کی تحفظ کی خاطر قربانی دے رہی ہے

بائیس سال قبل( 15 محرم الحرام 1415ھ) کو علماءکرام کے مشورہ اور حمایت سے امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ تعالی نےاس مقصد کے لیے اسلامی تحریک تاسیس فرمایا، کہ اس وقت ملوک الطوائفی،  بےپناہ بدعنوانیوں اور بے لگام بندوق برداروں کا روک تھام کرکے افغان معزز عوام کو ان کے شر، ظلم اور […]

بائیس سال قبل( 15 محرم الحرام 1415ھ) کو علماءکرام کے مشورہ اور حمایت سے امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ تعالی نےاس مقصد کے لیے اسلامی تحریک تاسیس فرمایا، کہ اس وقت ملوک الطوائفی،  بےپناہ بدعنوانیوں اور بے لگام بندوق برداروں کا روک تھام کرکے افغان معزز عوام کو ان کے شر، ظلم اور وحشت سے نجات دلائے۔اس کے بعد (15 ذوالقعدہ 1416ھ) وطن عزیز کے طول و عرض سے  تشریف  لانے والے علماء کرام نے قندہار شہر میں ایک عظیم الشان اجتماع کے موقع پر مرحوم مؤسس کو امیرالمؤمنین کے لقب سے نوازا۔

اس وقت کے المناک حالات کے گواہ اب بھی کثیرتعداد میں موجود ہیں، جنہوں نے جنگوں، افراتفری، لوٹ مار اور بداخلاقی کے درناک سانحات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور اسی زمانے کے دلخراش واقعات تاحال ان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اگرچہ 28/ اپریل 1992ء کو کمیونزم منحوس رژیم کا خاتمہ کردیا گیا،  لیکن  عوام کے دیرینہ خواہش اسلامی نظام کا قیام پورا نہ ہوسکا، بلکہ افغانوں کے اسلامی اخوت اور وحدت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے  اور ملکی دارالحکومت کابل سمیت ملک بھر  اقتدار، جاہ وجلال اور بے مقصد جنگوں کی لپیٹ میں آیا۔ مقدس جہاد کے امیدیں ، افغان مسلمان عوام کے پندرہ لاکھ شہداء اور مقدس مجاہدین کے دیرینہ خواہشات ناامیدی ميں بدل گئیں۔

امارت اسلامیہ نے قلیل عرصے میں افغان عوام کے اعتماد کو حاصل کرلیا۔  شر وفساد کے گلم کو جم کردیا۔ اللہ تعالی کی نصرت اور عوام کے بھرپور حمایت سے ملک کے وسیع رقبے میں اسلامی نظام حاکم اور مسلمانوں کا جان و مال اور عزت محفوظ ہوا۔ اجتماعی عدالت قائم ہوا۔ منشیات کے کاشت، خرید وفروخت صفر تک جاپہنچا۔ ملک میں امن او مان کی فضا قائم ہوگئی۔

امارت اسلامیہ  دوسرے مرحلے میں استعماری وحشی افواج سے نبردآزمائی  کی خاطر مقدس جہاد کے میدان کھود پڑی۔ اللہ تعالی کی فضل و نصرت اور مجاہد عوام کے بےدریغ قربیانیوں سے دشمن کو شرمناک شکست سے روبرو کیا۔ جہادی  کاروان منزل مقصود تک ان شاءاللہ قریب ہوچکا ہے۔ وطن عزیز آزادی اور استقلال کی دوبارہ اعادہ کی حالت میں ہے۔  آج امارت اسلامیہ اپنےمایہ تاریخ کے تیسرے مرحلے میں داخل ہونے کی حالت میں ہے۔ مسلمان عوام اسلامی حاکمیت کی لمحات کے منتظر  ہیں۔ مجاہدین کی حالیہ فتوحات نے عوام کی امیدوں کو  اجاگر کیے ہیں۔

امارت اسلامیہ کے 22 سالہ تاریخ کے سنہرے اوراق عوام کے سامنے کھلے پڑے ہیں۔ ہرکوئی انہیں  بآسانی مطالعہ فرماسکتا ہے۔ امارت اسلامیہ کے مجاہدین عوامی حلقوں میں تقوی اور پرہیزگاری سے  پہچانے جاتے  ہیں۔ عوام کے جان و مال اور عزت کی نگہبانی کے  فخر سے مزین ہیں۔ امارت اسلامیہ کے مجاہدین  امن و امان، استقرار ، عفت و صداقت کی نشانی تصور کی جاتی ہے۔امارت اسلامیہ کے سرفروش فساد، لوٹ مار، فسق و فجور، بے حیائی اور فحاشی کے خاتمہ کا مجرب نسخہ ہے۔ خواتین کی احترام کا بے داغ ماضی ہے۔ اگر امارت اسلامیہ کے 22 سالہ تاریخ کو غور سے مطالعہ کیا جائے، تو اس میں اسلامی نظام کی خصوصیات واضح طور پر عیان  ہیں۔

یہ کہ بعض ذرائع ابلاغ اورسازشی ادارے  استعمار اور کٹھ پتلی انتظامیہ کی مالی تعاون اوران کے ایماء پر امارت اسلامیہ اور مقدس مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈے کررہے ہیں، ان پر ناجائز تہمتیں اور الزامات لگارہے ہیں، یہ درحقیت عوامی سطح پر خود کو شرمندہ کرنے کے متراف    اور اپنے عالمی اعتبار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسے منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈے امارت اسلامیہ کے حقانیت اور سچائی کو مزید تقویت دیگا۔ عوام الخصوص قندوز کے غیور باشندے مجاہدین کی برائت اور پاکدامنی کی گواہی دے رہیں۔ ایسے الزامات نہ صرف امارت اسلامیہ کے شان میں گستاخی ہے، بلکہ یہ افغان مجاہد اور غیور عوام کے ساتھ ناقابل معافی ظلم  بھی ہے۔ صرف قندوز کی فتح نہیں ہے، مجاہدین وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں روزانہ فتوحات حاصل کررہے ہیں، لیکن الحمدللہ کسی نے بھی ایسے منحوس واقعات کے متعلق کچھ بھی نہیں سنا ہے، جومجاہدین کے پاک دامن پر سیاہ دھبہ ہو۔ دشمن ایسے منفی اور من گھڑت پروپیگنڈے صرف اپنی شرمندہ شکست چھپانے اور اذہان کو کسی اور جانب راغب کروانے کی خاطر کرتے  رہتے ہیں۔ ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ امارت اسلامیہ کے قاموس میں بے عفتی و بے حیائی اور لوٹ مار کے نام سے کچھ بھی  درج نہیں ہے۔