امن کے متعلق کابل بکھری انتظامیہ کا واحد مؤقف نہیں ہے

حالیہ دنوں میں صلح کے متعلق کابل انتظامیہ آپس میں کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ تقریبا روزانہ صلح کے بارے میں متضاد رپورٹیں شائع کرتی ہیں۔ صدارتی محل کے ایک کمرے سے صدا بلند ہوتی ہے: صلح کے لیے ہمارے دوازے کھلے ہیں۔ دوسرے کمرے سے سنائی جاتی ہے : صلح کے منصوبے میں […]

حالیہ دنوں میں صلح کے متعلق کابل انتظامیہ آپس میں کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ تقریبا روزانہ صلح کے بارے میں متضاد رپورٹیں شائع کرتی ہیں۔ صدارتی محل کے ایک کمرے سے صدا بلند ہوتی ہے: صلح کے لیے ہمارے دوازے کھلے ہیں۔ دوسرے کمرے سے سنائی جاتی ہے : صلح کے منصوبے میں بہت غلطیاں ہوئی ہیں اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ تیسرے کمرے والے کہتے ہیں کہ: صلح مکمل طور غیرمعقول بات ہے۔ چوتھے کمرے سے صدا گونجتی ہے کہ : ان افراد سے صلح کرینگے، جو ہتھیار ڈال کر سرنڈر ہوجائے! دیگر جہت بھی ہیں، جو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مناسب وقت کا انتطار کررہا ہے!! یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ استعمار اور ان کے کاسہ لیس صلح نہیں چاہتے، بلکہ امن  منصوبے  کو اپنی ظاہری و باطنی  مقاصد کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ ان کے پاس امن کے لیے پیچیدہ اور منحرف تعریف موجود ہے۔

حامد کرزئی نے استعمار کے اشارے  سے صلح کے نام سے اس کھیل کا آغاز 2010ء کو کیا۔ پھر اسے 28/ جنوری 2010ء کو لندن کے دوسرے کانفرنس میں ہوا دی گئی ۔امن منصوبے کے لیے خصوصی بجٹ کا اہتمام کیا گیا اور اس کے پیروی میں 02/جون 2010ء کو کابل میں امن مشورتی جرگہ کے عنوان سے تقریب کا انعقاد  کیا گیا۔ اسی جرگے کے مطالبے پر07 / اکتوبر 2010ءکو نام نہاد امن کونسل کا قیام عمل میں لایا گيا ،جسے  استعمار کی جانب سے تعاون کے مد میں 200 ملین ڈالر بھی دیے گئے۔

استعمار کے اس دھوکہ و فریب پر مبنی ادائیگی کے پس پردہ بعض مقاصد  کا چھان بین کررہا ہے :

پہلا :اپنی عوام، فوجیوں اور کٹھ پتلی ایجنٹوں کو حوصلہ دینا، کہ اب جنگ  کی جگہ  امن لے رہی ہے، تھوڑا سا انتظار کریں۔

دوسرا : امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے درمیان اختلاف کو جنم دینا اور انہیں تقسیم کرنا۔ ایک گروہ کو رقم کے لالچ میں دھوکہ دینا، دوسرے  کو وزارتوں اور عہدوں  کی پیشکش سے جدا کرنا، جن سے صف کمزور پڑ جائیگا اور باقی مجاہدین ناتوانی کی حالت میں ہتھیار ڈال دینگے۔

تیسرا : افغان عوام جنگ کو جاری رہنے کا الزام امارت اسلامیہ کے مجاہدین پر ڈال دیگا اور ان کے خلاف ملی قیام کریگا، تاکہ مجاہدین  صلح کے نام سے سرنڈر ہوجائے۔

امارت اسلامیہ اور باالعموم افغان مسلمان عوام مقدس جہاد سے مقدس مقاصد رکھتے ہیں۔ جب سے ہماری غیور عوام  جہاد کے میدان میں کھود چکے ہیں۔ ملک کی آزادی اور ملی و اسلامی حاکمیت کے قیام کے علاوہ کسی اور چیز پر  راضی نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ادوار میں دشمن کے تمام کوششوں کے نتائج صفر میں ضرب ہوچکے ہیں  اور ان کے امیدیں  ناامیدی میں بدل چکے ہیں۔

امارت اسلامیہ وہ صلح چاہتی ہے، جس میں ملک اور عوام کی بھلائی ہو۔ ہمارے خیال میں استعمار کا خاتمہ اور اجنبی افواج کی مکمل انخلاء قیام امن کے لیے ضروری ہے۔ مکمل آزادی اور اسلامی حکومت کا قیام افغان عوام کا مطالبہ ہے۔ بقیہ مسائل معمولی اور ان کا حل اللہ تعالی کی فضل وکرم سے مشکل نہیں ہے۔ واللہ الموفق