تاریخ  کی  طویل ترین ناکام جنگ

اسلم امید امریکا کے مشہور اخبار لاس اینجلس ٹائمز میں ایک امریکی صحافی اینڈریو باسیوچ نے افغانستان میں امریکی جنگی مشن پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’یہ جنگ اب سولہویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ امریکا کے آنے والے صدر کو یہ جنگ ورثے میں ملے گی، جس پر دونوں امریکی صدارتی امیدواران […]

اسلم امید

امریکا کے مشہور اخبار لاس اینجلس ٹائمز میں ایک امریکی صحافی اینڈریو باسیوچ نے افغانستان میں امریکی جنگی مشن پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’یہ جنگ اب سولہویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ امریکا کے آنے والے صدر کو یہ جنگ ورثے میں ملے گی، جس پر دونوں امریکی صدارتی امیدواران لب کشائی سے گریز کر رہے ہیں۔ ابھی تک کسی نے بھی اپنا مؤقف ظاہر نہیں کیا۔‘‘

دونوں امیدواران اس جنگ پر تبصر ہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ جو رواں صدی میں امریکا کے لیے سب طویل اور ناکام جنگ ثابت ہوئی ہے۔ اینڈریو باسیوچ کے مطابق امریکا کے ہر شہری کی خواہش ہے کہ صدارتی امیدواران رواں جنگ کے خاتمے کے بارے میں اپنا مؤقف عوام کے سامنے پیش کریں، تاکہ ثابت ہو جائے کہ ان میں سے کون واقعی یہ جنگ منطقی انجام تک پہنچاتا ہے اور کون اسے جاری رکھتا ہے؟

صحافی لکھتے ہیں کہ اب تک نہ ڈونلڈٹرمپ اس بارے  میں گفتگو کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہیلری کلنٹن نے اس طویل جنگ کے خاتمے کے بارے میں امریکی عوام کو تسلی بخش جواب دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ امریکی عوام دونوں امیدواروں سے مایو س دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کوئی بھی انہیں مطمئن کرنے کے لیے خاطر خواہ دلیل پیش نہیں کر سکے گا۔  مذکورہ صحافی کا مؤقف بھی ان آزاد محققین کی طرح ہے، جو کہتے ہیں: امریکا پوری دنیا کی فوجوں کو ساتھ ملا نے کے باوجودبھی افغان جنگ نہیں جیت سکا اور نہ مجاہدین کو کمزور کر سکا ہے۔ ان کے مطابق امریکا  کو افغانستان میں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مستقبل میں بھی اس کی کامیابی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ  امریکا افغانستان میں اپنی شکست کو کامیابی میں بدل سکتا ہے؟ امریکا نے جنگ میں خود کو فاتح قرار دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جنگی اخراجات میں اضافہ کیا ہے، لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

افغان جنگ نے امریکا کو حملوں سے محفوظ کیا ہے اور افغانستان میں جمہوی نظام مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اب یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے۔  امریکا نے افغان جنگ پر تین ٹریلین سے زیادہ ڈالرز خرچ کیے لیکن کامیابی اس کے باوجود ان سے کوسوں دور ہے۔ افغانستان اب تک خود کفیل نہیں بنا۔ اب بھی غیرملکی امداد پر چلتا ہے۔  یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امریکا اور اس  کے اتحادی ابھی تک افغانستان میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کیوں کہ امریکا افغانستان میں فوجی اور سیاسی لحاظ سے مکمل شکست سے دوچار ہوا ہے۔ افغانستان میں اب بھی افراتفری کی وہی صورت حال ہے، جو امریکی جارحیت کے آغاز کے وقت تھی۔ امریکی صحافی کی یہ تحریر واقعیت اور حقیقت پر مبنی ہے۔ افغانستان میں رواں جنگی حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پورے سولہ سال کوشش کی، لیکن افغان عوام کو اپنی حمایت پر قائل نہ کر سکے۔ آج امریکا کے مقابلے میں مجاہدین نہایت ہی منظم ہیں۔ آئے روز جارحیت پسند کفار کے مراکز اور ان کی کٹھ پتلیوں کے زیر تسلط علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ یہ صرف ہمارا دعویٰ نہیں ہے، بلکہ کئی امریکی صحافی اور تجزیہ کار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا  اربوں ڈالرز کے اخراجات کے باوجودکامیاب نہیں ہوسکا، بلکہ شکست کھا چکا ہے۔

ورلڈ پوسٹ کے نام سے ایک امریکی جریدہ لکھتا ہے کہ افغانستان میں ہم ہو بہو ویت نام جیسی صورت حال سے دو چارہیں۔ امریکی حکام  شکست کھانے کے باوجود باربار افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے کی غلطی کر  رہا ہے،جس کا نتیجہ مزید نقصنانات کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔