جانب دار میڈیا کی حقیقت کھل رہی ہے

عابد میڈیا کا نام سن کر کسی کو یہ شک نہیں ہونا چاہیے کہ میڈیا آزاد ہے یا غیرجانب دار ہے۔ اگرچہ تمام اخبارات اپنے ٹائٹل پر آزاد، ’’غیرجانب دار‘‘ اور ’’باقاعدہ تصدیق شدہ‘‘ جیسے خوش نما الفاظ درج کر لیتے ہیں۔ ہر اخبار اپنے آپ کو غیرجانب دار ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، […]

عابد

میڈیا کا نام سن کر کسی کو یہ شک نہیں ہونا چاہیے کہ میڈیا آزاد ہے یا غیرجانب دار ہے۔ اگرچہ تمام اخبارات اپنے ٹائٹل پر آزاد، ’’غیرجانب دار‘‘ اور ’’باقاعدہ تصدیق شدہ‘‘ جیسے خوش نما الفاظ درج کر لیتے ہیں۔ ہر اخبار اپنے آپ کو غیرجانب دار ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن درحقیقت کوئی اخبار، کوئی نیوز ایجنسی اور کوئی نیوز چینل آزاد نہیں ہے۔ افغانستان میں میڈیا کا کردار تو بہت واضح ہے۔ افغان میڈیا نے تو صحافت کے تمام اصول پامال کر کے صحافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ حتی کہ بین الاقوامی سطح پر مشہور میڈیا نے بھی اپنا اعتماد کھو دیا ہے۔

بی بی سی ریڈیو پر کئی بار یہ خبر نشر ہوئی ہے کہ فلان ضلع پر افغان فورسز نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے، حالانکہ جب مجاہدین نے اسی ضلع پر قبضہ کیا تھا تو تب بی بی سی کو اس کی خبر شایع کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس کی ایک مثال صوبہ ہلمندکے ضلع ناوہ کی ہے، جس پر مجاہدین نے کنٹرول حاصل کیا اور اشرف غنی نے اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کا جھوٹا دعوی کیا کہ:

’’طالبان کی خبروں پرپابندی لگا دی گئی!‘‘  …. ’’نشر اخبار طالبان تحریم گردید….‘‘

افسوس ناک امر یہ ہے کہ کسی ادارے میں اس طرح کے مختصر فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔ ایک فرد کی رائے پر اعتماد کیوں کیا جاتا ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بولنے کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟ اب مجاہدین نے ضلع ناوہ پر کنٹرول حاصل کر کے وہاں سفید پرچم لہرا دیا ہے اور سب کوپتا چل گیا ہے۔ کیا اب بی بی سی ہمت کرے گا کہ وہ حقیقت پر مبنی خبر نشر کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرے؟

کابل میں طلوع نیوز چینل کے ’موبی میڈیا گروپ‘ پر حملے کے بعدافغان اور غیرملکی میڈیا نے مجاہدین کی خبروں کی اشاعت کا بائیکاٹ کیے رکھا تھا۔ حالانکہ میڈیا پہلے آزاد تھا اور نہ ہی اب آزاد ہے۔ اگرچہ وہ غیرجانب داری کا دعوی کر رہا ہے۔ مجاہدین بیان کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن چوں کہ افغانستان میں میڈیا جانب داری کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ یک طرفہ خبریں بھی اپنے حجم پر بڑھا کر شایع کر رہا ہے، بلکہ نام نہاد آزادی کے بلندبانگ دعوسے کرنے والے میڈیا کے کچھ ادارے تو حکومت کے تنخواہ دار ترجمان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تمام صحافتی اصولوں کو پاؤں تلے روند رکھا ہے۔ جب مجاہدین نے انہیں دھمکی دی اور اس کے بعد مجبور ہو کر طلوع نیوز گروپ کی ایک بس پر حملہ کیا تو باقی میڈیا کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ مجاہدین نے میڈیاکے ایک گروپ کو کیوں نشانہ بنایا ہے؟ امارت اسلامیہ کیوں مجبور ہوئی کہ وہ ایک میڈیا گروپ کے خلاف کارروائی کرے؟ جب مجاہدین تو بیان کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں، پھر بھی میڈیا پر حملہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کسی عمل کا ردعمل تھا، لیکن میڈیانے اپنی اس روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائی، بلکہ آج بھی وہ مجاہدین کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ ان کی فتوحات پر چشم پوشی کر رہا ہے۔ مجاہدین کی حالیہ کارروائیوں اور فتوحات پر تمام میڈیا ذرائع خاموش ہیں۔ جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ شمالی صوبوں قندوز، بغلان، تخار، بدخشان، جنوب میں پکتیا، پکتیکا، غزنی، فاریاب، اروزگان اور ہلمند میں بہت سے علاقوں سے اشرف غنی کی ملیشیا پسپا ہو گئی ہے۔ جب کہ افغانستان کے ساٹھ فیصد سے زیادہ رقبے پر مجاہدین نے دوبارہ کنٹرول کر لیا ہے۔ جس میں حکومت کے بہت سے اہل کار ہلاک ہو گئے ہیں، لیکن مقامی اور غیرملکی میڈیا نے عوام تک حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنے کے بجائے صرف اشرف غنی کے جھوٹے دعوؤں کی اشاعت پر ہی اکتفا کر رکھا ہے۔

اگر ذرائع ابلاغ اس طرح امارت کے ساتھ سے دشمنی مول لینے کی کوشش کرتے ہیں یا کچھ مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے اشرف غنی کے ترجمان کا کردار ادا کر رہے ہیں تو یاد رکھیں، یہ مفادات عارضی ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ وہ عوام میں اپنی حیثیت کھو رہے ہیں، بلکہ مزید یہ کہ اپنی ناپسندیدہ سرگرمیوں کے منفی نتائج کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ کافی کوششوں کے بعد عوام میں جو پذیرائی ملی تھی، وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ پھر ایک دن ان کا نام و نشان تک ختم ہو جائے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کابل میں بہت سارے مقبول روزنامے، جنہوں نے مختلف طریقوں سے عوام میں مقبولیت حاصل کی تھی، آج وہ قصۂ پارینہ بن چکے ہیں ۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ کئی بار اشرف غنی کی جانب سے میڈیا کو اپنی مرضی کی خبروں کی اشاعت کی وجہ سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ مجاہدین کو ذرائع ابلاغ کی مشکلات کا بھی بخوبی ادارک ہے، لیکن جب میڈیا کی طرف سے بار بار بیان کی آزادی اور حب الوطنی کے دعوے سامنے آ رہے ہیں تو ان کے لیے جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے ماحول میں پُرخطر زندگی گزارنے کے بجائے ریاستی مداخلت اور جبرکے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔ سب سے پہلے اس صورت حال کا مقابلہ کریں۔ بصورت دیگر کم از کم اشرف غنی اورمجاہدین کے حوالے سے اعتدال کو برقرار رکھا جائے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں بہت سارے ذرائع ابلاغ اسلامی اور صحافتی اصولوں کے برخلاف مغربی تہذیب و ثقافت کے فروغ اورفحاشی و عریانی پھیلانے کے لیے ایک مخصوص ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ بعض ذرائع ابلاغ  قومی اور لسانی تعصبات کو پروان چڑھانے کے لیے افغانستان کے مستقبل اور استحکام سے کھیل رہے ہیں۔ بعض میڈیا ذرائع کی جانب سے سوتیلی ماں جیسا سلوک مجاہدین کو اپنے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کر رہا ہے۔ مجاہدین کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ افغانستان کی تقسیم، اسلامی اقدار اور  ملی روایات کے خلاف کسی سازش کا حصہ بنیں۔ کچھ میڈیا ذرائع صحافتی اصولوں سے انحراف کر کے مجاہدین کی دشمنی مول لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

مجاہدین اب افغانستان میں ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ خواہ میڈیا چاہتا ہے یا نہیں، لیکن مجاہدین کی مضبوط سیاسی و فوجی قوت سے اب انکار ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ افغانستان کے بیشتر رقبے پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ انہیں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اب پوری دنیا اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ افغانستان میں امارت اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور بھرپور عوامی حمایت کو دیکھ کر اسے ایک مضبوط قوت کے طور پرتسلیم کیا جائے۔ اب ذرائع ابلاغ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ غیرملکی حملہ آوروں کی غلط سیاسی حکمت عملی کا دفاع کریں۔ بلکہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ سیاسی تعلقات اور اچھے روابط قائم کریں۔ موجودہ بدلتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے تمام مقامی اور غیرملکی میڈیا کے حلقوں کو اپنی یک طرفہ پالیسی  پر نظرثانی کی ضرورت ہے، تاکہ عوام سے مزید اصل حقائق چھپانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور انہیں اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔

بلاشبہ موجود دور میڈیا کا ہے، لیکن عوام میں بھی شعور آ رہا ہے۔ وہ میڈیا کے پروپیگنڈے سے خوب واقف ہو چکے ہیں۔ اب وہ میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈے پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں کو اب ایک گروپ تک منحصر نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا زمینی حقائق اور عوام کے مسائل  اجاگر کرنے کے بجائے یک طرفہ کردار ادا کر رہا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ صحافتی اصولوں کے مطابق عوام تک اصل حقائق پہنچانے کی کوشش کی جائے، کیوں کہ یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے اور صحافتی اصولوں کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مجاہدین یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ ان کی حمایت میں خبریں شایع کی جائی،ں بلکہ وہ صرف غیرجانب داری اور اعتدال کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو ان کا حق ہے۔