جنرل جان کیمپیل کے غیرمعقول مطالبے؟!!

استعماری افواج کے جنگجو کمانڈر جان کیمپیل کا حالیہ بیان مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی تازہ کوشش ہے۔ انہوں نے اس سازش سے پردہ اٹھایا ، جسے امریکہ امن کے نام سے  لاگو کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس مرتبہ امریکی جارحیت کو جاری رکھنے کے  خواب کی مضحکہ خیز تعبیر پیش کی۔ امارت […]

استعماری افواج کے جنگجو کمانڈر جان کیمپیل کا حالیہ بیان مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی تازہ کوشش ہے۔ انہوں نے اس سازش سے پردہ اٹھایا ، جسے امریکہ امن کے نام سے  لاگو کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس مرتبہ امریکی جارحیت کو جاری رکھنے کے  خواب کی مضحکہ خیز تعبیر پیش کی۔ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو طالبان کے نام سے یوں مشورہ دی ہے کہ” ہتھیار کو پھینک دیں  اور افغانستان اور خودمختار  ملک کا حصہ بن جائیں…..۔

سب پہلے امارت اسلامیہ اپنے ملک کے لیے امن کو نہ صرف ضروری ، بلکہ اسے افغان عوام کے فرد فرد کی ذمہ داری اور الہی فریضہ سمجھتی ہے۔ ہر مناسب، سیاسی اور معمول کے مطابق اجلاس اور حتی اپنے خصوصی اجلاسوں میں اصرار کرتی ہے کہ افغان عوام کی خوش بختی اور سعادت مکمل امن سے منسلک ہے۔ ملک کا معاشی، علمی اور اجتماعی ترقی اور بنیادی تعمیرنو افغانوں کے اتحاد، صلح اور باہمی اصلاح سے وابستہ ہے۔ پگواس کا حالیہ کانفرنس 23 اور 24 جنوری 2016ء کو مملک قطر کے صدر مقام دوحہ شہر میں منعقد ہوئی، جس میں افغانستان میں پائیدار امن کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے  عادلانہ مؤقف کی شرکاء نے تائید کی اور امارت اسلامیہ کے حقیقی مطالبات کو امن کے لیے ضروری سمجھے۔

“افغانستان اور خودمختار ملک کا حصہ بن جائے”۔ یہ جملہ موصوف جنرل کا عارفانہ جہالت ہے، کیونکہ وہ  اچھی طرح جانتا ہے کہ امارت اسلامیہ عوام ہی سے پھوٹ پڑی ہے۔ ان وسیع علاقوں کے متعلق موصوف کے پاس کافی معلومات ہیں، جو امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں۔جہاں بذات خود جنرل، ان کی سپاہ اور کٹھ پتلی انتطامیہ کے افراد جانے کی جرائت نہیں کرسکتے۔ تو ظاہر ہے کہ امارت اسلامیہ وطن عزیز کا حصہ ہے اور رہیگی۔  گذشتہ 14 برس کے دوران استعمار سے   کون نبردآزما ہے؟ چالیس ممالک کے تربیت یافتہ اور ماڈرن فوجیوں کو کس نے شکست دی؟ البتہ اگر افغانستان سے جنرل کا مطلب کابل کٹھ پتلی انتطامیہ ہے اور شرم کے مارے اس کا نام نہیں لیتا، تو یہ دوسری معمہ ہے۔

استعماری افواج کا جانے والا کمانڈر امریکی امن کے لیے امریکی تعریف پیش کرتا ہے۔پہلے دھمکی آمیز اور گستاخانہ لہجے میں کہتا ہے کہ” طالبان کو مفاہمتی عمل سے یکجا ہونے کے علاوہ دوسرا انتخاب نہیں ہے” اس کے بعد ناصحانہ انداز میں کہتا ہے …..” ہتھیار کو پھینکنے چاہیے اور اپنے وحشتناک سرگرمیوں کو بند کریں”۔

 گفتگو کی توڑمروڑ اور غیرمعقول باتوں میں استعمار ماہر ہے۔ ہمیشہ اپنے غیرعادلانہ اور غیر معقول مطالبات کے لیے پیچیدہ اور معکوس عبارات استعمال کرتے  رہتے ہیں۔ عدالت اور حق  کو فساد  سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظلم کو عدالت کے لباس میں پیش کرتا ہے۔ ان ظالموں کو ہزاروں افغانوں کا قتل عام، اپنا وحشت و بربریت، اندھیری رات میں عوام کے گھروں پر چڑھائی، مکانوں کا انہدام اور خواتین و بچوں کو زندہ درگو کرنا، عوام کا قتل عام، ملکی خودمختاری کو نظرانداز کرنا وغیرہ وغیرہ وحشتناک سرگرمیاں  عدالت بلکہ ترقی معلوم ہوتی ہے۔ دوسری جانب غاصبوں کے ظلم اور بربریت کا خاتمہ، اسلامی اور قومی اقدار سے دفاع اور ملکی آزادی کی دوبارہ حصول کے لیے  امارت اسلامیہ کے مقدس جہاد کو دہشت گردی سمجھتا ہے؟.!!

امریکی عوام مغرور  کمانڈروں کی چہ میگوئیوں سے دھوکہ میں نہ پڑیں۔ عقل، عدالت اور انصاف سے بعید ان فیصلوں کو رد کریں۔ امارت اسلامیہ کے مؤقف کو غور سے مطالعہ کریں۔ ہمیں اچھی بات بتانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں۔ ہمارے ملک سے اپنی افواج کو نکال باہر کریں۔ قبضہ کو ختم کردیں۔ مظالم اور نہتے افغانوں کے قتل عام کا خاتمہ کریں۔ وہ (استعمار) اس بات کو غور سے سن لےکہ “مقدس جہاد اس وقت جاری رہیگا ، جب تک ظلم اور جارحیت کا خاتمہ نہ ہوا ہو۔ یہ صرف امارت اسلامیہ کا مطالبہ نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالی کا حکم اور مسلمانوں پر فرض ہے۔

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ} (الحج۳۹.

ترجمہ :جن مسلمانوں سے خواہ مخواہ لڑائی کی جاتی ہے، ان کو اجازت ہے کہ وہ لڑیں، کیونکہ ان پر ظلم ہورہا ہے۔

واللہ المستعان