جنگی جرائم اکتوبر2015 ‏

سیدسعید دشمن کو خونِ مسلم کی جو پیاس لگی ہے، یہ تب ہی بجھ سکتی ہے، جب خود دشمن کی زندگی کا چراغ گُل ہو گا۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی کو، خواہ وہ کافر ہو یا مسلم،  مسلمانوں کا خون پینے کی عادت ہو جائے، وہ ہمیشہ مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان […]

سیدسعید

دشمن کو خونِ مسلم کی جو پیاس لگی ہے، یہ تب ہی بجھ سکتی ہے، جب خود دشمن کی زندگی کا چراغ گُل ہو گا۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی کو، خواہ وہ کافر ہو یا مسلم،  مسلمانوں کا خون پینے کی عادت ہو جائے، وہ ہمیشہ مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کرتارہا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں کھیلا جانے والا خونی کھیل اسی درندگی کی کہانی سناتا ہے۔  رواں سال یکم اکتوبر کو صوبہ زابل ضلع دائی چوپان کے علاقے ملاخیل میں افغان پولیس نے 80 عام افراد کو طالبان کے ساتھ تعاون کرنے کے الزام میں حراست میں ‏لے لیا۔

2اکتوبر کو قابض افواج نے قندوز ہسپتال پر بمباری کی۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعدڈاکٹروں کی تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ امریکا اور مخلوط ‏حکومت کو چند روز قبل ہسپتال کی حفاظت کے حوالے سے اطلاع دی گئی تھی، لیکن اس کے باجود انہوں نے ہسپتال پر فضائی حملہ کیا۔ جس میں درجنوں ‏لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ جن میں ڈاکٹرز،نرسیں اور عام شہری بھی شامل ہیں۔  جب کہ ہسپتال کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا ہے۔ اس واقعے کے دو ہفتے بعد بی بی سی فارسی کے ‏رپورٹرنے بتایا کہ مذکورہ واقعہ میں ہسپتال عملہ سمیت 95 افراد شہید ہوئے ہیں،  جن میں اکثریت کی لاشوں کی شناخت ہوگئی ہے۔

‏3نومبر کو صوبہ زابل ضلع دائی چوپان کے علاقے مرجان میں فورسز نے شادی کی ایک تقریب پر فائرنگ کر دی، جس میں دلہن سمیت چھ خواتین زخمی ‏ہوگئیں۔ ‏اسی دن صوبہ غزنی ضلع  خوگیانو کے علاقے کڈی میں حکومتی فورسزنے قریبی آبادی پر راکٹ حملہ کیا،جس کے نتیجے میں ایک خاندان کے تین ‏افراد زخمی ہوگئے۔

‏5اکتوبر کو صوبہ ننگرہار ضلع بٹی کوٹ کے علاقے نواقل میں قابض افواج اور حکومتی فورسز نے ضلع سپین غر کے مہاجرین کے گھروں پر چھاپہ مارا۔ اس ‏دوران انہوں نے 8 افراد کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کی دو گاڑیوں اور ایک گھر کو آگ لگا دی گئی۔

‏8 اکتوبر کو صوبہ پکتیکا ضلع یحییٰ خیل کے علاقے کوڈل میں پولیس نے ایک شخص کو اپنے گھر سے حراست میں لیا اور بعد ازاں اسے شہید کر دیا۔ اسی دن ‏قندہار ضلع شوراوک کے سرلٹ کے مقام پر امریکی فوجیوں نے قندہار پولیس چیف جنرل رازق کے تعاون سے چھاپہ مارا، اس میں خالد نامی شخص کے گھر پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں 13 افراد شہید ہوگئے۔ درندگی کے خوف سے مقامی لوگ قریبی پہاڑ کی ‏طرف چلے گئے، جہاں ان پر امریکی طیاروں نے بمباری کرکے 21 افراد شہید کر دیے، جن کی تفصیل کچھ درج ذیل ہے:

حفیظ اللہ کے خاندان کے پانچ افراد شہید ہوئے۔ حاجی محمدگل کے خاندان کے تین افراد شہید ہوئے۔ دین محمدکے اہلِ خانہ کے چھ افراد شہید ہوئےَ محمدنعیم نامی شخص ‏شہید ہوا۔ عبدالغنی کا بیٹا، نعمت اللہ کا بیٹا، دوست محمد کا بیٹا، صاحب خان کی بیٹی اور محمدطاہرکا بیٹا شہید  ہوا۔ اس کے علاوہ جارحیت پسندوں نے تین ‏افراد کو حراست میں لے لیا۔ اس چھاپے میں حکومتی فورسز کے اہل کاربھی شامل تھے، جنہوں نے مقامی لوگوں کو کافی مالی نقصان بھی پہنچایا۔

‏9اکتوبر کو امریکی فوجیوں نے حکومتی فورسز کے تعاون سے صوبہ لوگر ضلع برکی برک کے علاقے توکل، روستم خیل اور ازبک خیل میں چھاپہ مارا ، فضائی ‏حملے کیے اور  روستم خیل میں قرآن خوانی کی ایک تقریب کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک استاذسمیت گیارہ شہری شہید اور زخمی ہوگئے۔ اسی دن قندوز کے ضلع امام صاحب کے علاقے قرغز اور قیوم خان میں پولیس کی فائرنگ سے تین افراد شہید ہوگئے۔

‏11 اکتوبر کو کابل کے روزنامہ ’سرنوشت‘ نے رپورٹ شایع کی، جس میں بتایا گیا کہ قندوز سے نقل مکانی کرنے والوں کا کہنا ہے’’حکومتی فورسز نے ان ‏کے گھروں میں لوٹ مار کی ہے۔ وہ مجبورہیں کہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں۔‘‘ روزنامہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کابل میں عائشہ نامی ‏خاتون نے بتایا ہے ’’حکومتی فورسز نے ان کے گھر کو لوٹ لیا ہے۔‘‘

‏12 ،اکتوبر کے دن صوبہ غزنی کے دارالحکومت کے قریب نوغی گاؤں میں فورسز کے راکٹ حملے میں تین افراد شہید ہوگئے۔ اس روز صوبہ کاپیسا ضلع تگاب کے علاقے ’شاہ کوٹ‘ میں حکومتی فورسز نے مقامی آبادی پر راکٹ حملہ کیا، جس کے نتیجے میں محمدشرین نامی شخص کی اہلیہ ‏شہید ہوگئی۔

‏            اگلے دن 13اکتوبر کو صوبہ بادغیس ضلع غورماچ کے بازار میں حکومتی فورسز نے راکٹ فائر کیا، جو ایک گھر پر جا گراجس کے نتیجۃ  میں دو خواتین سمیت ‏چار افراد زخمی ہوگئے اور گھرکوبھی نقصان پہنچا۔

‏14 اکتوبر کو صوبہ لوگر ضلع خروار کے علاقے قلعہ شمشیر میں فورسز کی فائرنگ سے ایک خاتون شہیداورچار بچے زخمی ہوگئے۔

‏15اکتوبر کو صوبہ غزنی ضلع قرباغ کے علاقے عسکرکوٹ کے ملوک گاؤں میں فورسز کے راکٹ حملے میں ایک خاتون شہید اور تین بچے زخمی ہوگئے۔

‏19 اکتوبر کو صوبہ پروان میں اربکی ملیشیاکے اہل کاروں نے ہسپتال پر حملہ کیا۔ ایک زخمی اہل کارکوہسپتال سے باہر نکالا اورتین ڈاکٹروں کو تشددکا نشانہ ‏بنایا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے ہسپتال سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

‏20 اکتوبر کو صوبہ لوگر ضلع خروار کے علاقے کاریزگی میں قابض افواج نے مقامی آبادی پر بمباری کی،  جس کے نتیجے میں تین بچوں سمیت چھ ‏افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔

‏21 ، اکتوبر کو صوبہ پکتیکا ضلع اومنہ کے علاقے زواکی میں فورسز نے قومی رہنما’’محمدعظیم‘‘کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا۔ اسی دن صوبہ لوگر ضلع خروار کے علاقے قلعہ شیخان میں فورسزکی فائرنگ سے ایک گھر کے دو معصوم بچے شہید ہوگئے۔ اس دن صوبہ ننگرہار ضلع خوگیانو کے علاقے خوگی میں قابض افواج نے چھاپہ مار کر  ملک شاہ محمود اور گُل ولی کے گھروں سے چار افراد کو حراست ‏میں لیا۔

اس دن ‏چوتھی کارروائی صوبہ بدخشان میں ہوئی۔  ضلع وردوج اور بہارک کے درمیان قومی شاہراہ کو فورسزکی جانب سے بلاک کرنے سے لوگوں کو شدید مشکلات پیش ‏آئیں۔ صوبائی دارالحکومت فیض آباد میں فورسز نے مذکورہ دو اضلاع کے لیے جانے والی اشیائے خورد و نوش پر پابندی لگا دی، جس سے ان ‏دو اضلاع میں اشیائے خورد و نوش کی قلت پیدا ہوگئی۔ نتیجۃ ً بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشااضافہ ہوگیا۔

‏23 اکتوبر کو صوبہ زابل ضلع ’اتغر‘ کے علاقے کلا میں فورسز کے راکٹ حملے میں ایک معصوم بچہ شہید اور دو زخمی ہوگئے۔

‏27 اکتوبر کو صوبہ جوزجان ضلع خماب کے مضافات میں جنرل دوستم کی قیادت میں فورسز نے بیس افراد کو طالبان کے ساتھ تعاون کے الزام میں ‏شہید کر دیا ۔ فورسز نے مقامی لوگوں کے گھروں کی تلاشی لینے کے دوران نقدرقم، گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور دیگر قیمتی اشیاء چھین لیں۔ یہ بھی ‏کہا جا رہا ہے کہ جنرل دوستم نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ کچھ لوگوں کو قتل کریں، تاکہ دوسرے لوگوں کے لیے باعث عبرت ہوں اوروہ طالبان ‏کے ساتھ تعاون کرنے سے باز آجائیں۔

‏30 اکتوبر کو صوبہ پکتیاضلع زازی اریوب کے علاقے حسن خیل میں فورسز نے مقامی لوگوں کے گھروں پر چھاپہ مارا۔ گھروں کی تلاشی لی اور مختلف ‏لوگوں کے گھروں سے نقد رقم، 150عدد موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء بھی زبردستی چھین لیں۔ اس کے بعد بمباری کی، جس کے نتیجے میں ‏چار افراد شہید ہوگئے۔ اسی دن صوبہ زابل ضلع دائی چوپان کے مضافات میں زنجیر چیک پوسٹ کے قریب فورسز نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو شہید کر دیا۔

اس سے اگلے روز ‏31 اکتوبر کو صوبہ ننگرہار ضلع سپین غر کے علاقے اچین میں فورسز کی جانب سے داغا گیا راکٹ مسجد پر جا گرا، جس کے نتیجے میں چار افراد شہید اور تین ‏زخمی ہوگئے۔

اقتباسات : بی بی سی،آزادی ریڈیو،افغان اسلامک اورپژواک خبررساں ادارے،روزنامہ سرنوشت، خبریال، لراوبر، نن ایشیااوربینوا ویب ‏سائٹس