جنگی جرائم دسمبر 2014

سید سعید ظلم کی آتش باری نے دسمبر کی سردی کو بھی جھلسائے رکھا تھا۔ لیکن اب بھی افغان عوام کی امیدیں زندہ ہیں۔ وہ پُرامید ہیں کہ ایک نہ ایک دن ضرور وہ سحر طلوع ہو گی، جس کے لیے لاکھوں افغانوں نے اپنی جان کی بازیاں لگا دی ہیں۔ انہوں نے شب دیجور […]

سید سعید

ظلم کی آتش باری نے دسمبر کی سردی کو بھی جھلسائے رکھا تھا۔ لیکن اب بھی افغان عوام کی امیدیں زندہ ہیں۔ وہ پُرامید ہیں کہ ایک نہ ایک دن ضرور وہ سحر طلوع ہو گی، جس کے لیے لاکھوں افغانوں نے اپنی جان کی بازیاں لگا دی ہیں۔ انہوں نے شب دیجور میں بھی اپنے لہو سے وہ دیپ جلائے رکھے ہیں، جو زندگی کو روشنی، کرنیں اور نور عطا کرتے ہیں۔ انہیں لہو کی خیرات دینے والوں میں یکم دسمبر 2014ء کے وہ دو شہیدِ ملت بھی ہیں، جن کو قابض افواج نے افغان فورسز کے ساتھ مل کر صوبہ ننگرہار ضلع خوگیانو کے علاقے وزیر میں چھاپے کے دوران شہید کر دیا، جب کہ 80 افراد کو بلاوجہ حراست میں لے کر نامعلوم مقام کی جانب منتقل کر دیا تھا۔

اسی طرح ستم و جبر کی گھٹن کا شکار وہ دو معصوم جانیں بھی ہوئیں، جو 2 دسمبر کو صوبہ بدخشان ضلع جرم کے علاقے شپچان میں افغان فورسز کے دستِ سفاک کا نشانہ بن گئیں۔

دسمبر کی 4تاریخ بھی وطن کی محافظ افواج کے ظلم کی گواہ ہے۔ قابض افواج نے افغان فورسز کے ہمراہ صوبہ ننگرہار ضلع خوگیانو کے علاقے مملی پر چھاپے کے دوران صرف مسلمان ہونے کے جرم میں 4 افراد کو شہید اور 10 کو پابندِ سلاسل کر دیا تھا۔ اسی دن صوبہ لغمان ضلع علیشک کے علاقے کوٹالی میں بھی حکومتی حمایت یافتہ ملیشیاکے اہل کاروں نے ایک مسافر گاڑی سے دو افراد کو اتار کر ایک کو شہید اور دوسرے کو زخمی کر دیا۔ جب کہ صوبہ بدخشان ضلع دیمگان کے مضافات میں ایک عمررسیدہ شخص کو غیرت مند افغان ہونے کی پاداش میں زندگی سے محروم کر دیا۔

ایک دن کے وقفے سے 6 دسمبر کو قندہار کے ائیر پورٹ کے سامنے قومی شاہراہ پر قابض افواج نے دو نہتے شہریوں کو فائرنگ کر کے ان کی سانسوں کا قتل کر دیا۔

ایک دن کا وقفہ یہاں بھی آیا، لیکن اس خاموشی کے پیچھے ظلم کی ایک تاریک آندھی پوشیدہ تھی۔ جس کے نتیجے میں افغان فورسز نے 8 دسمبر کو صوبہ بادغیس ضلع بالامرغاب کے علاقے جوی کنج میں طالبان سے جھڑپ کے بعد بچوں، بوڑھوں سمیت 60 افراد کو حراست میں لے کر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اگلے دن 9 دسمبر کوصوبہ ہلمندضلع گریشک کے علاقے کلائی گز میں افغان فورسز کی اندھی فائرنگ سے دو دکاندار شہید اور ایک زخمی ہوگیا۔

یہی ستم 10 دسمبر کو صوبہ پروان ضلع سیاگرد کے علاقے درہ سیدان جمبت خیل میں بھی قابض افواج نے والی بال گراونڈ پر بمباری کر کے ڈھایا تھا، جس کے نتیجے میں 5 طلبہ ’’بورجان، وثیق، خیراللہ، اسماء اللہ اور علی گل‘‘ کی صورت میں قوم کی امانت بہ زعمِ خویش قومی محافظوں کے ہاتھوں موت کی نیند سُلا دیے گئے۔

اسی طرح 14 دسمبر کو بھی قندہار کے ضلع خاکریز کے علاقے باغکی میں افغان فورسز کی گولہ باری سے دو بے گناہ افراد شہید ہو گئے۔

پھر 21 دسمبر کی تاریخ ظلم کے ایک نئے باب کا اضافہ دیکھا۔ جس میں صوبہ غزنی ضلع شلگر کے علاقے غبرگون میں حکومتی حمایت یافتہ ملیشیا کے اہل کاروں نے ایک افغان شہری حاجی اسحاق کے گھر پر چھاپہ مار کر اُن کے اہل خانہ کو گھر سے زبردستی بے دخل کر دیا اور وہاں اپنی چوکی قائم کر کے وطن کی ’’حفاظت‘‘کرنے لگ گئے۔

21 دسمبرکا سورج بھی مظلوموں کی آہیں سن کر ہی افق کے اُس پار ڈوبا تھا۔ صوبہ میدان وردگ ضلع نرخ کے علاقے خسرکلی میں پولیس کی فائرنگ سے دو خواتین سمیت تین افراد شہید ہو گئے۔اسی روز صوبہ غزنی ضلع گیرو کے علاقے شیلہ کلی میں حکومتی ملیشیا کے اہل کاروں نے عبدالحمید نامی ایک شخص کو اپنے گھر سے حراست میں لے کر موت کی نیند سُلا دیا۔

اگلے دن 22 دسمبر کو صوبہ ننگرہار ضلع غنی خیل میں حلقہ نمبر 27 میں حکومتی ملیشیا کے درندوں نے ایک خاتون سمیت دو افراد کو شہید کر دیا۔

23 دسمبر کو صوبہ کاپیسا ضلع تگاب کے علاقے بروتیانو میں افغان فورسز کی جانب سے راکٹ حملے میں ایک خاتون اور تین بچے شہید ہو گئے، جب کہ تین خواتین اور چار بچے زخمی ہو گئے۔اسی دن صوبہ پکتیکا ضلع خوشامند کے علاقے جمجمو میں پولیس نے ایک شخص حاجی سید کو بلاوجہ شہید کر دیا۔

پھر دو روز کے وقفے سے 26 دسمبر کو صوبہ لوگر ضلع برکی برک کے علاقے ابجوش میں قابض افواج کی بمباری کے نتیجے میں 5 افراد شہید اور 5 زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کی حکومت نے بھی تصدیق کی تھی۔اسی دن صوبہ پکتیکا ضلع یحییٰ خیل کے علاقے گوڈلو میں اربکی ملیشیا نے ایک دینی تعلیم گاہ ’’نجم المدارس‘‘ سمیت اساتذہ کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اربکی ملیشیا کے درندوں نے مدرسے پر چھاپہ مار کر وہاں موجود اشیاء کو اپنی قریبی چوکی کی جانب منتقل کر کے مدرسے کو مسمار کیا تھا۔ انہوں نے مدرسہ کے مہتمم مولوی محمدیعقوف اخندزادہ اور دیگر اساتذہ کو دھمکیاں دی ہیں کہ علاقے سے نکل جائیں، بہ صورت دیگربرے نتائج کا سامناہوگا۔

28 دسمبر کو قندہار ضلع میوند کے علاقے گرماوک میں افغان فورسز کی جانب سے فائرکیے گئے راکٹ حملے میں تین بچے شہید ہوگئے۔ اسی دن صوبہ میدان وردگ ضلع نرخ کے علاقے عمرخیل میں افغان فورسز نے قریبی آبادی پر بلااشتعال گولہ باری کی، جس کے نتیجے میں دو افراد شہید اور 5 زخمی ہو گئے۔

29 دسمبر کو صوبہ روزگان کے صوبائی دارالحکومت ترینکوٹ کے قریب ناوہ تنگی کے علاقے میں پولیس نے تیرہ سالہ دو معصوم بچوں کو شہید کر دیا۔ مقامی لوگوں نے کہا ہے کہ یہ دونوں بچے 15 دن قبل لاپتہ ہوگئے تھے، جن کی لاشیں ابھی ملی ہیں۔ اسی دن صوبہ ہلمند ضلع گریشک کے علاقے کلایی گز میں حاجی پیر محمداکا کے گاؤں میں افغان فورسز کی بمباری میں ایک خاتون اور دو معصوم بچے شہید جب کہ ایک خاتون اورایک بچی شدید زخمی ہوگئیں۔

30 دسمبر کو صوبہ ہلمند ضلع موسی قلعہ کے علاقے توغی میں پولیس نے ایک شخص ’’قدرت اللہ ولد حاجی محمد‘‘ کو مسجد جانے کے جرم میں شہید کر دیا۔

دسمبر کی 31تاریخ بھی بقیہ دنوں کی طرح کو ظلم کے بھیانک مناظر دیکھ چکی ہے۔ صوبہ جوزجان ضلع قوشتپے کے علاقے عرب میں افغان فورسز نے طالبان سے جھڑپ کے بعد 2 معصوم بچوں کو شہید کر دیا۔ اسی طرح صوبہ ہلمند ضلع سنگین کے علاقے ساروان قلعہ میں افغان فورسز کی جانب سے فائر کیے گئے راکٹ محمداکا کے گھر پر جا کر لگے، جن کے بیٹے کی شادی تھی۔ اس دل خراش واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت 56 افراد شہید ہوگئے۔ جب کہ سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ ہلمند کے حکام نے بھی واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ افغان فورسز کی جانب سے فائر کیے گئے راکٹ حملے کے باعث پیش آیا ہے۔

ذرائع: بی بی سی، آزادی ریڈیو، افغان اسلامک نیوز ایجنسی، پژواک، خبریال، لراوبر، نن ٹکی ایشیا، بینوا ویب سائٹس