دشمن سویلین کو کیوں نشانہ بنارہے ہیں ؟!!

جمعہ کے روز 04/دسمبر 2015ء صوبہ میدان ضلع سیدآباد کے شنیز کے علاقے اوتڑیو گاؤں میں کابل دوہری انتطامیہ سے منسلک وحشی بندوق برداروں نے  بچوں سمیت 18 نہتے افراد کو خون میں نہلادیے۔ رپورٹ کے مطابق یہ المناک سانحہ ایسے وقت میں رونما ہوا، جب معمول کے مطابق لوگ سردی کے موسم میں صبح […]

جمعہ کے روز 04/دسمبر 2015ء صوبہ میدان ضلع سیدآباد کے شنیز کے علاقے اوتڑیو گاؤں میں کابل دوہری انتطامیہ سے منسلک وحشی بندوق برداروں نے  بچوں سمیت 18 نہتے افراد کو خون میں نہلادیے۔ رپورٹ کے مطابق یہ المناک سانحہ ایسے وقت میں رونما ہوا، جب معمول کے مطابق لوگ سردی کے موسم میں صبح کے وقت مسجد کے آس پاس اکھٹے ہوئے تھے اور علاقے میں لڑائی کا کوئی اثر تک نہیں تھا۔

کابل انتظامیہ کے بندوق برداروں کو ان کے استعماری اساتذہ نے صرف اور صرف وحشت کا سبق سیکھایا ہے۔پشتو زبان کا ضرب المثل ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ “جس کے پاس رہوگے، اسی کا شیوہ اپناؤگے”۔ وہ وحشت کے علاوہ کچھ اور نہیں جانتے۔ اسی لیے مذکورہ زبان کے ایک اور ضرب المثل کا مفہوم ہے کہ  “جو کچھ پتیلے میں ہو، تو چمچ بھی وہی آئیگا” امریکی تاریخ وحشتوں سے بھرا ہوا ہے۔ مثال کے طور پرہم  جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی شہروں پر ایٹمی حملہ، ویتنام، عراق اور افغانستان میں عوام کے مصائب کا تذکرہ کرسکتے ہیں۔

کابل کے بندوق بردار جن کی تنخواہیں، ملبوسات اور دیگر لوازمات استعمار کی جانب سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اسلحہ، فوجی سازوسامان اور گاڑیاں غاصب فراہم کرتے ہیں۔ جنگی اہداف کا انتخاب استعمار کرتا ہے، جنگ کا کمان ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، تو یہ نیشنل آرمی ہے اور نہ ہی ملت کے دفاع کی غرض سے قائم کی گئی ہے، بلکہ استعماری جارحیت کے لیے قائم کردہ کرائے کا جنگجو فورس ہے۔جس کی جانب سے تعاون کیا جاتا ہے، تو فورسز بھی اسی کے دفاع کی جنگ لڑرہا ہے۔ یہ کہ افغان عوام استعمار کو بھگانے کا عزم رکھتے ہیں اور ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے ۔ اسی لیے سب ہی ان کے ٹارگٹ پر ہیں۔عوام کا قاتل استعمار کی نگاہ سے قومی ہیرو اور ہر قتل کے بدلے وہ   امتیازات کے حق دار ہیں۔

ہمارے متدین عوام بخوبی جانتے ہیں کہ نیشنل آرمی کے نام سے جرائم پیشہ فورس کی تربیت استعمار نے کی اور کررہا ہے۔ وہ استعمار جو ہمارے دین، ملک اور آزادی کا دشمن ہے۔ وہ وحشی استعمار جو انسانیت اور قانون کو نہیں جانتے۔ وہ استعمار جو ہمارے ملک میں تعمیر اور امداد کے نام سے چودہ برس سے بےشمار جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔جنہوں نے ہزاروں انسانوں کو قتل ، لاکھوں کو گھربارچھوڑنے پر مجبور کردیے، آندھی بمباریوں کی وجہ سے افغانی مٹی کے تلے زندہ دب گئے، کئی بار شہداء کی توہین ، عالم اسلام کے مقدس کتاب قرآن کریم کی بے حرمتی کی۔ مساجد، مدارس، اسکولز، شادی تقریبات اور ہسپتالوں پر بمباری کی، جس کا تازہ حالیہ مثال صوبہ قندوز میں بین الاقوامی امدادی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) ہسپتال پر بمباری ہے، جس میں نہایت بےدردی سے مریضوں سمیت ڈاکٹرز بھی خاک کے ملبے دب گئے۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہرملک کی نیشنل آرمی کو ایک مقدس  نظریے کے تحت تربیت دی جاتی ہے۔ اپنے ملک کے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات کی حفاظت کرتی ہے۔ اپنے دین، قومی روایات، سرزمین اور عوام کا دفاع کرنا نیشنل آرمی کی ذمہ داری ہے۔ قومی فوج اس وقت ملت کی خادم سمجھی جاتی ہے، جب ملت کے آغوش میں تربیت حاصل کریں۔ ملت کے عقیدہ، اخلاق اور ثقافت کے مطابق تربیت یافتہ ہوجائیں۔ ملت کے دوست اور دشمن کو اچھے  طریقے سے پہچان لے۔ملی فوجی مکمل طور پر قومی ہونی چاہیے اور اسے ہر بیرونی اثر سے پاک رکھنی چاہیے، تاکہ اپنے ملت کے مذہبی اور ملی  نوامیس ، ان کے عزت، سر و مال کی حفاظت کو اپنی فریضہ سمجھ لے۔ واللہ الموفق