شیخ الحدیث مولاناعبدالسلام شہیدرح کی زندگی پرایک نظر

تحریر: عبدالروف حکمت عالم کی موت عالم کی موت ہے۔ علم اللہ تعالی کی صفت ہے،علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارثین ہیں،اسی وجہ سے ایک عالم کی وفات امت مسلمہ کے لئے بڑانقصان قراردیاجاتاہے،اگردینی علوم اورعلماء کرام کی فضیلت اوران کی قدرومنزلت پربات شروع کروں تواصل مقصدرہ جائےگااس لئے صرف ایک بات پراکتفاکرناچاہتاہوں کہ […]

تحریر: عبدالروف حکمت

عالم کی موت عالم کی موت ہے۔

علم اللہ تعالی کی صفت ہے،علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارثین ہیں،اسی وجہ سے ایک عالم کی وفات امت مسلمہ کے لئے بڑانقصان قراردیاجاتاہے،اگردینی علوم اورعلماء کرام کی فضیلت اوران کی قدرومنزلت پربات شروع کروں تواصل مقصدرہ جائےگااس لئے صرف ایک بات پراکتفاکرناچاہتاہوں کہ ایک عالم دین کی وفات دنیاکے حالات کے پیش نظرجس طرح ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے حقیقت میں اس طرح نہیں۔

ارشادباری تعالی ہے کہ ’’أَفلا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الاَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ( “الأنبياء۴۴ ” ترجمہ :توکیانہیں دیکھتے کہ ہم زمین کواس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں توکیایہ غالب ہوں گے۔

قال ابن عباس رضي الله عنه: خرابها بموت فقهاء وعلمائها وأهل الخير منها، وكذا قال مجاهد أيضاً: هو موت العلماء)

سیدناعباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ زمین کی خرابی کامطلب علماء ،فقہااوراہل خیرحضرات کی موت اوراس دنیاسے رحلت ہے۔

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اورحضرت مجاہدلکھتے ہیں کہ اس ایت کامطلب یہ ہے علماء اورفقہاء کی وفات سے زمین کم کردی جائے گی کیونکہ جب علماء کرام نہیں رہیں گے توجہل اورفسادبرپاہوگا۔

اسی طرح حضورﷺفرماتے ہیں (إن الله لا يقبض العلم انتزاعاً ينتزعه من صدور الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يترك عالماً اتخذ الناس رؤوساً جُهّالاً. فسئلوا فأفتوا بغير علم ؛ فضلوا وأضلوا.” (متفق عليه)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ بندوں کے سینوں سے علم نہیں کھینچے گابلکہ علماء کی موت سے علم کوقبض فرمائے گاحتی کہ کوئی عالم دنیامیں باقی نہیں رہے گاتب لوگ جہلاء کواپناسرداربنالیں گے،ان سے سوال کیاجائے گا،تووہ علم کے بغیرفتوی دیں گے،خودبھی گمراہ ہوں گے اورلوگوں کوبھی گمراہ کریں گے۔

مذکورہ بالاآیت کریمہ سے ثابت ہواکہ علماء کرام اورفقہاء کی موت درحقیقت دنیاکے لئے بڑانقصان ہے۔ حدیث شریف سے بھی واضح ہواکہ علماء کرام کی موت امت کے لئے گمراہی اورضلالت کاپیش خیمہ ہے۔علماء کرام کی وفات پراپنے وقت کے بزرگوں نے جوتاثرات قائم کئے ہیں ان سے بھی ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ علماء کرام کی وفات امت کے لئے عظیم نقصان اوربڑاسانحہ ہوتاہے جس سے اکثرلوگ بے خبررہتے ہیں۔

سیدنا حسن رضی  اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عالم کی وفات اسلام میں ایک بڑے شگاف کی مانندہے جس کاخلاعرصہ درازتک پرنہیں کیاجاسکتا۔حضرت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (الناس أحوج إلى العلم منهم إلى الطعام والشراب،لأن الطعام والشراب يحتاج إليه في اليوم مرتين أو ثلاثاً، والعلم يحتاج إليه في كل وقت )لوگوں کوکھانے اورپینے سے علم کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ کھانے اورپینے کی دن میں دویاتین بارضرورت پیش ہوتی ہے جبکہ علم کوہروقت ضرورت ہے۔

ان دلائل سے ثابت ہواکہ اسلامی معاشرے میں ایک عالم دین کی رحلت کتنابڑاسانحہ ہوتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پرفتن دورمیں مسلمانوں کوایک عالم دین کے سانحہ ارتحال اوراس کے نقصان کااحساس ہی نہیں ہوتا۔

گزشتہ دوبرس کے دوران ایک منظم منصوبے کے تحت کئی اہم اور نامورعلماء کرام کوشہیدکردیاگیاجن میں شیخ الحدیث مولاناعبدالغنی صاحب،شیخ الحدیث مولوی عبدالغنی مہاجرصاحب،شیخ الحدیث مفتی رحمت اللہ صاحب اوردیگرجیدعلماء کرام کی شہادتوں کے بعدشیخ الحدیث مولاناعبدالسلام صاحب اورشیخ الحدیث مولاناعبداللہ ذاکری صاحب کوشہیدکردیاگیا جس نے علمی دنیااوردیندارمسلمانوں کوسخت رنجیدہ کردیا،اس تحریرمیں علم اورشہادت کے اس کاروان کے اہم راہی شیخ الحدیث مولاناعبدالسلام شہیدرحمہ اللہ کی حالات زندگی اوران کے کارناموں پرچندنگارشات پیش خدمت ہیں امیدہے ملاحظہ فرمائیں گے۔

شیخ الحدیث مولاناعبدالسلام شہید:

مولاناعبدالسلام شہیدکی ولادت 1947ء میں ہوئی،آپ حاجی خان گل کے فرزنداورصوبہ پکتیکاکے علاقہ گومل کے رہنے والے ہیں اورقوم خروٹی قبیلہ بانزی سے تعلق رکھتے ہیں،آپ کے تین بھائی ہیں،آپ کوچارسال کی عمرمیں اپنے والدمحترم نے حصول علم کے لئے وقف کردیا۔

شیخ شہیدؒکے اہلخانہ موسم گرمامیں افغانستان کے صوبہ زابل ضلع دائچوپان کوچ کرجاتے تھے اورموسم سرمامیں وہاں سے منتقل ہوکربلوچستان کے علاقہ سبی میں قیام کرتے تھے،شیخ شہیدرح کے بھائی کہتے ہیں کہ حضرت شیخ علیہ الرحمہ نے چارسال کی عمرمیں قران پاک سے تعلیم کاسلسلہ شروع کیا،دائیچوپان کے علاقہ خاکران میں مشہورعالم دین کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے،جب موسم سرمامیں ان کے اہل خانہ سبی کوچ کرجاتے تھے تووہ اسی مدرسے میں رہ کراکتساب علم کرتے رہے۔

حضرت شیخ شہیدؒ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ دینی تعلیم کے علاوہ ان کی کوئی اورمصروفیت نہیں تھی،آپ تیرہ سال کی عمرتک اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے رہے جس کے بعدمزیدعلم حاصل کرنے کے لئے صوبہ زابل کے معروف اورجیدعلماء کرام کے پاس گئے جن میں ضلع شاجوی کے معروف عالم دین مولوی سردارصاحب المعروف پاسنواخندزادہ اورقلات کے نامورعالم دین اوراستاذالعلماء مولوی عنایت اللہ صاحب [غبرگی اخندزادہ]شامل ہیں،ان سے شرف تلمذحاصل کیااس کے علاوہ قندہار،میدان وردگ،غزنی اورملک کے مختلف علاقوں میں مشہوراورجیدعلماء کرام سے علم حاصل کیا۔

حضرت شیخ ؒ نے زمانہ طالب علمی کے دوران کابل کے قلعہ جوادکے حضرت ضیاء المشائخ محمدابراہیم مجددی صاحب سے بیعت فرمایا اوراسی نقشبندیہ مجددیہ کے مسلک پرآخرتک قائم رہے،آپ نے کم عمری میں تمام فنون کی کتابیں پڑھیں اورعلم حدیث حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے مشہوردینی درسگاہ مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیااورمدرسہ کے جیدعالم دین شیخ الحدیث مولاناعبدالحق صاحب سے 25سال کی عمرمیں سندفراغت حاصل فرمائی۔

درس وتدریس:

شیخ الحدیث مولاناعبدالسلام شہیدؒ نے دینی علوم سے فراغت کے بعددرس وتدریس کاآغازکیاآپ نے ابتداء میں تین سال تک عام مروجہ دینی کتابوں کوپڑھانے کااہتمام کیاوراس کے بعدشہادت کے دن تک حدیث شریف کی کتابیں پڑھاتے رہے۔

آپ نے درس وتدریس کاآغازمدرسہ مفتاح العلوم سبی[بلوچستان] سے کیااس کے بعدمدرسہ بحرالعلوم کوئٹہ میں مدرس مقررہوئے یہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعدمدرسہ دارالعلوم قاسمیہ شابومیں درس وتدریس کی خدمات انجام دی،پھریہاں سے چلے گئے اورکوئٹہ کے محمدایوب محلہ میں مدرسہ خیرالمدارس میں 1994ء تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔آپ حدیث کی تدریس میں مہارت تامہ کے مالک تھے۔

1994ء میں صوبہ خیبرپشتونخواکے ضلع ڈیرہ اسماعیل پہاڑپورمیں مولوی عبدالجبارکے مدرسہ میں دورہ حدیث کی تدریس کے فرائض انجام دیتے  رہے،یہاں تین سال گزارنے کے بعدجنوبی وزیرستان کے صدرمقام وانامیں مشہوردینی درسگاہ دارالعلوم جنوبی وزیرستان میں شیخ الحدیث مقررہوئے اورمسلسل چھ سال تک اسی مدرسہ میں شیخ الحدیث کے طورپر پڑھاتے رہے اورکثیرتعدادمیں طلبہ نے آپ سے سندفراغت حاصل کی۔

وزیرستان میں چھ سال تک پڑھانے کے بعدواپس ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے جہاں مولوی عبدالجبارکے مدرسہ میں ایک سال دورہ حدیث پڑھانے کاانتظام سنبھالااوراس کے بعدایک بارپھر2006ء میں کوئٹہ  تشریف لے گئے جہاں کلی حاجی محمدایوب مدرسہ خیرالمدارس میں شیخ الحدیث  کے طورپر طلبہ کواحادیث شریف پڑھاتے رہے یہاں پرشہادت کی تاریخ سنہ2014ء تک حدیث شریف کی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اورہرسال سینکڑوں طلبہ آپ سے اکستاب علم کرتے ہوئے کثیرتعدادمیں فضلاء آپ کے مدرسہ سے سندفراغت حاصل کرتے رہے۔ حضرت شیخ صاحب زندگی میں تین بار1999ء۔2005ء اور2009ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔

سانحہ شہادت:

شیخ الحدیث مولاناعبدالسلام شہیدؒ اپنے مدرسہ خیرالمدارس میں احادیث نبوی کوپڑھانے کے علاوہ عوام کی مشکلات دورکرنے کے لئے اصلاح کی کوششیں بھی کرتے رہے،وہ عوام میں نہایت مقبول رہنماتھے،عوام ان کی باتوں کوغورسے سنتے اورقدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اوران کے تعاون سے اپنے مسائل حل کرتے تھے۔

۲۷محرم 1435ھ کی شب وہ ایک دعوت پرگئے تھے اورواپسی پراپنے ایک دوست کے ہمراہ گھرجارہے تھے کہ راستہ میں دوموٹرسائیکل سواروں نے ان پرفائرنگ کی اوردوگولیاں ان کوپیوست ہوگئیں جس سے وہ شدیدزخمی ہوئے،جنہیں فوری طورپرمقامی ہسپتال منتقل کردیاگیاتین دن تک طبی علاج ومعالجہ کرانے کے بعد30محرم کورات کے گیارہ بجے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کوپیارے ہوگئے، انا لله وانا الیه راجعون ۔

شیخ صاحب کی شہادت کی خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور ایک بڑے سانحہ کے طورپراہل علم اورعوام الناس کوایک گہرے رنج وغم میں مبتلاکردیا،علماء کرام،عام مسلمانوں اورطلبہ کورلادیا، شاگردوں نے ان کے وصال پرآنسوبہائے،امارت اسلامیہ افغانستان کی رہبری شوری نے اس سانحہ کے موقع پراعلامیہ جاری کردیااورتمام مسلمانوں نے وقت کے جیدعالم دین کی شہادت پران کے بزدل قاتلوں پرلعن طعن کیا۔

ان کی نمازجنازہ 30محرم کوان کے قریبی دوست اورجیدعالم دین شیخ الحدیث مولاناہیبت اللہ اخندزادہ کی امامت میں اداکی گئی ،نمازجنازہ میں علماء کرام،طلبہ اورعام دیندارمسلمانوں نے ہزاروں کی تعدادمیں شرکت کی۔اس موقع پرہرانکھ اشکباراورہردل غمزدہ تھا،شہیدؒ کوآہوں اورسسکیوں میں سپردخاک کردیاگیا۔حضرت شیخ شہیدنے سوگواران میں تین صاحبزادے چھوڑے  جن میں دوعلماء اورتیسراابھی طلب علم میں مصروف ہے ۔

حضرت شیخ شہیدؒ کی شہادت کی مناسبت سے امارت اسلامیہ کی مرکزی شوری کاپیغام:

اعوذ بالله من الشيطن الرجيم

بسم الله الرحمن الرحيم

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا (الاحزاب 23)

ایک افسوسناک اطلاع ملی ہے کہ ملک کے نامورعلمی اورجہادی شخصیت شیخ الحدیث والتفسیرمولوی عبدالسلام صاحب تین روزقبل اسلام اوردین کے دشمنوں کی جانب سے ایک بزدلانہ حملہ میں شدیدزخمی ہوئے،گزشتہ رات ہمسایہ ملک پاکستان کے ضلع کوئٹہ میں ایک مقامی ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے67سال کی عمرمیں جام شہادت نوش کرگئے،اناللہ وناالیہ راجعون۔

چونکہ مرحوم شیخ صاحب افغانستان کی سطح پرایک معروف عالم دین اورامارت اسلامیہ کے اہم علمی اورجہادی رہنماوں میں سے تھے،استادکل کی حیثیت رکھتے تھے،ہزاروں طلبہ نے ان سے علم حاصل کیا،اس لئے ان کی شہادت افغانستان اورخطے کی علمی اورجہادی پیشرفت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

حضرت شیخ صاحب[رحمہ اللہ]حاجی خان گل کے فرزنداورصوبہ پکتیکاکے رہنے والے ہیں،انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری،وہ 25سال کی عمرمیں دینی علوم کے حصول سے فارغ ہوئے،فراغت سے دوسال بعداحادیث نبوی[دورہ حدیث]کے درس وتدریس کاآغازکیااورگزشتہ34سال سے مختلف مدارس میں احادیث پڑھاتے رہے،جنوبی وزیرستان کے مدرسہ دارالعلوم وانا،ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دینی درسگاہ اوربلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے شیخ ماندہ میں جامعہ خیرالمدارس اوردیگرمدارس میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دیتے رہے ۔

حضرت شیخ شہیدؒ جید،متقی اورزیرک عالم دین تھے،اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ نہایت محبت کرتے تھے اورعام لوگوں میں بے پناہ مقبولیت رکھتے تھے ، جہادکے اہم داعی کے طورپرجانے جاتے تھے،وہ ہرتقریب،محفل اورجہادی جلسوں میں بڑے جرأ تمندانہ اندازسے جہادکی حمایت میں خطاب کرتے تھے اورمجاہدین کی ذہن سازی اورتربیت کرنے کے علاوہ عام لوگوں کوبھی قابض افواج کے خلاف جانی اورمالی جہادمیں حصہ لینے کی ترغیب دیتے تھے۔

حضرت شیخ شہیدؒ کئی سالوں سےدرس حدیث کے ساتھ ساتھ دورہ تفسیرقرآن کریم بھی پڑھاتے رہے ۔ ہزاروں طلبہ نے ان سے کسب فیض کیا ۔وہ اپنی ان خوبیوں کے باعث اسلام دشمنوں کے لئے ناقابل برداشت تھے اس لئے ان پرایک بزدلانہ حملہ کرکے شہیدکردیاگیا،ان کے دشمنوں کایہ عمل حضرت شیخ علیہ الرحمہ کے دونوں جہانوں کی سربلندی اورقاتلوں کی دنیاوآخرت کی بردبادی کاسبب بنا۔

امارت اسلامیہ اس بڑے سانحہ کے موقع پران کے لواحقین،شاگردوں،مجاہدین اورملک کے تمام عوام اورمسلمانوں سے تعزیت کرتی ہے،اللہ تعالی ان کی شہادت قبول فرمائے اوران کے پسماندگان،لواحقین اورشاگردوں کوصبرجمیل عطافرمائے۔

امارت اسلامیہ افغانستان کی مرکزی شوری

شیخ مولاناعبدالسلام صاحب کی شخصیت:

حضرت شیخ شہیدؒ کی نابغہ روزگارشخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ متبحرعالم،شیخ الحدیث والتفسیراورفقہ حنفی کے نامورعالم تھے،سوویت یونین کی یلغاراوراب امریکی جارحیت کے خلاف جہادکے نہ صرف حامی تھے بلکہ مجاہدین کی فکری تربیت بھی کرتے تھے اورایک رہنماکی حیثیت رکھتے تھے،وہ ہمیشہ مجاہدین سے ملاقاتیں کرتے تھے،ان کوخیراوربھلائِی کے کاموں کی ترغیب دیتے تھے اورنیک مشوروں سے نوازتے تھے اوراپنی جانب سے ہروقت ہرممکن تعاون کرتے تھے۔

شیخ صاحب علیہ الرحمہ نے جس طرح اپنی عمرکابڑاحصہ درس وتدریس میں صرف کیااس طرح وہ لوگوں کے درمیان جاری تنازعات ختم کرنے میں بھی اہم کرداراداکرتے تھے،بڑے قبیلوں کے درمیان قبائلی رنجش ختم کرنے اورانہیں شیروشکرکرنے میں نہایت فعال رول اداکرتے تھے،جس طرح وہ جیدعالم دین تھے اسی طرح وہ معاشرے کے حالات سے بھی خوب آگاہ تھے،وہ مسلمانوں کے درمیان تنازعات کوختم کرنے،ناراض لوگوں اورقبیلوں کے درمیان تصفیہ کرنے اوردوفریقین کے درمیان جاری لڑائی کوافہام وتفہیم سے ختم کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے،وہ مسلمانوں کے غم ودکھ میں شریک ہوتے تھے اوربہت کوشش کرتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان تنازعات کوختم کرکے ان کے درمیان اتحاداوربھائی چارے کی فضاقائم کریں۔

حضرت شیخ صاحب کے قریبی دوست اورجیدعالم دین شیخ الحدیث مولاناہیبت اللہ اخندزادہ نے بتایاکہ کہ مولاناعبدالسلام صاحب کے ساتھ میراقریبی تعلق تھا،کئی سفروں میں ہم ایک ساتھ تھے،مختلف جلسوں اورتقریبات میں ہم شریک ہوتے تھے،ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے دل خوش رکھیں اوران کے درمیان اتحادبالخصوص علماء کرام کے درمیان اتفاق کے لئے زیادہ کوشش کرتے تھے،وہ اپنی تقاریرمیں علماء کرام کے درمیان اتحادپرزیادہ زوردیتے تھے اوراختلاف سے دوررہنے کی ترغیب دیتے تھے۔

افغانستان کے ایک معروف جہادی اورعلمی شخصیت مولوی فریدصاحب بھی حضرت شیخ صاحب کے قریبی دوست تھے ان کاکہناہے کہ حضرت شیخ صاحب اس پرفتن دورمیں قابل فخراورقابل تقلیدعالم دین تھے،وہ اسلاف کے نمونہ تھے،صورت اورسیرت میں شریعت کے برابرتھے،ظاہرسے باطن میں بہترمعلوم ہورہے تھے،مخلص انسان تھے،رات کے آخری حصہ میں خفیہ طورپرتہجدکی نمازپڑھتے تھے اورپھرواپس آرام فرماتے تھے تاکہ کسی کوان کے تہجدکی نمازکاپتہ نہ ہو،میں ان کاعینی شاہدہوں۔

علمی استعدادمیں مثال آپ تھے،جب ان سے کسی فقہی مسئلہ میں پوچھاجاتایاکسی حدیث شریف کے بارے میں دریافت کیاجاتاتووہ فوراجواب دیتے اورکتاب کاحوالہ بھی دیتے تھے،وہ مسائل میں نہایت محتاط رہتے تھے اوربڑی معتبرکتابوں کاحوالہ دیتے تھے،اخلاق اورتواضع کی صفات سے اللہ تعالی نے انہیں نوازاتھا،وہ سفرمیں خودخدمت کرتے تھے،کھاناتیارکرنے میں ساتھیوں کی مددکرتے تھے،وہ اچھے اخلاق کے مالک تھے،خوش مزاج تھے،وہ شرین بیان  تھے،ان کی گفتگومیں لذت ہوتی تھی،وہ چھوٹوں اوربڑوں کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق گفتگوکرتے تھے اورہرایک کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

چندعلماء کرام کے تاثرات کوقلم بندکرکے نمونہ کے طورپرپیش کردیاگیا،ان کی زندگی اورکارناموں کاپوراحاطہ کرنایہاں میرے لئے دشوارکام ہے،اللہ تعالی نے انہیں اچھی خوبیوں کاسرچشمہ پیداکیاتھااوراعلی صفات سے نوازاتھا،ہم دست بدعاہیں کہ اللہ تعالی ان کے صاحبزادوں اورشاگردوں کوان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق دے تاکہ یہ علم وخیرکایہ بحراسی طرح جاری وساری رہے،امین یارب العلمین۔