عزم جہادی آپریشن کا جاری پیشرفت اور استعمار کے خدشات

امارت اسلامیہ کی حالیہ فتوحات اور عزم جہادی آپریشن کےجاری پیشرفت سے وطن عزیز کے دشمنوں کو خدشات کا سامنا ہوا ہے۔ان کا یہ خیال تھا کہ جمہوریت کےپرکشش پردوں کے پیچھے جارحیت اور غاصب چھپ جائینگے  اور افغانی ان کے وعدوں سے دھوکہ میں پڑجائینگے۔  لیکن ان کی یہ چالاکی بھی ناکام ہوئی، بلکہ […]

امارت اسلامیہ کی حالیہ فتوحات اور عزم جہادی آپریشن کےجاری پیشرفت سے وطن عزیز کے دشمنوں کو خدشات کا سامنا ہوا ہے۔ان کا یہ خیال تھا کہ جمہوریت کےپرکشش پردوں کے پیچھے جارحیت اور غاصب چھپ جائینگے  اور افغانی ان کے وعدوں سے دھوکہ میں پڑجائینگے۔  لیکن ان کی یہ چالاکی بھی ناکام ہوئی، بلکہ ڈیموکریسی اب افغانوں کے درمیان اس قدر بدنام اور غیرمقبول  ہوئی ہے ، جسے ناانصافی اور تکلیف کی علامت تصورکی جاتی ہے۔

انہی خدشات کے تناظر میں نیٹو وزراء خارجہ   یکم دسمبر 2015ء کو بروکسل میں ایک اجلاس کا انعقاد کرنے والے ہیں۔ وہ غیر یقینی صورتحال سے دست و گریبان اور  مسائل سے نمٹنے سے عاجز ہیں، کہ کیا کریں؟ کس طرح حواس باختہ فوجیوں اور ایجنٹوں کو حوصلہ دیں  اور اپنی یقینی شکست کاکس طرح سدباب کریں؟  ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق  استعمار منحوس لڑائی کو مزید طول دینا چاہتی ہے۔ اپنی عوام اور فوجیوں کو مزید ایک ناجائز جنگ کے لیے قربان کرتے ہیں، وہ جنگ جس کا جیتنا ناممکن ہے اور ان کے لیے ناکامی اور نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔

دوسری جانب عوامی حمایت سے محروم کابل کٹھ پتلی انتطامیہ کے بے اختیار عہدیدار  اپنی بقاء اور بےاختیار تاج و تخت کے دوام کو طن عزیز کی قبضے میں دیکھنا چاہتا ہے اور ہمیشہ کوشش کرتے  رہتے ہیں کہ مغربی استعماروں کے ہرمذموم اقدام کو اپنی مفاد کے طور پر استعمال کریں۔ استعمار کے ہرظلم اور وحشت کو جائز کہتے ہیں۔ اتوار کے روز 22/ نومبر 2015ء  امریکی استعمار کے کانگریس کے دس رکنی وفد سے اشرف غنی کے ملاقات میں بحث کا موضوع بھی جارحیت کا دوام تھا اور بس۔

نیٹو وزراء خارجہ کو چاہیے کہ  اپنی خدشات دور کرنے کے لیے جنگی سیاست کے بجائے عدالت، ہوشمندی اور پرامن سیاست کے طریقوں پر غور کریں۔ اپنے رہنماؤں اور عوام کو سچ بتادیں۔ افغان مسئلہ کے  ابعاد کا چھان بین کریں۔ عوام میں چند منفور  مہروں کی حمایت کے بجائے عوام کی مطلق اکثریت رائے کا احترام کریں اور ان کے مطالبات کے بارے میں سوچ  لے۔عراق میں  ناانصافی اور عدم تعقل سیاست کے نتائج کا جائزہ لے۔ مغرب کے سیاسی قائدین کو اس بات کا درک کرنا چاہیے کہ عوام کا  گلاگھونٹا اور انہیں تکلیف پہنچانا اکثر اوقات بےقابو ہوجاتا ہے، جسے کنٹرول کرنا کسی کے طاقت میں نہیں ہوتا۔

افغان تنازعہ کا واحد حل اس وقت ممکن ہے، جب افغانوں کے اسلامی اور ملی مطالبات کو لبیک کہا جائے۔ جارحیت ختم ہوجائے۔ استقلال اور آزادی کا اعادہ ہوجائے۔ افغانوں کی مرضی سے اسلامی نظام قائم ہوجائے۔ امارت اسلامیہ اپنی متوازن اور عادلانہ سیاست کی رو سے ہمیشہ کوشش کرتی آئی ہے ،  کہ وطن عزیز میں اسلامی شریعت کی روشنی میں عوامی امنگوں کے مطابق پائیدار امن قائم ہوجائے، تاکہ ہماری مصیبت زدہ عوام لاگوشدہ جنگ کے مصائب سے نجات پائے۔ واللہ الموفق