عوام مجاہدین کے منتظر ہیں

حبیب مجاہد کابل ایک بارپھر تنظیمی جھگڑوں کی آفت کا شکار ہو رہا ہے۔ کابل شہر کا قلب اور شہر آراتار کا تاریخی علاقہ جنگ کی بھٹی میں جلنے لگا ہے۔ اشرف غنی کے جنگجو ٹیڑھی ٹوپی سر پر رکھے راکٹ لانچر کمربند سے نکالے، پائنچے چڑھائے، چرس اور سگریٹ کا دھواں اڑاتے سادہ لباس […]

حبیب مجاہد

کابل ایک بارپھر تنظیمی جھگڑوں کی آفت کا شکار ہو رہا ہے۔ کابل شہر کا قلب اور شہر آراتار کا تاریخی علاقہ جنگ کی بھٹی میں جلنے لگا ہے۔ اشرف غنی کے جنگجو ٹیڑھی ٹوپی سر پر رکھے راکٹ لانچر کمربند سے نکالے، پائنچے چڑھائے، چرس اور سگریٹ کا دھواں اڑاتے سادہ لباس پہنے ہوئے ہیں۔ کابل شہر کے گلی کوچوں میں آ جا رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ باسی ہڈیاں جو ’مرنجاں‘ پہاڑی کے ایک پرانے قبرستان سے نکالی گئی ہیں اور انہیں امیر حبیب اللہ کلکانی کے جسد کا نام دیا گیا ہے، شہر آرا کی تاریخی پہاڑی میں دفن کریں۔

دوسری جانب جنرل دوستم کے مسلح جنگجو ہیں، جنہوں نے چہرے پر چادر باندھ رکھی ہے۔ پلنگی کوٹ پہنے ہوئے ہیں اور بھاری و ہلکے اسلحے سے شہر آرا کے کوچے میں مورچہ زن ہیں۔ اشرف غنی کے اہل کاروں پر فائر کر رہے ہیں۔ شہر آرا کا کوچہ میدان جنگ بن گیا ہے۔ ایک جانب دوستم کی ملیشیا قدم جمائے ہوئے ہے اور  دوسری جانب گل حیدر، امان اللہ گذر اور ان کی طرح کے دیگر جنگجو بھی شامل ہیں۔ کابل کے نہتے لوگ خوف زدہ ہیں۔ بے بسی کی زندگی میں اپنے چمن کو اُجڑتا ہوا دیکھنے کے علاوہ اُن کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

کابل کے شہریوں کے ذہنوں میں دو عشرے قبل کے پرانے حالات پھر سے تازہ ہو رہے ہیں، جب دوستم اور مسعود مرنجان اور بالا حصار کے کوچوں میں ایک دوسرے سے زور آزمائیاں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف خونی کارروائیاں کرتے تھے۔ درمیان میں کابل شہر ان کی بے رحمانہ اور جاہلانہ آگ کے شعلوں میں جل رہا تھا۔ اس دن کابل کا علاقہ بالکل ہی نوے کی دہائی کی طرح منظر پیش کر رہا تھا۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دُھرا رہی تھی۔ کابل کے موجودہ حالات شہریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ یہاں کوئی حکومت نہیں ہے، جو عوام سے مخلص ہو۔ جمہوریت کے اسٹیج سے نشر کیے جانے والے بڑے بڑے نعرے خالی گھڑوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ حکومت کے نام پر اقتدار پر قابض لوگ ہر لمحہ شہریوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔ یہاں دوستم، گل حیدر اور ممتاز کی ملیشیائیں اشرف غنی کے فوجیوں سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتی ہیں۔ کٹھ پتلی  غنڈوں کے درمیان گھرے ہوئے عوام کو اب بھی مجاہدین کے علاوہ کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا، جو انہیں خانہ جنگی سے نجات دلا سکیں۔

اشرف غنی کی وجہ سے افغانستان کے داخلی حالات ازحد خطرناک ہو چکے ہیں۔ خانہ جنگی، لوٹ مار، کرپشن اور نام نہاد تعصبات کی جنگ کے بال منڈلا رہے ہیں۔ اور اس دفعہ پھر عوام کی نظریں مجاہدین کی طرف اُٹھی ہوئی ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ اب بھی مجاہدین امن کی چاہت میں قربانیاں دینے والے عوام کی امنگوں پر پورا اُتر رہے ہیں۔اب کچھ ہی لمحے باقی ہیں، جب افغانستان پھر سے آزاد فضاؤں میں سانس لے رہا ہوگا۔