کابل

متعدد ممالک میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے مظاہرے، ریلیاں اور احتجاجی جلوس

متعدد ممالک میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے مظاہرے، ریلیاں اور احتجاجی جلوس

رپورٹ : الامارہ اردو
گذشتہ ایک ہفتے سے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ غزہ کی پٹی پر بمباری جاری ہے۔ جس میں اب تک 1500 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ آج اسرائیلی انتظامیہ نے شمالی غزہ خالی کرنے کے لیے فلسطینی باشندوں کو وارننگ دی جسے حماس نے مسترد کردیا۔ آج جمعہ کو اسرائیلی ظلم و وحشت کے خلاف کئی ممالک میں احتجاجی جلوس، مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ کئی مسلم ممالک کے سربراہوں نے اسرائیل کو ظلم و وحشت روکنے کے لیے متنبہ کیا ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں عید گاہ مسجد کے سامنے ہزاروں افراد نے اسرائیلی وحشت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگائے اور اسرائیل کے خلاف بھر پور نفرت کا اظہار کیا۔ مظاہرے سے خطاب میں عبد الحق حماد، انجینئر نظر محمد مطمئن کے علاوہ دیگر مقررین نے مسلم ممالک سے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا۔ صوبہ ننگرہار میں فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ عراق، عمان، لبنان، ایران، ترکیہ اور پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے بھی غزہ کی صورت حال پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ “اس جنگ کی اصل وجہ فلسطینیوں سے برتی جانے والی نا انصافی ہے۔” ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا: “”اگر مغرب انسانی حقوق کا آج ذرہ برابر بھی احترام رکھتا ہے تو اس کو سوچنا چاہیے کہ اس وقت غزہ کے مظلوم اور نہتے شہریوں کو کیا چاہیے، ان کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے۔ “بات صاف اور دو ٹوک ہے، 1967ء کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے”۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا: “غزہ کی پٹی میں اسرائیلی زمینی کار روائی کی صورت میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ‘بالکل ناقابل قبول’ ہوں گی۔ انہوں نے کہا: “مشرق وسطیٰ میں تشدد کے قابو سے باہر ہونے کی ایک وجہ، اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی ہے۔ اسرائیل نے فوجی طاقت کی مدد سے تاریخی فلسطینی سرزمین کے ایک مخصوص حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ جب اسرائیل قائم ہو رہا تھا تو اس وقت ساتھ ہی ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی بات ہو رہی تھی۔ لیکن فلسطینی ریاست بدستور سکڑتی گئی ہے۔”

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم اور دانش ور راہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا کہ اسرائیل 70 سالوں سے فلسطین پر ان کی سر زمین پر ظلم و ستم کر رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد قرار دیتا ہے مگر کیا حماس کا عمل اس شخص کی طرح نہیں ہے جنھیں دیوار سے لگا دیا گیا ہو؟ کیا یہ ان لوگوں کا رد عمل نہیں ہے جو خود کو بے بس تصور کرتے ہیں اور انسانیت و انصاف کے علم برداروں سے توقع کھو چکے ہیں؟ کیا حماس اور کسی بھی دوسرے فلسطینی سے جو اسرائیل کے قبضے، غنڈہ گردی، قتل عام، نسل کشی اور نسل پرستی کا نشانہ بنے تھے، یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ ایسا رد عمل دیں جیسا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم آج بھی حماس کو دہشت زدہ کرنے کی اسرائیلی کوششوں کے گواہ ہیں۔ دریائے حقیقت اسرائیل دہشت گرد ہیں جو کسی پچھتاوے کے بغیر فلسطینیوں کو دہشت زدہ کر رہا ہے۔”
سعودی عرب سے ایسی صورت حال جو پوزیشن اختیار کرنے کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی وہ اب تک دیکھنے کو مل رہا ہے۔ “سعودی عرب نے فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کا منصوبہ بند کردیا۔ ایران کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے میں آمادگی ظاہر کردی۔ امریکہ کو بتا دیا کہ غزہ کے شہریوں کی طاقت کے ساتھ نقل مکانی کا منصوبہ مسترد کرتے ہیں۔