مطبوعاتی جہاد

شيخ ابو قتاده حفظہ الله کسی بھائی کی طرف سے شیخ ابوقتادہ حفظہ اللہ سے مطبوعاتی جہاد کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ شیخ نے اُن بھائی کو جو جواب دیا تھا، وہ مفیدِ عام ہونے کی وجہ سے افادۂ عام کے لیے نشر کیا جا رہا ہے۔ […]

شيخ ابو قتاده حفظہ الله

کسی بھائی کی طرف سے شیخ ابوقتادہ حفظہ اللہ سے مطبوعاتی جہاد کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ شیخ نے اُن بھائی کو جو جواب دیا تھا، وہ مفیدِ عام ہونے کی وجہ سے افادۂ عام کے لیے نشر کیا جا رہا ہے۔

’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شیخ صاحب! اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو حق پر ثابت قدم رکھے۔ شام میں کچھ ساتھی جہاد کی نیت سے مطبوعاتی شعبہ میں کام کرتے ہیں، انہوں نے آپ کے نام کچھ جواب طلب سوالات بھیجے ہیں اور آپ کی طرف سے رہنمائی کے منتظر ہیں۔

  • جو مجاہد جہادی مراکز میں مطبوعاتی اور نشریاتی خدمات انجام دیتا ہے، جیسے جہادی ویڈیوز کی ایڈیٹنگ، تصاویر کی ڈیزائننگ اور اسی طرح کا مزیدکام۔ کیا ان ساتھیوں کو رباط فی سبیل اللہ کا اجر ملے گا؟ ہماری مراد وہ احادیث ہیں، جو رباط فی سبیل اللہ کی فضیلت کے حوالے سے ہیں۔ جیسے اللہ کی راہ میں ایک دن رباط حجر اسود کے پہلو میں لیلۃ القدر کی رات جاگنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔

کیا کوئی مجاہد ایسے حالات میں مارا جائے تو اس عمل کا اجر قیامت کے دن تک دیا جائے گا؟

  • جو ساتھی مطبوعاتی شعبے میں سستی سے کام لیتے ہیں اور اسی کوتاہی کی وجہ سے مخالفین میڈیائی جنگ میں غالب آ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے نوجوان دشمن کے میڈیا سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ کیا اس سے اُن ساتھیوں کو گناہ ہوگا، جو اس سستی اور کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں؟

کیوں کہ بہت سے ساتھی جہادی کاموں میں میڈیائی شعبے میں کام کرنا پسند نہیں کرتے، بلکہ جنگی یا دیگر شعبوں میں کام کا جذبہ رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب! یہ سب ہم اس لیے جاننا چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے آپ خصوصی ہدایات دیں، تاکہ نوجوانان اسلام کو اس شعبے کے حوالے سے بھی خصوصی رہنمائی مل سکے۔‘‘

شیخ ابوقتادہ نے جواب میں لکھا :

’’و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میرے مسلمان بھائی! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اسلام، بلکہ اقوام کی تاریخ میں میڈیا کا کام جہاد و قتال کا اہم حصہ رہا ہے۔ اپنے وجود کا ثبوت اور آدھا غلبہ اسی میڈیائی طاقت سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو ترغیب دیتے ہیں کہ اشعار کے ذریعے مشرکین کی مذمت کریں۔ ان سے فرماتے ہیں کہ آپ کا کلام مشرکین کو تیروں کے وار سے بھی زیادہ بُرا لگتاہے۔

امام مسلم نے اپنی ’صحیح‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریش کی ہجو (اشعار میں مذمت بیان) کرو، یہ اُن پر تیر کے وار سے بھی زیادہ بُری محسوس ہوتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے پہلے ابن رواحہ کے پاس کسی صاحب کو بھیجا کہ کفار کی ہجو کریں، انہوں نے ہجو کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اکتفا نہیں فرمایا، پھر کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کسی کو بھیجا کہ مشرکین کی ہجو کریں۔ پھر حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کسی کو بھیجا۔ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے: آپ نے ایک دُم مارنے والے شیر کے پاس آدمی بھیجا ہے۔ (حسان رضی اللہ عنہ نے خود کو شیر سے تشبیہ دی۔ جب شیر کو غصہ آتا ہے تو اپنی دم ایک سے دوسری طرف مارتا ہے) پھر انہوں نے اپنی زبان باہر نکالی اور ایک جانب سے دوسری جانب حرکت دے کر کہا: ’قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مَیں اپنی زبان ایسے تار تار کر دوں گا، جیسے کسی چیز کا چھلکا اتارا جاتا ہے۔‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی مت کرو، کیوں کہ ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) کو قریش کے نسب اچھی طرح معلوم ہیں۔ مَیں بھی قریش میں نسب رکھتا ہوں۔ (یعنی ایسا نہ ہو کہ میرے نسب کی ہجو کر دیں) حسان رضی اللہ عنہ اُن کے پاس گئے اور واپس آئے تو کہنے لگے: یارسول اللہ! انہوں نے مجھے آپ کا نسب بتا دیا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مَیں آپ کے نسب کو ہجو سے بچا کر رکھوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے حسان سے فرمایا: ’روح القدس جبرائیل ہمیشہ آپ کی تائید اور مدد کریں گے، جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کروگے۔‘

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ہے کہ ’حسان نے کفار کی مذمت کر کے مسلمانوں کے دل ٹھنڈے کر دیے اور اپنا دل بھی ٹھنڈا کر لیا۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ ابوسفیان کو احد کی جنگ کے بعد جواب دیں۔ جب کہ جواب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بتا رہے تھے:

’امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں  براء ابن عازب رضی اللہ تعالی سے روایت کی ہے کہ ہم غزوہ احد کے دن مشرکین کے سامنے گئے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراندازوں کا ایک گروپ پہاڑی پر بٹھایا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر فرما دیا۔ یہ ایک طویل حدیث ہے۔ اس میں ایک جگہ یہ ذکر ہے کہ ابوسفیان نے سر اٹھا کر کہا: ’کیا تم میں محمد ہیں؟‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’جواب مت دو۔‘ ابوسفیان نے دوبارہ کہا: ’کیا تم میں خطاب کا بیٹا ہے؟‘ جب کوئی جواب نہ ملا تو کہنے لگے:  ’یہ دونوں مارے گئے ہیں۔ اگر یہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خود پر قابو نہ پاسکے اور کہا: ’اے اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹ بولا ہے۔‘ ابھی اللہ نے ایسے لوگ زندہ رکھے ہیں، جن کے ذریعے تمہیں رسوا کرے گا۔ ابوسفیان نے اپنے ایک بت کا نام لے کر کہا: ’ہُبل کا نام  بلند ہو۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اب جواب دو۔‘ صحابہ کرام نے فرمایا: ’کیا کہیں؟‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’کہہ دو، اللہ عظیم اور بڑا ہے۔‘ ابوسفیان یہ سنا تو اپنے بت کا نام لے کر کہنے لگے: ’ہمارے پاس ’عزی‘ہے اور تمہارے پاس عزی نہیں ہے۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’جواب دو۔‘ صحابہ کرام نے پھر پوچھا: ’کیا کہیں؟‘ آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہہ دو ’اللہ ہمارا مولی ہے اور تمہارا کوئی مولی نہیں۔‘

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شاعر کے لیے اپنا منبر درست کرتے ہیں، تاکہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے حوالے سے اشعار کہیں۔ ایسے لوگ کس جانب جا رہے ہیں، جو اتنے عظیم کام چھوڑ رہے ہیں اور اِس طرف توجہ نہیں دیتے؟

امیر پر لازم ہے کہ ایک جماعت کو اس کام کے لیے فارغ کریں کہ باتوں سے حق کا تعاون کریں، جس طرح ایک مجاہد اسلحہ کے ذریعے حق کے لیے لڑتا ہے ۔ اگر ایسے لوگ خود تیار نہ ہوں تو اُنہیں زبردستی اس کام پر آمادہ کریں۔ اگر جہاد اس عظیم کام سے محروم ہو گیا تو ہم اپنے آپ کا تعارف کسی کو نہیں کرا سکیں گے اور نہ اپنے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی جوانوں کو اپنی جانب بُلا سکتے  ہیں، جن سے ہمارے محاذوں کا خلا  پُر ہو۔

یہ کام فرض کفایہ ہے۔ اگر تمام مجاہدین نے چھوڑ دیا تو بلااستثناء سب گناہ گار ہوں گے۔ یہ کام جہاد اور قتال کے برابر ہے، بلکہ بجائے خود جہاد ہے۔ عرب لوگ سفر کے لیے حُدی خوانوں کو کرایہ پر لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ کام کیا ہے۔ جب ایک انسان یا حیوان سفر میں ایسی حُدی کی ضرورت رکھتا ہے، تاکہ سفر کی طاقت پیدا ہو سکے تو کیا مجاہدین کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں، جو ان کی خبریں، تصاویر اور پیغامات نشر کریں، تاکہ مجاہدین کے کام میں اُن کا ہاتھ بٹایا جا سکے۔ ان لوگوں سے زیادہ کون اَجر کا مستحق ہو گا، جو جہاد کے لیے ترغیب دے۔ مجاہدین کا دفاع کرے۔ ان کی خبریں نشر کرے۔ اس طرح مسلمانوں کے دلوں کو خوش کرے۔ خدا کی قسم! اگر مَیں یوں کہوں تو گناہ گار نہ ہوں گا کہ میڈیا کا کام کرنے والے مجاہدین کو بہت سے اُن مجاہدین سے زیادہ اجر ملتا ہے، جو دشمن سے براہ راست لڑتے ہیں۔

ہماری بہت سی کوششیں اسی لیے ضایع ہو جائیں گی اور دشمن اسے چوری کر لیں گے، اگر ہمارے پاس میڈیائی بریگیڈ نہ ہو، جو اس کی ذمہ داری قبول کریں اور اسے سچی اور حقیقی صورت میں نشر کریں۔ ہمارے بارے میں جو جھوٹ پھیلایا جاتا ہے، اس کا واحد علاج یہی ہے کہ ہم بھی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اطلاع دیں گے کہ یہ بات جھوٹ ہے۔ بہت سے مسلمان نوجوان کفریہ مطبوعاتی کوششوں کی وجہ سے ہم سے بدظن کر کے الگ کر دیے جاتے ہیں۔ بہت مرتبہ ہم صادقین اور نیک لوگوں کی دعاؤں سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ہماری باتوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ بہت سے مجاہدین کے حوصلے اُس وقت بڑھتے ہیں، ترقی کرتے ہیں اور بہت سے مجاہدین اس وقت خوش ہوتے ہیں، جب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ مسلمان ہماری کامیابی اور فتوحات سے خوش ہو رہے ہیں۔ اسی خوشی میں اُن کے دل مزید قربانی دینے اور جان قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہماری قربانی ضایع نہیں جا رہی، بلکہ اس سے مجاہدین کی حمایت اَور بھی بڑھے گی تو یہ لوگ بہت بہادری سے آگے بڑھتے ہیں اور قربانی دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ میڈیا کے شعبے میں کسی بھی قسم کی کمزوری عسکری جنگ کی کمزوری سے زیادہ نقصان رکھتی ہے۔ مطبوعاتی شعبے میں غلطی کا نقصان بھی میدان جنگ کی غلطی سے زیادہ نقصان دہ ہے۔

خدا کی قسم! جو مجاہدین اس میڈیا کے میدان میں کام کرتے ہیں اور دن رات ایک کرتے ہیں، ان کا ثواب ان لوگوں کے ساتھ ثواب میں برابر ہے، جو محاذوں پر پہرہ دیتے ہیں۔ اس مجاہد کو اس کے اپنے رت جگے کا ثواب بھی دیا جاتا ہے اور اس عالم کے رت جگے کا ثواب بھی دیا جاتا ہے، جو شریعت کے ایک مسئلے کی تحقیق کے لیے رات جاگ کر گزارے۔ اگر اس حال میں موت آئے کہ اخلاص اور ثواب کی نیت سے اپنا کام جاری رکھا ہوا تھا تو یہ مطبوعاتی مجاہد اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ ایک جگہ اُٹھے گا، جو بمباری یا گولیوں کا نشانہ بنے۔ وہ آنکھ جو مطبوعاتی  کام میں جاگتی رہی، یہ اس آنکھ کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں پہرہ دے۔

مَیں نصیحت کے طور پر مجاہدین رہنماؤں سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا ساتھی ملے، جو مطبوعاتی کام کر سکے اور صحیح طریقے سے یہ کام کر سکتا ہو، مگر پھر بھی اس کام سے احتراز کرتا ہو تو اسے جہاد و قتال سے منع کر دیں، تاکہ اُسے اپنے نفس کو خوش کرنے کا موقع نہ ملے۔ کیوں کہ ایسے کام کو چھوڑنا، جو جہاد کے مصالح میں سے ہو اور اس کی جگہ ایسے کام  کرنا، جن میں اسے وقتی لذت حاصل ہوتی ہو، یہ ایک قسم کی نفس کی پیروی ہی ہے۔ یہ شرعی جہاد اس طرح سے نہیں ہوتا۔

اللہ تعالی ایسے اعمال کی توفیق عطا فرمائے، جس پر وہ خوش اور راضی ہو۔ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔