ملک میں پائیدار امن کے حوالے سے امارت اسلامیہ کا عادلانہ مؤقف

سب کو معلوم ہے کہ 23 اور 24 جنوری 2016ء کو مملکت قطر کے دارالحکومت دوحہ شہر میں پگواش عالمی تنظیم نے وطن عزیز کے مسائل کے حل کی خاطر دو روزہ تحقیقاتی کانفرنس منعقد کی، جس میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے اعلی سطحی وفد کی جانب سے کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے […]

سب کو معلوم ہے کہ 23 اور 24 جنوری 2016ء کو مملکت قطر کے دارالحکومت دوحہ شہر میں پگواش عالمی تنظیم نے وطن عزیز کے مسائل کے حل کی خاطر دو روزہ تحقیقاتی کانفرنس منعقد کی، جس میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے اعلی سطحی وفد کی جانب سے کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے مؤقف کو 14 صفحات میں پیش کیا گیا۔

امارت اسلامیہ کے بیان میں درج ذیل نکات قابل ذکر ہیں:

ملک میں تقریبا  چار دہائیوں کے سانحات کا بنیادی عنصر بیرونی مداخلت اور حملے ہیں۔ جنگوں کو ہم پر مسلط کیے گیے ہیں۔ مسائل طاقت اور جنگ کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے ۔ جارحیت کا خاتمہ اور اسلامی نظام کا قیام امارت اسلامیہ کا عظیم مقصد ہے۔ امارت اسلامیہ کے لیے رسمی دفتر، الزام اور انعام کے فہرستوں کا خاتمہ، قیدیوں کی رہائی اور زہرے پروپیگنڈوں سے دستبردار ہونا، صلح کے مقدماتی ضروریات ہیں۔ امارت اسلامیہ ہر قسم کے تعصب کے بغیر عوام کی خدمت کو اپنی ایمانی  اور وجدانی فریضہ سمجھتی ہے۔ اسلامی اصولوں اور قومی مفادات کی روشنی میں  سول سرگرمیاں، بیان کی آزادی اور حقوق نسواں کے لیے خود کو وفادار سمجھتی ہے۔ عوام کے بچوں کے لیے تعلیم کے ماحول کو سازگار بنانے، قومی تنصیبات اور عام المنفعہ اثاثہ جات کا تحفظ اور تعمیر کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ ٹاپی پروجیکٹ سمیت تمام ان عام المنفعہ منصوبوں کا حمایت کرنا، جن میں ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی اور سکون موجود ہو۔ باہمی  احترام کے بنیاد پر ہمسائیہ ممالک سمیت دنیا کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر پگواش تنظیم  کے انتظامیہ کی جانب سے پیش کی جانے والے فیصلے میں امارت اسلامیہ کے   جرائت مند اور معقول  مؤقف کا نہ صرف تائید کیا گیا، بلکہ امارت اسلامیہ کے مطالبات کو حقیقی صلح کے لیے ضروری سمجھے گئے۔ مثال کے طور پر  بیان میں یوں تحریر ہے :

1: صلح افغانوں کی فوری ضرورت ہے، کئی دہائیوں کی جنگ کو افغانوں پر مسلط کی گئی ہے……

2: افغانستان کی خودمختاری، امن و سلامتی بات چیت کےذریعے آسکتی ہے اور بیرونی افواج مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائیں۔ 3 : بیرونی  قوتیں صلح کے امور اور منصوبے میں کسی قسم کا دخل اندازی نہ کریں۔5: بلیک لسٹ کا مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے اور طالب رہنماؤں کے دوروں سے پابندیاں اٹھالی جائیں…… سب نے تسلیم کرلیا کہ طالبان کا خصوصی دفتر ہونا چاہیے۔ 8 :عوام کی زندگی کا تحفظ اور  ان کے نقصانات کا روک تھام، تمام شرکاء کا  مطالبہ تھا…..۔……… 9 :افغانستان کی حکومت اسلامی ہونی چاہیے۔ موجودہ آئین کے  ترمیم کی ضرورت ہے، اختیارات کا انحصار نہیں ہونا چاہیے۔ مذہب کے نام اور ذاتی پس منظر کے متعلق عوام سے برا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ 14 : اسکول ، ہسپتال، ملک کے ذخائر اوران سے ملے جلے  قومی اثاثوں کا مشترکہ طور پر تحفظ کیا جائے اور جو افراد ان تاسیسات کے خلاف عمل پیرا ہیں، انہیں عدالت کے کہٹرے میں لایا جائیں۔ 17 : تمام شرکاء نے بیرونی دنیا سے تعلقات استوارنے پر اصرار کیا۔ دنیا سے دو جانبہ تعلقات کا خیرمقدم کیا، اس شرط پر کہ باہمی احترام پر مبنی ہو….

 کانفرنس میں شریک اہم افغانی شخصیات، سیاسی اشخاص اور مختلف ممالک کے نمائندوں نے وطن عزیز میں  پائیدار امن کے حوالے سے امارت اسلامیہ کی جانب سے پیش کردہ عادلانہ اور جرائت مندانہ  مؤقف کو سراہا  اور کئی دہائیوں سے  افغان تنازعہ کے حل کی جانب اسے  اہم قدم تصور کیا گیا۔

اب بین الاقوامی برادری باالخصوص مقابل فریق پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک صلح کے لیے حقیقی  طور پر مخلص ہیں  ،کہ وہ  مذکورہ عالمی تنظیم اور شرکاء کے خیالات اور مطالبات کو مثبت جواب دے سکتا ہے۔