مولوی نور قاسم حیدری شہید حیات اور کارناموں پر ایک نظر

عبدالرؤف حکمت ۱۳۹۳ هـ ش سال کے مہینے حمل کے ۱۸ کو ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ صوبہ کنڑ ضلع شیگل میں اسی صوبے کے طالبان کے عسکری امور کے ذمہ دار اور گورنر امریکی ڈرون طیاروں کے حملے میں شہید ہوگئے ۔ معمول کے مطابق مولوی نورقاسم حیدری کی شہادت کی خبر روزانہ کی […]

عبدالرؤف حکمت

۱۳۹۳ هـ ش سال کے مہینے حمل کے ۱۸ کو ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ صوبہ کنڑ ضلع شیگل میں اسی صوبے کے طالبان کے عسکری امور کے ذمہ دار اور گورنر امریکی ڈرون طیاروں کے حملے میں شہید ہوگئے ۔

معمول کے مطابق مولوی نورقاسم حیدری کی شہادت کی خبر روزانہ کی عام خبروں کی طرح میڈیا پر نشر ہوئی ۔ مگر اس مجاہد کی شہادت معمولی واقعہ نہیں تھا ۔ اسی روز دراصل خوست کے مومن عوام اپنے ایک بہادر سپوت سے محروم ہوگئے ۔

جی ہاں مولوی نور قاسم وہ مجاہد تھے جو قحط الرجال کے اس دور میں نہ صرف میدان جہاد میں ایک ناقابل شکست ، بہادر اور مخلص رہنما کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے بلکہ اپنے ساتھی مجاہدین کے درمیان مقامی سطح پر وہ ایک موقف رکھنے والے سمجھدار رہنما تھے ۔ ان کی شہادت پر بہت سے دل رنجیدہ ہوگئے ۔

آئیے کچھ دیر نامور مجاہد کی حیات ، کارناموں اور شخصیت کی یادیں تازہ کریں ۔

پیدائش اور تعلیم:

نورقاسم حیدری حاجی محسن کے بیٹے تھے ۔ ان کی پیدائش 1352ہجری شمسی سال کو افغانستان کے صوبہ خوست ضلع صبریو کے گاوں “نیک نام “میں ایک دیندار خاندان میں ہوئی ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بچپن میں اپنے علاقے میں امام مسجد سے حاصل کی ۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد ہجرت کے دوران پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مختلف مدارس میں دینی تعلیم کا حصول جاری رکھا ۔  انہوں نے اپنی باقاعدہ تعلیم کوہاٹ میں شروع کی ۔ اس کے بعد ہنگو کے مضافات میں واقع” درسمند” کے علاقے میں مدرسہ رحمانیہ ، میرانشاہ منبع العلوم ، خوست مدرسہ منبع الجہاد ، وزیرستان مدرسہ ریاض العلوم ، ہنگو کاہی کے علاقے میں مدرسہ سراج العلوم اور افغانستان اور پاکستان کے دیگر مدارس میں دینی تعلیم جاری رکھی ۔ یہاں تک  کہ دینی علوم کی فراغت کی سند آپ نے 1376ہجری شمسی سال ہنگو کے مضافاتی علاقے زرگری میں واقع مدرسہ  جامعۃ العلوم الاسلامیہ میں مشہور مدرس شیخ بہرہ مند صاحب سے حاصل کی ۔

مولوی نور قاسم حیدری صاحب نے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی جہادی سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ سال کے دوران وہ کچھ عرصہ محاذ پر اور کچھ عرصہ مدارس میں رہے ۔ دینی علوم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ خوست ضلع صبریو کے علاقے مچی میں مدرسہ شمس العلوم میں مہتمم اور مدرس کی حیثیت ذمہ داری نبھاتے رہے ۔ اس مدرسے کا سنگ بنیاد انہوں نے 1371ہجری شمسی سال کو رکھا ۔ جو اب تک فعال ہے  اور حیدری شہید صاحب کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔ یہاں طالبان علوم نبوت دینی علوم حاصل کے لیے اب بھی آتے ہیں ۔

کمیونزم کے خلاف جہاد :

مولوی نور قاسم حیدری صورت اور سیرت ہر لحاظ سے جہادی اور مزاحمتی زندگی کی ایک مجسم تصویر تھے ۔ ان میں راہ اسلام کے ایک سرفروش مجاہد کی تمام خصوصیات موجود تھیں ۔ گویا اللہ تعالی نے انہیں صرف اپنے دین کے دفاع اور کفر کے مقابلے میں لڑنے کے لیے پیدا کیا تھا ۔ اس لیے انہوں نے اپنی ساری زندگی جہاد کے لیے وقف کردی تھی ۔ان کی گفتگو ، سوچ اور ہر اقدام جہاد کے حوالے سے ہوتا تھا ۔ وہ بچپن ہی میں سوویت یونین اور ان کے کمیونسٹ کٹھ پتلیوں کے خلاف لڑے ۔ عین جوانی کے دور میں شر اور فتنے کے خلاف جہادی محاذوں کی حفاظت اور نسبتا ادھیڑ عمر میں امریکی طاغوت کے خلاف مسلح جہادی محاذ اس وقت تک گرم رکھا جب تک انہوں نے شہادت کا جام نوش فرمایا ۔

حضرت شہید رحمہ اللہ کی جہادی زندگی ، بہادری اور کارناموں کی داستان بہت طویل ہے ۔ یہاں ہم مختصر الفاظ میں ان کی خدمات کی جانب اشارہ کریں گے ۔

سوویت یونین کے کے سرخ لشکروں کا ہجوم جب افغانستان پر ٹوٹ پڑا تو ہزاروں کی تعداد میں مسلح روسی فوج خوست میں تعنیا ت کی گئی تھی ۔ اس وقت جب صوبہ خوست اسلام اور کمیونسٹ کفر کے درمیان گرم معرکے کا میدان کارزار بنا ہوا تھا اور روسیوں کی کثرت کی وجہ سے اسے دوسرے ماسکو کا نام دیا جارہا تھا اس وقت نورقاسم حیدری ابھی بہت کم عمر تھے انہوں نے صوبہ خوست میں باک ، علیشیرو ، جاجی میدان ، یعقوبی ، ژورہ اور تورہ غاڑہ کے علاقوں  میں کمیونزم کے خلاف جہادی کارروائیوں میں حصہ لیا ۔ وہ بچپن ہی میں گولیوں کی بارش ، اسکڈ میزائلوں کے دھماکوں اور روسی میگ اور برگیو کی بمباریوں کے عادی ہوگئے تھے ۔ وہ اسی میں پل کر بڑے ہوئے تھے ۔ وہ خوست کے علاقے بڑی میں زخمی ہوگئے اس طرح اللہ کی راہ میں خون بہانے کا ذائقہ بھی انہوں نے چک لیا ۔ کفری لشکر سے آمنے سامنے لڑنے اور کمیونزم کی چیک پوسٹوں پر چڑھ دوڑنے کا عملی تجربہ انہوں نے  کیا ۔ خوست کی فتح کے بعد کمیونزم کا تصفیہ کرنے کے لیے دیگر مجاہدین کے ساتھ پکتیا کے مرکز گردیز چلے گئے ۔ سٹو کنڈو ، مچلغو اور گردیز شہر کے مضافات میں دیگر علاقوں میں کمیونسٹوں کے خلاف سخت جنگ اور معرکوں کے میں حصہ لیا اور اس وقت تک جہاد کو جاری رکھا جب تک کہ کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔

تنظیمی دورے کے اواخر میں مولوی عبدالحکیم شرعی صاحب کی قیادت میں خوست میں نظم وضبط کے قیام اور فساد کے خاتمے کے لیے جو تشکیلات فعال کی گئیں ان میں مولوی حیدری صاحب بھی شریک رہے ۔ انہوں نے عام لوگوں کے مال وجان کی حفاظت کے لیے بڑی خدمات انجام دیں ۔

اسلامی تحریک طالبان میں خدمت:

1373ھجری شمسی سال کو جب تحریک اسلامی طالبان کا قندہار میں ظہور ہوا مولوی نور قاسم حیدری جو اس وقت دینی تعلیم کے حصول میں مصروف تھے صوبہ خوست کے کچھ طلباء کے ہمراہ قندہار گئے ۔ اور تحریک کے ابتدائی مراحل ہی میں تحریک میں شامل ہوگئے ۔ وہ ملابورجان شہید ، ملامشر شہید اور اسلامی تحریک کے دیگر رہنماوں کے ساتھ غزنی اور میدان وردگ سے دشمن کا صفایا کرنے میں شریک رہے ۔ یہاں تک کہ طالبان کی تحریک خوست تک پہنچ گئی ۔ اس وقت جب طالبان کی جنگی صف کابل چہاراسیاب میں تھی ۔ مولوی نور قاسم خوست سے تعلق رکھنے والے 70 طالبان کے ساتھ اس وقت چہاراسیاب پہنچے ۔ یہ لوگ اس وقت چہارا سیاب پہنچے جب انہیں دنوں طالبان ہمزنگ اور کارتہ سیاہ کے علاقے حزب وحدت سے خالی کراچکے تھے ۔ مولوی نور قاسم کابل شہر کے جنوب مغرب میں انہیں علاقوں میں داخل ہوگئے ۔ بعد میں انہیں علاقوں میں احمد شاہ مسعود نے طالبان پر اچانک حملہ کردیا سخت جنگ کے بعد مولوی  نور قاسم صاحب زخمی ہوگئے ۔

اسی وقت  کے ان کے ایک رفیق کا کہنا ہے : طالبان اور احمد شاہ مسعود کے آدمیوں میں اس سے قبل کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی ، ایک دوسرے کے بہت قریب رہتے تھے ۔ سہ پہر کا وقت تھا جب احمد شاہ مسعود نے اچانک حملہ کردیا ۔ یہیں سے جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ ہم سڑک کے ایک جانب تھے اور دشمن دوسری جانب 5،6میٹر کے فاصلے پر ۔ تھوڑی دیر جنگ کے بعد میں زخمی ہوگیا ۔ میں نے مولوی حیدری سے کہاہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے ۔ انہوں نے انتہائی اطمینان سے کہا چپکے سے کہیں آرام سے بیٹھ جاو میں دشمن پر حملے کروں گا جب تک راستہ خالی   نہ ہوجائے ۔ ان کے پاس راکٹ لانچر تھا ۔ انہوں نے دشمن پر مسلسل حملے کیے جس میں دشمن کے بہت سے آدمی مارے گئے ۔ اس جنگ کے دوران ایک ساتھی نے مولوی صاحب سے کہا قریبی عمارت میں دشمن کے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں جن کے پاس 62مشین گن ہے ۔ آپ سرنہ اٹھائیں کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچادیں ۔ مولوی حیدری نے لانچر میں راکٹ کا گولہ فٹ کیا اور کہا میں پہل کردوں گا ۔ مگر جیسے ہی انہوں نے فائر کرنے کے لیے سراٹھایا راکٹ کے فائر سے قبل مقابل جانب سے 62مشین گن کی فائرنگ ہوگئی ۔ جس سے ایک بڑا دھماکا ہوا ۔ مولوی حیدری صاحب کے سر پر پرزے لگ گئے اور وہ موقع پر ہی بے ہوش ہوگئے ۔

انہیں جب ہوش آیا تو باوجود اس کے کہ وہ شدید زخمی تھے پھر بھی ہمارے ساتھ چہار آسیاب کی جانب چلنے لگے ۔ اس وقت طالبان کابل کے مغرب کی جانب واپس انخلاء کرنے والے تھے ۔ ہم چہار آسیاب پہنچ گئے ۔ اور چونکہ مولوی صاحب شدید زخمی تھے اس لیے ہم نے انہیں خوست پہنچادیا ۔ خوست کے ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ان کا ایکسرے کرنے کے بعد جب ان کے سر کا زخم دیکھا تو حیران رہ گئے کہ وہ زندہ کیسے ہیں ۔ حالانکہ ان کی سرکی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور پرزے ان کے دماغ میں پیوست ہوگئے تھے ۔ ڈاکٹروں نے کہا اس کا علاج ہمارے بس کا نہیں ۔ اس کے بچنے کے امکانات بھی بہت کم ہیں ۔ ڈاکٹروں کی جانب سے جواب ملنے کے بعد ہم نے انہیں پشاور پہنچادیا ۔ وہاں بھی جب ڈاکٹروں نے دماغ کا زخم دیکھا تو آپریشن سے انکار کردیا ۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا اس کا زخم بہت حساس ہے ۔ اس کا آپریشن اگر ہوجائے تو یہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے ۔ بہتر یہ ہے کہ انہیں گھر پہنچادو تاکہ اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے رشتے داروں کے ساتھ گزار سکیں ۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کے شدید زخم کے ساتھ ساتھ ہم حیران ہیں کہ وہ زندہ کیسے ہیں ۔ اور پھر اپنے پاوں پر چل بھی رہے ہیں ۔ ان ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ صرف اس مجاہد کی کرامت ہوسکتی ہے اور بس  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مولوی صاحب کو جب ڈاکٹروں کی جانب سے ڈاکٹروں کے اس جواب کی خبر ملی تو انہوں  نے یہ آیت پڑھی : اذا جاء اجلهم لایستأخرون ساعة ولا یستقدمون . یعنی موت اپنے وقت پر آتی ہے کبھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتی ۔

ڈاکٹروں کی جانب سے مایوس ہونے کے بعد ساتھی انہیں خوست  میں اپنے گھر لے جانے سے قبل خوست ہی میں بادشاہ زار نامی ڈاکٹر کے پاس لے گئے کہ اپنی بساط کی حد تک ان کا علاج کردیں ۔ اس ڈاکٹر نے کہا کہ مولوی صاحب کا زخم بہت گہرا اور حساس ہے۔ آپریشن بہت خطرنا ک ہوگا اور اس آپریشن کی کامیابی کے صرف دس فیصد امکانات ہیں ۔  میں اس شرط پر آپریشن کروں گا کہ اس کے خاندان والے اور ساتھی تحریری اجازت دیں ۔ ساتھیوں نے مشورے کےبعد ساتھیوں اور رشتہ داروں سے تحریری اجازت نامہ لایا اور ڈاکٹر صاحب نے آپریشن کا آغاز کردیا ۔ ساتھیوں نے سورۃ یسین کا ختم اور ماثورہ دعاوں کا وردشروع کردیا ۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے خوشخبری دی کہ مولوی صاحب کا آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اور ان کے اعصاب سے ہڈی نکال لی گئی ہے ۔

امریکیوں کے خلاف جہاد :

اسی آپریشن کے نتیجےمیں مولوی صاحب کے سر کا زخم بالکل ٹھیک ہوگیا ۔ مگر ڈاکٹر نے انہیں بہت ہدایت کی تھی کہ اب بہت عرصے تک جہاد میں شرکت نہیں کروگے اور نہ راکٹ لانچر کا فائر کروگے ۔ مگر مولوی صاحب کا جذبہ جہاد بہت غالب تھا ۔ صحت یابی کے بعد وہ ایک بارپھر جہادی صفوں کی جانب چلے گئے اور پھر امریکی جارحیت تک جہادی صفوں میں لڑتے رہے ۔ وہ چاریکار کی جنگ میں ایک بارپھر زخمی ہوگئے اور اس وقت شر وفساد کے خلاف جہادی رکھا جب تک امریکی فوج نے افغانستان پر جارحیت کی ہے ۔

افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد مولوی نورقاسم صاحب ان اولین مجاہدین میں سے تھے جنہوں نے صوبہ خوست میں امریکیوں کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کردیا ۔ ان کی مدبرانہ قیادت کی برکت سے صوبہ خوست کا ضلع صبریو ایک ناقابل شکست محاذ بن گیا ۔ یہاں امریکیوں کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ۔ یہاں کے عوام پر ہر طرح کے مظالم ڈھانے اور خوست کے دیگر علاقوں سے بھی ہزاروں افراد کی گرفتاری کے باوجود یہاں کے عوام سے جہاد کا جذبہ ختم نہیں ہوسکا ۔

مولوی نورقاسم صاحب کچھ عرصہ خوست صبریو میں جہادی امور کے سربراہ رہے ۔ اس کے بعد بہت عرصے تک عمومی جہادی ذمہ دار اور صوبائی گورنر رہے اور یہاں بہت بڑی جہادی خدمات انجام دیں ۔

وہ بذات خود جنگوں میں شریک رہتے ۔ آپریشنوں کی کمان خود کرتے ۔ خوست کے چار اضلاع باک ، علی شیر ، صبری اور قلندر اسی طرح پکتیا کے مضافات میں واقع ضلع جانی خیل انہوں نے باربار فتح کیے ۔ خوست بھر میں دشمن کی چیک پوسٹیں باربار انہوں نے فتح کیں ۔ ان حملوں سے دشمن کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانے پڑے اور بار بار بھاری مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا ۔

خوست میں ایک شدید لڑائی جس میں وہ زخمی ہوگئے خوست ضلع علیشیر کا آپریشن تھا ۔ اس آپریشن میں انہوں نے دشمن کے بہت سی چیک پوسٹیں ختم کیں اور صوبائی مرکز تک پہنچ گئے ۔ جیسے انہوں نے ضلعی مرکز پر حملہ کیامجاہدین کے پاس وسائل کم ہوگئے ۔ اس دوران ان کے قریبی ساتھی اور بہادر مجاہد ملا مصطفی شہید ہوگئے ۔ مولوی حیدری نے ساتھیوں سے کہا اسلحہ کم ہونے کی وجہ سے ہمیں شہید کو لے کر واپس پسپا ہوجانا چاہیے ۔ پسپائی کے دوران امریکی ہیلی کاپٹروں کی بمباری سے ان کے کئی ساتھی شہید ہوگئے ۔ وہ خود بھی شدید زخمی ہوگئے ۔ اس بار بھی ان کے زخم انتہائی شدید اور گہرے تھے ۔ ڈاکٹروں کے بقول خطرہ تھا کہ ان کا جسم مفلوج ہوجائے گا مگر ڈاکٹروں کی رائے کے برخلاف اللہ تعالی نے ایک بارپھر انہیں صحت دی ۔ انہیں زخموں سے شفاپانے کے بعد مولوی صاحب ایک بار پھر اپنے ساتھیوں سمیت دشمن کے محاصرے میں آگئے ۔ ساری رات دشمن سے لڑتے رہے ۔ اس جنگ میں ایک بارپھر ان کے سر پر دو گولیاں لگی تھیں ۔ مگر اللہ تعالی ان سے اپنے دین کا کام لینا چاہتے تھے اس لیے وہ زخموں کے باوجود زندہ بچ گئے ۔

خوست میں ان کے آخری دو بڑے آپریشن جس کی قیادت اور ترتیب ان کے ذمہ تھی ایک خوست کے علاقے خلبیسات میں امریکیوں کے بڑے اڈے پر پہلا فدائی حملہ تھا جس کامنصوبہ اور نقشہ مولوی صاحب نے ہی مرتب کیا تھا ۔ اس کارروائی میں فدائی مجاہدین پہلی بارامریکیوں کے اڈے میں داخل ہوگئے ۔ امریکیوں کو سخت نقصان پہنچایا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں 100 سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔

اس آپریشن کے بعد 2006 میں مولوی صاحب کی قیادت میں خوست کے تین اضلاع ، صبریو ، باک اور علیشیر پر ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا گیا ۔ جس سے دشمن کو بھاری نقصانات اٹھانے پڑے ۔ اس آپریشن کے دوران مولوی حیدری صاحب علاقہ خلبیسات میں دشمن کی چیک پوسٹوں پر کارروائی میں شریک تھے ایک بارپھر زخمی ہوگئے ۔ جہادی زندگی میں اس بار وہ چھٹی بار زخمی ہوگئے تھے ۔ اس بار بھی اللہ تعالی نے انہیں گذشتہ کی طرح مکمل شفاء عطاکردی ۔

کنڑ کے صوبائی گورنر کی حیثیت سے:

2012 کے اوائل میں مولوی نور قاسم امارت اسلامیہ کی قیادت کے حکم پر صوبہ کنڑ کے جہادی ذمہ دار متعین کیے گئے ۔ تعیناتی کے بعد وہ خوست سے کنڑ منتقل ہوگئے اور جہادی میدان میں عملی طورپر مجاہدین کو نئے سرے سے منظم کرنا شروع کردیا ۔ اس وقت مجاہدین کے لیے ایک بڑی مشکل دشمن کے پھیلے ہوئے جاسوسوں کی تھی ۔ مولوی صاحب نے اپنے  پروگرام کے ذریعے اپنے خفیہ آدمیوں کو جگہ جگہ تعینات کردیا تاکہ امریکی جاسوسوں کو پہچان کر اسے ختم کردیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے گروپ حملوں کے نئے نئے طریقے رائج کرائے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے کنڑ ، انگام ، اسمار ، غازی آباد ، مانوگی اور ناڑی میں دشمن کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ کردیا جس سے دشمن کو بہت بھاری نقصانات پہنچے ۔ اور مجاہدین کو بہت اہم وسائل اور اسلحہ غنیمت میں ہاتھ آیا۔

مولوی صاحب کے جہادی منصوبوں کے نتیجے میں ناڑی میں دانچہ گل نامی دشمن کا اہم مرکز جس میں 40 تک دشمن کے فوجی موجود تھے مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہوگیا ۔ کنڑ ضلع دانگام میں دشمن کا ارادہ تھا کہ یہاں مضبوط ائیربیس تعمیر کیا جائے ۔ مگر جب مولوی صاحب کو دشمن کے اس منصوبے کی خبر ہوئی تومقابل آپریشن اور حملوں سے دشمن کے اس اقدام کا راستہ روکا ۔

کنڑ میں مولوی حیدری صاحب کی ذمہ داری کے دوران ایک اور اہم کامیابی 1392ھجری شمسی کو ماہ حوت کی چوتھی تاریخ ضلع غازی آباد میں مجاہدین کوملی ۔ اسی روز مجاہدین نے ایک تحقیقی منصوبہ بندی کے ذریعے نیشنل آرمی کے ایک کیمپ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں دشمن کے 25 کے قریب فوجی ہلاک اور 6 افراد زخمی ہوگئے ۔ جبکہ 6 افراد مجاہدین نے زندہ گرفتار کرلیے ۔ اس فتح میں بنیادی کردار ان مجاہدین کا تھا جو نیشنل آرمی کی صفوں میں موجود تھے اور مجاہدین  سے رابطے میں تھے اور مجاہدین کو بیس کے متعلق معلومات فراہم کرتے رہے ۔

کنڑ میں مولوی نور قاسم شہید کا ایک اور کارنامہ مجاہدین کے صفوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا تھا ۔ انہوں نے اس راہ میں بڑی خدمات انجام دیں اور انتہائی پریشانیوں کا سامنا کیا ۔

وہ افغان جو دشمن کی صفوں میں عوامی اور عسکری شعبوں میں کام کررہے تھے انہوں نے سب کو دعوت دی ۔ انہیں خطوط لکھے کہ اس کا م سے دستبردار ہوجاو۔ اس سلسلے میں سینکڑوں لوگ اپنے اطمینان کے بعد دشمن کی صفوں سے باہر آگئے ۔ مولوی نور قاسم نے اپنی ذمہ داری کے ایام میں دعوت وارشاد کا سلسلہ پوری کامیابی سے جاری رکھا ۔ اس سلسلے میں صرف ایک کونڑ کے ضلع شیگل میں 126 افراد جو پہلے دشمن کی صفوں میں کام کررہے تھے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور دشمنی سے دستبردار ہوگئے ۔

حالیہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مولوی نور قاسم صاحب نے اپنے علاقے میں انتخابات سے دس روز قبل مختلف علاقوں کا سفر کیا ۔ تاکہ دشمن کا حربہ ناکام ہوجائے ۔ انہوں پورے کنڑ میں ایک موثر پروگرام تشکیل دیا ۔ تمام مجاہدین کی رہنمائی کی کہ انتخابات کے روز صبح 5 بجے سے دشمن کے مراکز ، چیک پوسٹوں ، ضلعی مراکز اور دیگر سرکاری مقامات پر حملے شروع کردیں ۔ اسی لیے اس روز مجاہدین کی جانب سے 70 بڑے اور چھوٹے حملے صرف کنڑ میں ہوئے ۔ جس میں دشمن کے 88 فوجی ، اربکی اور ان کے متعلقین ہلاک ہوگئے ۔ اور بہت سے دیگر فوجی زخمی ہوگئے ۔ اس طرح اس صوبے میں انتخابات کا مغربی ڈرامہ مکمل طورپر نا کام ہوگیا ۔

مولوی صاحب کی شہادت :

1393 ھ ش سال ۔ ماہ حمل 18 ویں تاریخ کو مولوی قاسم حیدری اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کنڑ ضلع شیگل کے مضافات میں کنڑ کے دیگر محاذوں پر مجاہدین سے ملنے جارہے تھے کہ اچانک امریکی ڈرون ہیلی کاپٹر کے حملے کا شکار ہوگئے جس مولوی قاسم حیدری اپنے تین ساتھیوں مولوی عبدالکریم جانباز ، منصور اورحمید اللہ سمیت موقع پر شہید ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

مولوی نور قاسم کی ابدی خواہش پوری ہوگئی اور وہ شہادت کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے ۔ پس ماندگان میں انہوں نے 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں چھوڑ دیں ۔ رحمہ اللہ تعالی

یادیں اور خصوصیات:

مولوی نورقاسم شہید کے ایک ساتھی مولوی احرار کہتے ہیں : امریکی جارحیت کے باعث  ہجرت کے بعد میں اور مولوی صاحب ایک جگہ ایک مکان میں رہ رہے تھے ۔ وہ گھر دو حصوں پر مشتمل تھا ایک حصے میں ،میں تھا اور دوسرے حصے میں حیدری صاحب رہ رہے تھے ۔ ایک روز حیدری صاحب جہادی سفر پر گئے ۔ واپسی پر منافقین کے حملے کا شکار ہوگئے ۔ اس حملے میں مولوی صاحب کی آنکھوں کے اطراف کی ہڈی زخمی ہوگئی ۔ بس اللہ تعالی نے ان کی آنکھیں محفوظ رکھیں ۔ اسی سفر میں ایک ہسپتال میں کچھ عرصہ زیر علاج رہنے کے بعد مولوی صاحب گھر لوٹے ۔ مجھے علم نہیں تھا کہ مولوی صاحب کو کوئی مشکل پیش آئی ہے ۔ ویسے ہی حال احوال کے لیے میں ان کے پاس گیا ۔ دستک دی تو مولوی صاحب نے دروازے سے باہر دیکھا ۔ میں نے دیکھا وہ بہت شدید زخمی ہیں ۔ میں نے کہا : یہ کیسے ہوا؟ انہوں نے واقعہ بتایا کہ راستے میں منافقین کے ہاتھوں زخمی ہوا ہوں ۔ اب بیٹھ کے بات کرنے کی سکت نہیں ہے ۔ میں نےکہا ٹھیک ہے تم جاوآرام کرو کیوں کہ ان  کی تکلیف بہت زیادہ تھی ۔ وہ نمازمیں سجدہ ادا نہیں کرسکتے تھے ۔ وہ رات گزرنے کے بعد صبح میں نے احوال پوچھا کہ اب کیسے ہوں گے ۔ دروازے پر میں نے دستک دی ۔ باہر آتے ہی میں نے پوچھا کہ کیسے ہو ؟ انہوں نے جواب میں کہا آج ٹھیک ہوں ۔ پھر انہوں نے کہا : رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ مفتی محمد فرید صاحب رحمہ اللہ {دارالعلوم حقانیہ کے مفتی اور شیخ الحدیث }خواب میں آئے اور مجھ سے کہا کہ کل تم ٹھیک ہوجاوگے ۔ حیدری صاحب کے بقول صبح نیند سے جاگا تو میں بالکل ٹھیک تھا ۔ سجدہ بھی ادا کیا ۔ پہلے میں سجدہ نہیں کرسکتا تھا ۔ یاد رہے حیدری صاحب مفتی محمد فرید صاحب رحمہ اللہ کے مسترشد اور تصوف کے اسباق میں چھٹے سبق تک ان سے پڑھے ہوئے تھے۔

امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں ریاست الوزراء کے سیکرٹری اور مشرقی زون کے نگران مولوی عبدالکبیر صاحب کہتے ہیں :

مولوی نور قاسم انتہائی بہادر اور متواضع شخصیت کے مالک تھے ۔ خوست کی سطح پر وہ صف اول کے مجاہدین میں سے تھے ۔ انہوں نے نہ صرف صبریو میں بڑی جہادی خدمات انجام دیں بلکہ پورے خوست میں جہادی کاموں کو وسعت دینے میں ان کا کردار بہت اہم رہا ۔ کنڑ میں ذمہ داری کے ایام میں مجاہدین بھی ان سے خوش رہتے ۔ وہ کافروں کے مقابلے میں انتہائی سخت اور ناقابل شکست تھے اور مسلمان کے مقابلے میں انتہائی نرم ۔ بڑے اور رہنما کے لیے مناسب ہوتا ہے کہ مشکل مراحل میں آگے آگے رہے ، خود کو سختیوں کے مقابلے کے لیے پیش کرے ، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی سخت جنگ میں ثابت قدم رہے ۔تمام صحابہ پسپا ہوگئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لیے خود کو پیش کردیا ۔ مولوی نور قاسم میں بھی ایثار اور فداکاری کی یہ صفت موجود تھی ۔

خوست کے رہائشی شیخ الحدیث مولوی افضل حسین صاحب مولوی صاحب کے متعلق دیکھے ہوئے دو خواب اس طرح سے بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی صاحب کے گرد بہت سے شیر کھڑے ہیں ۔ سب ان کے گرد پہرہ دے رہے ہیں ۔ مولوی صاحب نے ایک شیر سے پنجہ لڑایا ہوا ہے ۔ شیر کا پنجہ نیچے تھا ایسا لگتا تھا کہ شیر نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے ۔

دوسرا یہ کہ: خواب میں دیکھا ایک صندوق ہے جسے مولوی صاحب کے ایک مخالف کھولنے کی کوشش کررہے ہیں خواب ہی میں کسی نے اس سے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مولوی صاحب محترم کے لیے تحفہ ہے کسی اور کو کھولنے کی اجازت نہیں ۔

ایک اور ساتھی جنہوں نے کبھی مولوی صاحب کو دیکھا نہیں تھا ۔ صوبہ کنڑ کی حال ہی میں نشر ہونے والی ویڈیو میں مولوی صاحب کو دیکھ کر اس نے ساتھی سے پوچھا یہ شخص کون ہے ۔ ساتھی نے اسے بتایا کہ یہ مولوی نور قاسم ہیں ۔ قوم صبری اور خوست سے ان کا تعلق ہے ۔ ابھی کنڑ میں جہادی مسئول ہیں ۔ انہوں نے کہا “خدا کی قسم کچھ عرصہ قبل میں نے اسی شخص کو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے دیکھا تھا” ۔

مولوی صاحب کی اقتصادی لحاظ ساری زندگی فقر اور غربت میں رہے ۔ بیت المال کے پیسوں میں سخت احتیاط برتتے ۔ مولوی احرار کہتے ہیں امریکی جارحیت کے اوائل میں مولوی صاحب کو ہجرت کرنا پڑا ۔ ہجرت کے ایام میں وہ ایک ایسے گھر میں تھے جو بالکل رہنے کے قابل نہ تھا ۔ انہیں دنوں روٹی پکانے کے لیے لکڑیا ں بھی پہاڑوں سے وہ  کیکر اور جھاڑیوں کے بوجھ اپنی کمر پر لاد کر لاتے تھے ۔ کبھی کچھ مجاہدین ساتھی ان کے مہمان بن جاتے تو گھر میں صرف ایک کیتلی تھی جس میں چائے بناتے اور مہمانوں کو پلاتے ۔ اس وقت جب مولوی صاحب صوبہ خوست کے جہادی ذمہ دار تھے پھر بھی خود پہاڑوں سے  لکڑیاں اور جھاڑیاں لاتے ۔

مولوی صاحب ظاہری طورپر بہت غریبانہ اور فقیرانہ زندگی گزارتے رہے مگر ان کا ایمانی سرمایہ اور اللہ تعالی کی جانب سے عطاکردہ جرآت اور اخلاص بہت زیادہ تھا ۔ مولوی احرار کہتے ہیں : ایک بار ایک بم گاڑی بنانے اور منتقل کرنے کا کام درپیش تھا ۔ مولوی صاحب خود کام میں لگے ہوئے تھے ۔ ساتھیوں نے بہت اصرار کیا کہ آپ کام نہ کریں ہم زیادہ ہیں کام کرنے کو ۔ ایک گروپ کمانڈر نے کہا کہ جتنے ساتھی درکار ہوں آپ مجھے بتائیں سب حاضر ہوجائیں گے مگر مولوی صاحب مرحوم کا کہنا تھا کہ میں بھی ثواب کمانا چاہتا ہوں ۔ آخر لاجواب ہوکر اس گروپ کمانڈر نے بھی مولوی صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ۔

مولوی احرار حیدری صاحب کی جہادی تیکنیکی مہارت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ محترم مولوی صاحب کی قیادت میں ایک مرتبہ مجاہدین نے خوست ضلع صبریو کے ایک گھر کے بارے میں ایسا مشہور کرنا شروع کردیا کہ یہ مجاہدین کا مرکز ہے ۔ ایک گاڑی میں بارود بھر کر وہاں کھڑی کی ۔ کمروں کے دروازوں کے سامنے بہت سے جوتے اور بوٹ رکھے ۔ ایک فدائی ساتھی اندر کمرے میں بیٹھ گیا ۔ جس کے پاس گاڑی بم کے شارٹ تار تھے ۔ رات کو تین یا چار ہیلی کاپٹروں میں امریکی چاپہ مارنے کے لیے آئے اور گھر میں داخل ہوکر پکارنے لگے کہ ہتھیار ڈالدو ۔ اس وقت فدائی مجاہد نے بم دھمکا کردیا ۔ جس میں درجنوں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔ بعد میں مزید امریکی فوجی ان زخمیوں اور مردوں کو منتقل کرنے کے لیے وہاں پہنچے ۔ ساتھیوں نے گھرکے  ارد گرد بارودی سرنگوں کے تاربچھا دیے ۔ اور سب کو اس ترتیب سے فٹ کیا تھا کہ سب ایک ساتھ پھٹ جائیں ۔ جب امریکی اپنے زخمیوں کو اٹھانے میں مشغول ہوگئے ساتھیوں نے بارودی سرنگوں کے دھماکے کردیے ۔ اس دھماکے میں بھی کافی تعداد میں امریکی ہلاک ہوگئے ۔ عینی شاہدین کے مطابق اس کامیاب کارروائی میں ہلاک اور زخمی ہونے والے امریکیوں کی تعداد 100 سے بڑھ کر تھی ۔

مولوی نور قاسم حیدری صاحب کی جہادی زندی کے واقعات اور کارنامے بہت زیادہ ہیں ۔ سب کا احاطہ کرنا اس تحریرمیں ممکن نہیں ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس عظیم مخلص مجاہد کی قربانیاں اللہ تعالی اپنے دربار میں قبول فرمائے اور ان کے  برکات ان کے خاندان او رساتھیوں میں جاری وساری رکھے ۔ آمین یارب العالمین