نئی فتوحات اور امریکہ کی طفلانہ حرکات

ماہنامہ شریعت کا ادریہ ہم جانتے ہیں کہ اس مادی دنیامیں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو تمام امورمیں امریکہ کی برابری کا دعویٰ کرسکے یا خود کو اس سے بڑا سمجھے ،امریکا کے مادی وسائل تک کسی بھی ملک کے وسائل نہیں پہنچ سکتے ۔انہی وسائل اور منظم  حکومت نے امریکا کو تکبر وغرور […]

ماہنامہ شریعت کا ادریہ

ہم جانتے ہیں کہ اس مادی دنیامیں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو تمام امورمیں امریکہ کی برابری کا دعویٰ کرسکے یا خود کو اس سے بڑا سمجھے ،امریکا کے مادی وسائل تک کسی بھی ملک کے وسائل نہیں پہنچ سکتے ۔انہی وسائل اور منظم  حکومت نے امریکا کو تکبر وغرور میں مبتلاکیاہواہے ۔غروروتکبرکے ساتھ ساتھ امریکا میں مادیات کی حرص  بھی بہت زیادہ ہے ۔

امریکیوں میں اوربھی بہت ساری اخلاقی کمزوریاں موجود ہیں لیکن یہ دو کمزوریاں یعنی غرور اور مادیات کی حرص ایسی کمزوریاں ہیں جنہیں امریکا کے تمام غلط فیصلوں اور پھر غلط فیصلوں کے نتیجے میں ملنے والی ناکامیوں کی اصل وجہ کے طورپر جاناجاتاہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے کوریا، ویتنام ،ڈومیکن ،لبنان،گریناڈا،پانامہ ،عراق ،صومالیہ ،ہیٹی،بوسنیا،کوسوو،افغانستان اورپھر عراق پر حملے کئے ،ان تمام ترحملوں کا مقصداورہدف صرف اورصرف یہی تھا کہ پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے پوری دنیا کے وسائل پر ہاتھ صاف کرے ۔افغان جہاد کی  کامیابی کے نتیجہ میں  روس کی شکست کے بعد    جب دنیا امریکا کو واحد سپر پاورسمجھنے لگی تو امریکا  کی حیثیت ہی بدل گئی پھرنہ تواسے کوئی طاقت ،طاقت دکھائی دیتی  اورنہ ہی اسے یہ گمان تھا کہ کوئی اس کے مقابلے کے لیے میدان میں اترسکتاہے ،شائد یہی وجہ تھی کہ اس نے بنااس کے کہ افغانوں کی تاریخ دیکھی ہوتی ،ان کی مزاج سے آگاہی حاصل کرلی ہوتی یاکم ازکم انگریزوں اورروسیوں کی شرمناک شکست کوسامنے رکھ لیا ہوتا،افغانستان میں قائم امن وامان سے بھر پورسچااسلامی نظام درہم برہم کرنے اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک پر اپنا قبضہ جمانے کی خاطرافغانستان پر حملہ کردیا ۔

چونکہ امریکہ کا افغانستان پرحملہ اپنے  مذموم اہداف کے حصول  اوردائمی قبضے کے لیے تھا اس لئے حملہ کے وقت   نہ اس نے کوئی ٹائم ٹیبل بنا کر پیش کیا اورنہ اس نےکوئی وضاحت کی تھی  کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں کب واپس بلائے گا ۔لیکن جب مجاہدین ان کے مقابلے کے لیے میدان جنگ میں کودپڑے ،جنگ  میں روز بہ روز تیزی آنے لگی، امریکی فوجیوں کی جانی ومالی نقصانات میں آئے روز اضافات ہونے لگے اورافغانستان میں موجود امریکی اوردیگر اتحادی ممالک کے فوجی مجاہدین کے مقابلے سے قاصرہونے لگے تو سنہ2006 میں جارج ڈبلیوبش نے مزید فوجی افغانستان بھیجے ۔ یہ وہ وقت تھا جب بارک اوباما سنیٹرتھے اس نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تمام ترتوجہ عراق سے ہٹاکر افغانستان پر مرکوز کرے۔اورپھر جب صدارتی انتخابات میں بارک اوبامہ کامیاب قرارپائے تواس نے فوراً افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا اعلان کیا ۔لیکن جب اوباماکےاس اعلان نے مجاہدین پر کوئی منفی اثرنہیں کیا اور مجاہدین کی طرف سے لڑائی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ لڑائی میں مزید شدت اورامریکی نقصانات میں  اضافہ ہونے لگا توامریکی عوام کی طرف سے افغانستان سےفوج واپس بلانے کے مطالبات سامنے آناشروع ہوگئے ۔امریکیوں کی ناامیدی کے اس عالم میں بارک اوبامانے اعلان کیا کہ 2011کے بعد افغانستان سے فوجیوں کی انخلاء کاپروگرام  ترتیب دیا جائے گا ۔

2014میں اشرف غنی اورعبداللہ کے کٹھ پتلی ادارے کے قیام کے ساتھ ہی امریکہ اورنیٹوکے ساتھ وطن فروشی کے معاہدے پر دستخط ہوئے تو امریکہ نے اپناپروگرام تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 2014 کے بعد بھی امریکہ کے 9800اورنیٹو کے 2000فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے جبکہ 2016میں یہ تعداد نصف تک کم ہوجائے گی ۔

مجاہدین کی طرف سے کندز شہر فتح کرنے کے بعد امریکہ نے ایک بارپھر اپنا راستہ تبدیل کرلیا اوراعلان کیا کہ وہ 2016کے آخرتک اپنے 9800فوجی افغانستان میں رکھے گا اور2017کے پہلے مہینے میں یہ تعدادکم ہوکر 5500تک آجائے گی ۔اب اس نے  پھر اعلان کیاہے کہ افغانستان میں ہمارے 9800  نہیں بلکہ 8400فوجی موجود رہیں گے اوراس کے ساتھ ہی 800تازہ دم فوجی بھیجنے کا بھی اعلان کیاہے ۔جبکہ مجاہدین کی فتوحات کا راستہ روکنے اور اپنی کٹھ پتلیوں کو تسلی اوردلاسہ دینے کے لئے اپنے 100فوجی ہلمند بھیج دیئے ہیں ۔

وہ امریکہ جو دائمی قبضے کاخواب لے کر افغانستان پرحملہ آورہواتھا ،آج اس حال میں ہے کہ اسے بھاگنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا کبھی فوجیوں کے واپس جانے کے اعلانات کرتاہے اورکبھی افغانستان میں مزید قیام کی باتیں کرنے لگ جاتاہے ۔کبھی کہتا ہے فوجیوں کی تعداد کم کرنی ہے اورکبھی بڑھانے کی بڑھکیں مارتارہتاہے ۔کبھی کہتاہے کہ افغانستان میں موجودہمارے فوجی لڑائی کے لئے نہیں بلکہ افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے قیام پذیر ہیں اورپھر اچانک میدان جنگ میں کودپڑتے ہیں ۔امریکاکی یہ غیرمستقل حالت اس بات کی ایک بڑی  دلیل ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکا کاموقف انتہائی متذبذب ہے ۔

بعض لوگوں کااب بھی یہ خیال ہے کہ افغانستان سے متعلق امریکی موقف بہت مضبوط اورمستقل بنیادوں پر قائم ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ مجاہدین کے پے درپے حملوں اور کمرتوڑ ضربوں نے امریکا کی ساری مضبوطی تہس نہس کردی ہے ۔بے چاروں کو جب کبھی تھوڑا سستانے کاموقع مل جاتاہے توکہتے ہیں کہ ہم ایک سال مزید افغانستان میں رہیں گے لیکن پھر جب مجاہدین کی ضربیں پڑتی ہیں اورمجاہدین کی فتوحات میں اضافہ ہونے لگتاہے تویہ لوگ پھر جانے کی باتیں شروع کردیتے ہیں ۔واضح رہے کہ ان کا یہ رویہ صرف افغانستان تک محدودنہیں بلکہ امریکاکی  پوری تاریخ اس سے بھری پڑی ہے ۔انہوں نے جہاں پر بھی یلغارکیاہے توشروع میں بڑے منظم دکھائی دیے ہیں لیکن پھرجب  کمزورلوگوں سے مار پڑی ہے  توساری کی ساری ہوانکل گئی ہے  اوربالآخرانتہائی غیرمنظم اور ذلت آمیز صورت حال سے دوچارہوکر راہ فراراختیارکرنے پرمجبورہوگئے ہیں ۔

گزشتہ دنوں جب وطن عزیز کے مشرق،شمال اورجنوب میں مجاہدین نے دشمن کے بڑے بڑے فوجی مراکز فتح کئے اوربڑے بڑےاضلاع اورعلاقے ان کے قبضے میں آگئے تو امریکا کے اوسان ایک بارپھر خطاہوگئے اوران کاموقف ایک بار پھر تذبذب کا شکارہونے لگاہے ۔اوراسی گھبراہٹ میں وہ حسب معمول بچگانہ حرکات کامرتکب ہورہاہے ، آپ اندازہ لگائیے کہ وہ ہلمند جہاں ہزاروں کی تعداد میں بیرونی فوج مجاہدین کا مقابلہ نہ کرسکی اور دم دباکربھاگ گئی وہاں 100فوجی بھیجنے کا کیا تُک بنتاہے ؟  کیا وہ مجاہدین کے ہاتھوں سے ہلمند واپس لے سکیں گے یا اپنی کٹھ پتلیوں میں نئی روح پھونک سکیں گے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔کیونکہ جوکام ہزاروں فوجی نہ کرسکے وہ 100فوجی کیا کریں گے ۔

ہم اس بات کوبخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکا اپنی کٹھ پتلی ادارے کی بقاء اورافغانستان پر دائمی قبضہ کا خواہشمند ہے اوراس کے لیے ناکام کوششیں کررہاہے ،اورچاہتاہے کہ خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی ہمیشہ خطرہ کی علامت بن کر رہے   ،لیکن ہم اپنے ہم وطنوں ،مسلمان ملت ،اورخطے کے دیگرممالک کو یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ امریکا میں اب مزید یہاں قیام کرنے اورجنگ کو طول دینے کی سکت باقی نہیں رہی ،اس کی بچگانہ اورناکام اقدامات کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ۔بہت جلد وہ ہمارے وطن سےدم دباکربھاگ جائے گا جس سے افغانستان سمیت پورا خطہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا  ۔ ان شاء اللہ