وطن عزیز میں ایک بارپھر روسی مصروفیت کسی کے مفاد میں نہیں ہے

حالیہ دنوں میں کابل کٹھ پتلی انتطامیہ نے ایسی کوششیں شروع کیں ہیں، کہ  افغانستان میں (داعش) کے بہانے روس کی طرح اہم ملک کو پھنسادے۔ وہ داعش کے نام سے ناجائزفائدہ اٹھاتے ہیں۔اس کے تعداد اور طاقت کو اندازے سے کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں۔ خطے اور خاص کر ہمارے شمالی ہمسائیوں کے لیے […]

حالیہ دنوں میں کابل کٹھ پتلی انتطامیہ نے ایسی کوششیں شروع کیں ہیں، کہ  افغانستان میں (داعش) کے بہانے روس کی طرح اہم ملک کو پھنسادے۔ وہ داعش کے نام سے ناجائزفائدہ اٹھاتے ہیں۔اس کے تعداد اور طاقت کو اندازے سے کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں۔ خطے اور خاص کر ہمارے شمالی ہمسائیوں کے لیے اسے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح روس کے فوجی اور لاجسٹک امداد سے اپنے ذاتی اور  جماعتی مفادات کی حصول سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ داعش افغانستان میں کافی حد تک پروپیگنڈہ کا منصوبہ ہے۔

وطن عزیز میں داعش کا ظہور کابل انتظامیہ اور اجنبی خفیہ اداروں کا مشترکہ موجد پروجیکٹ ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے ۔ اب کابل انتظامیہ سے مربوطہ اعلی حکام نے بھی ان خفیہ رازوں  کو کئی بار افشاء کیا۔مثال کے طور پر چند ماہ قبل صوبہ پکتیکا کے گورنر نے واضح طور پر کہا کہ “افغان نیشنل سیکورٹی کونسل نے   ضلع برمل میں داعش خاندانوں کیساتھ دو لاکھ ڈالر کا تعاون کیا “۔23/نومبر 2015ء  نام نہاد قومی اسمبلی کے نائب نے اجلاس کے دوران نہایت صراحت سے کہا کہ” بذات خود حکومت، سیکورٹی ادارے اور سیکورٹی کونسل داعش سے تعاون کررہا ہے” ان کے مطابق “داعش کے کمانڈر خداکی قسم کابل میں رہائش پذیر ہیں۔ بیرونی ممالک کے سفارتوں اور ہمارے سرکاری اداروں میں آمدورفت کرتے رہتے ہیں”۔

عالمی سطح پر اہم ملک روس یہ سمجھتا ہے کہ کابل دوہری انتطامیہ خودمختار ہے اور نہ ہی وطن عزیز کو موجودہ بحران سے نجات دلادینے کا قوت اس کے پاس ہے، اسی لیے  استعمار نے انہیں تخت نشین کروائے ہیں اور صرف اور صرف اجنبی مفادات کے لیے کمربستہ ہیں۔ وطن عزیز اور خطے  میں امن، صلح اور ترقی کے لیے وفادار نہیں ہے۔ مذکورہ ادارے کی بدنام  حکام کیساتھ روسی آمدورفت ، امداد کے وعدے اور سیاسی  تعامل  افغان عوام کو بھی ناراض اور ناآرام کرتی ہے۔

ہمارے خیال میں روسی مداخلت اور کابل بےاختیار انتطامیہ کیساتھ ان کے فوجی، لاجسٹک اور معاشی امداد  روس کے مفاد میں ہے اور نہ ہی افغان عوام اور مجاہدین کے ، کیونکہ ملک استعمار کے کنٹرول میں ہے  اور افغان عوام عملا جہادی محاذ میں ان سے نبردآزما ہے، تو ان کیساتھ امداد حقیقت میں جارحیت کو جاری رکھنے کے تعاون سے مترادف ہے یا افغان عوام کے دشمن سے تعاون ایک اور سرد جنگ کا آغاز ہے۔

روس سمیت تمام ممالک کو امارت اسلامیہ افغانستان تسلی دیتی ہے کہ (لاضرر ولاضرار فی الاسلام) حدیث کے بنیاد پر کسی کو ضرر پہنچانے کی ارادہ نہیں رکھتی۔ امارت اسلامیہ کے نئے امیر نے اپنے پیغامات میں باربار فرمایا  ہے کہ” ہم ہمسائیہ ممالک، خطے اور دنیا سے حسنہ، ممثر اور مشروع روابط چاہتے ہیں”۔ واللہ الموفق