کٹھ پتلی انتظامیہ کے حکام کیوں باہمی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں ؟

اہل وطن گواہ ہیں کہ کابل دوہری انتظامیہ کے موجودہ نااہل اور سرکش عہدیداروں نے نوے کی دہائی میں مجاہدین کی دور حکومت کے دوران ملک میں ایک بڑے سانحہ کو پروان چڑھایا۔ ہر صوبہ اور ضلع کئی حصوں میں تقسیم تھی۔ ہر کمانڈر اپنے زیر اثر علاقے کا حکمران تھا۔ سب نے دیکھا کہ […]

اہل وطن گواہ ہیں کہ کابل دوہری انتظامیہ کے موجودہ نااہل اور سرکش عہدیداروں نے نوے کی دہائی میں مجاہدین کی دور حکومت کے دوران ملک میں ایک بڑے سانحہ کو پروان چڑھایا۔ ہر صوبہ اور ضلع کئی حصوں میں تقسیم تھی۔ ہر کمانڈر اپنے زیر اثر علاقے کا حکمران تھا۔ سب نے دیکھا کہ بے مفہوم جنگوں کی وجہ سے وطن عزیز کا دلکش دارالحکومت کابل شہر کھنڈرات میں بدل گیا۔ ہزاروں شہری مارے گئے، اکثر گھربار اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ کسی کا جان و مال اور عزت محفوظ نہیں تھا، ہر طرف جنگیں اور مصائب تھے۔

سوویت یونین جارحیت کے خلاف افغان مجاہد عوام  جہاد کے مقدس میدان میں کھود پڑیں۔ جنہوں نے ایک دہائی سے زائد غاصب اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف مقدس جنگ کی۔ اللہ تعالی کی رضا کے لیے لاکھوں شہداء اور زخمیوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پچاس لاکھ سے زائد افراد دیگر ممالک کی جانب ہجرت کر گئے، جنہیں بے شمار مالی اور معاشی نقصانات کا سامنا ہوا۔ یہ تمام قربانیاں ایک عظیم مقصد اور ہدف کی خاطر دی گئی، جو غاصبوں اور کمیونسٹ نظام سے ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کا قیام تھا۔

لیکن بدقسمتی سے بعض بدبخت عناصر نے عوام کے اس عظیم قربانی کو ذاتی مفادات کے لیے قربان کردی۔  اقتدار کے نشے میں جنگ شروع کردی۔ نہ صرف افغانوں بلکہ دنیا کے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔ ایک مضبوط اسلامی حکومت کے ارمان کو ادھورا کردیا ، جس سے  غاصبوں  کی چنگل سے  وطن عزیز  کی تحفظ اور آزادی کی خوشی کو غم میں بدل گئی۔

صوبہ بلخ میں گذشتہ ہفتے بے مقصد اور طفلانہ تنازعات نے عوام کے ذہنوں میں ایک بار پھر ماضی کی  المناک تصاویر میں روح پھونک دی۔عوامی حلقوں  میں ملک کے مستقبل کے متعلق خوف پایا جاتا ہے، کہ ملک ایک بار پھر خدانخواستہ  تنظیمی  اور ذاتی جنگوں کی آگ میں کباب نہ ہوجائے۔ یہ کہ عام چوکوں  سے ایک جنگجو سردار کی تصاویر کو ہٹانے سے اتنی گرم لڑائی شروع ہوئی، جس میں ایک شخص ہلاک جبکہ پانچ کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ اگر ان کے مالی مفادات خطرے میں پڑ جائیں، تو کیا کرینگے؟!! یہ صرف بلخ نہیں ہے،جس کے عہدیدار ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے، بلکہ کابل دوہری انتظامیہ کے کلرک ملک بھر میں باہم میں پنجہ آزما ہیں۔

یہ امریکی جارحیت اور اس کے عریان مداخلت کا منطقی نتیجہ ہے۔ امارت اسلامیہ نے عوامی نجات دہندہ قوت کے طور پر  ہمیشہ کوشش کی  اور  کررہی ہے کہ عوام کو اس قسم کے  مصائب سے تحفظ فراہم کریں اور کبھی  بھی اجازت نہیں دیگی کہ عوام اور ملک ایک بار پھر چند  بندوق برداروں کے خواہشات اور ذاتی مطالبات کا قربانی ہوجائے اور نوے کی دہائی کی  افراتفری کا سبب بنے۔

امارت اسلامیہ اپنی عوام کو تسلی دیتی ہے کہ مجاہدین ماضی کی طرح خانہ جنگی کے روک تھام کے لیے الرٹ اور کمربستہ ہیں۔ واللہ الموفق