کیا جنرل” جان میک نکلسن” جنگ جیت جائیگی ؟!!

میڈیا کے تازہ ترین رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی جنرل “جان میک نکلسن” کو وطن عزیز میں استعماری افواج کے حالیہ کمانڈر ” جان کیمبل” کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔ کانگریس نے نیکلسن کی تعیناتی تائید کی۔ موصوف کو  استعماری افواج کے کمانڈر کے طور پر  افغانوں کے قتل عام، تکالیف، ملک […]

میڈیا کے تازہ ترین رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی جنرل “جان میک نکلسن” کو وطن عزیز میں استعماری افواج کے حالیہ کمانڈر ” جان کیمبل” کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔ کانگریس نے نیکلسن کی تعیناتی تائید کی۔ موصوف کو  استعماری افواج کے کمانڈر کے طور پر  افغانوں کے قتل عام، تکالیف، ملک سے جبری بدری اور کابل دوہری انتطامیہ کی تحفظ ، انہیں فنڈز فراہم کرنے اوانتظامی امور ر چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور سابق جنرل” جان کیمبل” کی طرح اختیارات کا سرچشمہ ہوگا۔ کابل انتطامیہ باہمی تنازعات کی حل کی خاطر ان سے رجوع کریگی۔ دوہری انتظامیہ سے منسلک مسلح افواج کی تربیت اور جنگی ٹارگٹ بھی موصوف جنرل کی جانب سے دیا جائیگا، بلکہ استعمار براہ راست میں جنگ میں شرکت کریگی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنگ کا اصل ہدف عوام ہی ہے، کیونکہ عوام جارحیت کو نہیں مانتا۔

امریکی وزارت دفاع کے ترجمان پیٹرکک نے جان مک نیکلسن  کے صلاحیت کو سراہا۔ انہیں افغانستان اور دنیا کے سطح پر باتجربہ جنرل اور فوجی سپہ سالار شخص تصور کیا۔ تو کیا موصوف جنرل کے یہ اوصاف جنگ جیتنے کے لیے کافی ہے؟

اگر افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ کے آخر دہائی کو دیکھا جائے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  استعماری افواج کی امریکی کمانڈروں نے کثیرتعداد میں سپاہ اور قوت  کے باوجود  افغان عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے،  وحشت و بربریت کیساتھ ساتھ یکےبعدیگرے دل برداشتہ اور شرمندگی کی حالت میں  وطن عزیز سے جاچکے ہیں۔ مثال کے طور پر  امریکی اور نٹیو افواج کا  جنرل کمانڈر جنرل ڈیویڈ مکیرنان، جنرل اسٹینلے  میک کرسٹل، جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور جنرل جان ایلن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس وقت کے امریکی ترجمانوں اور میڈیا کی رو سے ان جنرلوں میں سے ایک ہر بہادر، باتجربہ اور ارسطو سے مشابہہ شخص تھا۔ مگر میدان جنگ میں ان جنرلوں کی ناکامی اور بعض اخلاقی بےحیائی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی جنرل یا بہ الفاظ دیگر امریکی شکست اور ناکامی کی وجہ کیا ہے؟  حالانکہ دولت و طاقت، فوجی قوت اور رسد کا سامان، ہتھیاروں اور گولہ بارود ، اتحادیوں اور خادموں کی فراوانی ہے۔ جنگ کے تمام پہلوں مادیات کی رو سے قوی تر ہے۔ امریکی حکام اور دانشوروں کو چاہیے کہ  اس مسئلے کا ازسرنو جائزہ لے، تاکہ جنگ میں شکست  کا سِر   اور راز ظاہر ہوجائے۔

ہمیں یقین ہے کہ غلط مقصد کی طرف حرکت استعماری شکست کی وجہ ہے۔ وہ اپنا مال و دولت، اسلحہ اور فوجی شرارت پھیلانے اور عالمی سطح پر کرپٹ انتظامیہ کی  تحفظ کے لیے قربان کررہی ہے ۔ وہ ظاہری طور پر اللہ تعالی کو مانتے ہیں، لیکن اللہ تعالی کے احکام کو نہیں مانتے، اسی وجہ سے اللہ تعالی فساد اور مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔( وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ} (البقرة – ۲۰۵)

ترجمہ : اور اللہ فتنہ انگیز ی کو پسند نہیں کرتا۔

جبکہ امریکی  فساد اور مفسدوں کا تحفظ  اور حمایت کرتا ہے۔

امارت اسلامیہ کے طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالی پر ایمان، توکل اور اللہ عزوجل کے نصرت پر یقین ہے اور اس کے  قوت کا راز ہدف کی پاکیزگی اور عوام کے حمایت  میں مضمر ہے۔ امارت اسلامیہ نے ملک میں اسلامی عادلانہ نظام کے نفاد کے لیے جہاد شروع کی ہے۔ ملکی استقلال و آزادی، استعماری افواج سے اپنی عوام کا نجات اور کرپشن کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ تاريخ گواہ ہے کہ کامیابی کا راز  ہدف کے تقدس میں موجود ہے۔ابراہیم علیہ السلام اور نمرود، موسی علیہ السلام اورفرعون، طالوت علیہ السلام اور جالوت اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوجہل کی جدوجہد کی تاریخ گواہی دے رہا ہے کہ آخری مرحلے میں حق غالب ہوگا۔اگرچہ جنگ کے ابتدائی مرحلوں میں حق و باطل کے پلڑے اوپر اور نیچے ہوتے ہیں۔

{وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ الناس} (آل عمران – ۱۴۰)

ترجمہ : اوریہ ایام زمانہ ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔

واللہ الموفق