ہلمند جنگ میں استعمار کی شرکت امن کی راہ میں رکاوٹ کی نئی کوشش!!

سب گواہ ہیں کہ 2014ء کے آخری دنوں یعنی ایک سال قبل استعمار نے اعلان کیا کہ افغانستان میں ان کا جنگی مشن مزید اختتام کو پہنچا ہے۔ اس کے بعد افغان میں جنگ میں حصہ نہیں لے گی، بلکہ امداد اور حمایت کا نیا مرحلہ شروع ہوگا۔ نئے مشن کے لیے غاصب مبہم اور […]

سب گواہ ہیں کہ 2014ء کے آخری دنوں یعنی ایک سال قبل استعمار نے اعلان کیا کہ افغانستان میں ان کا جنگی مشن مزید اختتام کو پہنچا ہے۔ اس کے بعد افغان میں جنگ میں حصہ نہیں لے گی، بلکہ امداد اور حمایت کا نیا مرحلہ شروع ہوگا۔ نئے مشن کے لیے غاصب مبہم اور مشکوک کلمات کا استعمال کرتےرہے۔اس وقت بھی سیاسی مبصرین استعمار کے نیت پر شک کا اظہار کرتے رہے۔ ان کے آئندہ مرحلے کو امداد اور حمایت کے نام سے افغان مظلوم عوام کے خون بہانے اور ان پر تشدد کرنے  کو نئی لہر سمجھتے ۔

افغانوں کی اکثریت امریکی وعدوں کو دھوکہ پر مبنی اسٹریٹیجی کی نظر سے دیکھتے ہیں، کیونکہ 07/اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی جارحیت کی علی الاعلان جنگی مشن کو اس وقت بھی یہی نام نہیں دیا گیا، بلکہ تحفظ، تعمیرنو، استحکام امن  اور آزادی استعماری القاب میں گردش کررہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے وحشی اور انسانی خون کے پیاسے فوجیوں کو  بھی ایساف( یعنی انٹرنیشل اسسٹنٹ سیکورٹی فورس) کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد سب نے مشاہدہ تھاکہ وہ کون ہیں، کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کررہے ہیں؟!

اب استعمار نے سابقہ وعدوں کے خلاف ایک بار پھر جنگ شروع کی ہے۔ ہلمند میں مجاہدین کے خلاف علنی جنگ میں مصروف ہیں۔ مارجہ میں مقامی آبادی پر بمباری کررہا ہے۔ امریکی و برطانوی وحشی صفت فوجیں علاقے روانہ کیے جاچکے ہیں۔ استعمار کے ان اعمال نے افغان مظلوم عوام  کو شدید دھچکا دیا ہے، کیونکہ وہاں بےمفہوم صلح کے نغارے پیٹے جارہے ہیں اور یہاں استعمار نے نئی جنگ شروع کی ہے، بلکہ مزید جنگوں کے لیے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اب چونکہ اعلان کیا کہ پانچ سو 500 تازہ دم فوجیوں کو افغانستان بھیجوائینگے۔ تقریبا دو ہفتہ قبل جنرل کیمبل نے یو ایس ٹوڈے کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ افغانستان میں طویل عرصے تک اپنی فوجوں کو رکھی جائیگی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی منحوس جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے نئی کوششیں شروع کی ہیں۔

صلح کے منصوبے پر افغانوں کا اعتماد اس وقت مزید مخدوش ہوا ، جب استعماری دشمن  کے صبح اور رات کے بیانات متضاد ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ، ایک عجیب منظر ہے۔ چودہ برس کے دوران لاکھوں بے گناہ افغانوں کا  قتل، ان پر تشدد  اوردرندگی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب  امن پسندوں کا سرخیل بھی استعمار ہے، بلکہ اس طرح امن کے مکمل منصوبے کو اپنے ہی اختیار میں  لیناچاہتا ہے۔ وہ قاتل ہیں اور مسلح حالت میں گھر گھر افغانوں کا تلاش کررہا ہے، خود کو افغانوں کے وارث سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے فضا اور زمین کا اختیار ان کے پاس ہوناچاہیے ۔ جج بھی ہیں، ہمارے چھوٹے اور بڑے فیصلے  بھی انہیں حل کرنے چاہیے۔

امارت اسلامیہ افغانستان کا استعمار کے لیے واضح پیغام ہے : پہلا یہ کہ افغان عوام نے تاریخی ادوار میں کئی بار استعمار کو اپنی سرزمین سے مار بھگایا ہے،ان کے استعماری منصوبوں اور اسٹریٹیجی کو ناکارہ بنائے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ موجودہ استعمار بھی شکست سے روبرو ہے۔ دوسرا یہ کہ افغان عوام امریکہ سمیت کسی کے لیے خطرہ نہیں  ہے اور کسی کیساتھ دشمنی اور جنگ کا ارادہ نہیں ، بلکہ صرف اپنی سرزمین سے دفاع کا عزم رکھتے ہے اور بس۔ تیسرا یہ کہ  افغانوں کو اسلامی نظام کے علاوہ کچھ قابل قبول نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ استعمار کا خاتمہ اور اسلامی نطام کا  قیام صلح بھی ہے اور حل بھی اور امن و استقرار اور افغان عوام کا آرزو ہے۔ واللہ الموفق