استعمار افغانستان میں جنگ کو کیوں طول دے رہا ہے ؟

اکثر سیاسی امور کے تجزیہ نگاروں کا یہ خیال  ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی  ایک خودمختار ملک  پر کھلی جارحیت ہے۔نام نہاد دہشت گردی سے مقابلہ جارحیت کو جواز بخشنے کا واحد  نعرہ ہے۔ فوجی اور سیاسی طور پر  روس اور چین  کے اثر کو محدود کرنا، افغانستان اور مرکزی […]

اکثر سیاسی امور کے تجزیہ نگاروں کا یہ خیال  ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی  ایک خودمختار ملک  پر کھلی جارحیت ہے۔نام نہاد دہشت گردی سے مقابلہ جارحیت کو جواز بخشنے کا واحد  نعرہ ہے۔ فوجی اور سیاسی طور پر  روس اور چین  کے اثر کو محدود کرنا، افغانستان اور مرکزی ایشیا کی قدرتی ذخائر پر تسلط قائم کرنا، افغانستان کے ہمسائیہ ممالک اور  مشرق وسطی میں اثر و رسوخ کی بحالی اور اس کی توسیع اہم محرکات ہیں۔

اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی جارحیت کے دوران یہ مقاصد اتنے واضح نہیں تھے، لیکن وقت گزرنے کیساتھ خاص کر اس وقت میں اس میں شدت آئی، جب مارچ 2014ء کو روس نے کریمیا کے نام سے یوکرائن مغرب حامی ملک کے ایک جزیرے کو روس میں ضم کردیا اور اب براہ راست روس کے ماتحت ہے۔ اس کے بعد ستمبر 2015ء میں روس نے براہ راست شام کی جنگ میں مداخلت کی۔

یہ اور  اس سے ملے جلے انکشافات نے روس اور نیٹو کے درمیان خلیج بڑھا دی۔ حالیہ دنوں نے میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ واشنگٹن میں روسی سفارت خانے کو گذشتہ جون میں مطلع کیا گیا تھا ، کہ اس کے دو سفارت کار نامطلوب افراد ہیں اور انہیں امریکہ چھوڑنا چاہیے۔ اس کے ردعمل میں روس نے بھی دو امریکی سفارت کاروں کو نکال دیا۔ دوسری جانب چین کے جنوبی سمندر میں چین اور امریکہ کی فوجی نقل و حرکت نے سرد جنگ کا ماحول پیدا کیا ہے۔

انہی تبدیلوں کی تناظر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ماہ رواں (جولائی) کے 8 اور 9 تاریخ کو وارسا میں نیٹو کی سربراہی  اجلاس میں کابل انتظامیہ سے 2020ء تک پانچ ارب ڈالر کا وعدہ صرف اس لیے  کیا گیا  کہ افغانستان میں اپنی موجودگی اور جنگ کو طول دے  اور  اپنے عالمی دشمن یا دشمنوں کے خلاف  افغانستان کو فوجی چوکی کے طور پر استعمال کریں۔ اس اقدام کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں ہے  اور نہ ہی یہاں سے مذکورہ ممالک کو خطرہ  لاحق ہے۔

قابل یادآوری ہے  کہ امارت اسلامیہ لاضرر ولا ضرار پالیسی کی رو سے افغانستان سے کسی ملک کی سلامتی کو کسی قسم کا خطر نہیں ہے۔ اس کا ذکر امارت اسلامیہ نے اپنے اعلامیوں میں کئی بار واضح کی ہے۔ لیکن ابتداء سے استعماری ممالک جان بوجھ کر افغانستان کو نام نہاد دہشت گردی کے نام سے مسئلے کو  پروان چڑھانا چاہتا ہے اور یہاں اپنی افواج کی موجودگی کا جواز پیش کرتا ہے۔

افغان دو جہادوں کے ہیروں ہیں۔ خودمختار ملک کا حصول اور حقیقی اسلامی نظام کا قیام ان کے وہ مشترکات ہیں، جن پر ہمیشہ متحد ہوئے ہیں۔ یہ مشترکات ہمارے دو جہادوں کی قربانیوں کا ثمرہ ہے،جن کے  اب تک سب حصول کی امید میں ہیں، اسی وجہ سے ہم افغان عوام کو بتاتے ہیں کہ دشمن کے مذموم منصوبوں پر توجہ دیں اور ملک کی خودمختاری اور اسلامی نظام کے مشترکات پر متحد ہوجاؤ۔ گذشتہ برسوں کی طرح مزید جارحیت کے خلاف امارت اسلامیہ کے شانہ بشانہ محکم رہے اور اپنے ملک کو عالمی استعمار اور استکبار کی خفیہ مقاصد اور سازشوں سے نجات دلائیں۔ ملک کی خودمختاری اور سلامتی اسی میں پوشیدہ ہے۔