اسلامی سیاست مقدس جہاد کا ایک حصہ ہے

اسلامی تاریخ میں مسلمان رہنماؤں کی سیاسی مؤقف اور کامیابیوں کو اہم مقام حاصل ہے۔ یہ سیاسی فیصلے ہیں، جنہوں نے جہادی اہداف کی حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے، مجاہدین  کو بآسانی منزل مقصود تک پہنچائے ہیں، عوامی اعتماد کو حاصل کیا ہے، اقوام کو تشتت اور تفرق سے نجات دلایا ہے۔آرام دہ […]

اسلامی تاریخ میں مسلمان رہنماؤں کی سیاسی مؤقف اور کامیابیوں کو اہم مقام حاصل ہے۔ یہ سیاسی فیصلے ہیں، جنہوں نے جہادی اہداف کی حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے، مجاہدین  کو بآسانی منزل مقصود تک پہنچائے ہیں، عوامی اعتماد کو حاصل کیا ہے، اقوام کو تشتت اور تفرق سے نجات دلایا ہے۔آرام دہ اور پرسکون زندگی کے ماحول کو جنم دیا ہے  ۔ مصائب اور جنگوں کا روک تھام کیا ہے۔

غزہ بدر میں مجاہدین کی فوجی کامیابی مسلمانوں کی عظیم کامرانی تھی، اسی لیے قرآن کریم نے غزوہ بدر کو یوم الفرقان کا نام دیا، یعنی حق و باطل کی علیحدگی کا دن، لیکن حدیبیہ کے موقع پر رسول ﷺکی ذہانت اور قوی سیاسی حرکت کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس روز کی فتح مبین اور فتح قریب کی القاب سے ستائش کی، باوجود کہ حدیبیہ میں طرفین کے درمیان جنگ نہیں ہوئی اور امن سے متعلق فیصلے کی بعض مواد بھی مجاہدین کی نظر  سے یا   ان کے فوجی شہامت کو دیکھتے ہوئے مناسب معلوم نہیں ہوتے۔

فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ کےسیاسی فیصلے:  عام معافی کا اعلان، درگزر اور مکہ کے عمائدین کا احترام وغیرہ  سبب بنے اللہ تعالی کا یہ قول : (وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً)تحقق پیدا کریں اور لاکھوں لوگ خوش نصیب ہوجائے اور اپنی مرضی سے دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے۔

نبوی مدرسے کے ابتدائی دور کے شاگرد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی کامیاب سیاست کی برکت سے دنیا کے وسیع رقبے پر فاتح ہوئيں اور مفتوحہ علاقوں کے لاکھوں  باشندوں کو جن کا تعداد مجاہدین سے کئی گناہ زیادہ تھی،انہیں مجاہدین نے اپنی بصیرت سے نہ صرف انہیں کنٹرول کرلیا، بلکہ انصاف، اخلاق اور حریت کی ایسی فضا کو قائم کردی،جہاں اکثریت باشندوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور اسلامی معاشرے  کے اہم رکن بنے۔

امارت اسلامیہ کی سیاسی اسٹریٹیجی، سیاسی سرگرمیاں اور اعمال بھی سابق اسلامی رہنماؤں کی طرح اسلام کے مراجع قرآن و سنت سے سرچشمہ لیتی ہے،جس کا سیاسی مرکز ملک کے اندر موجود ہے،جو  امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی براہ راست رہبری کے تحت جہادکی مفاد میں سرگرم ہے۔ امارت کی رہنمائی میں قطر سیاسی دفتر  سمیت مختلف ممالک میں شاخیں موجود ہیں۔ جہادی اہداف کی حصول کی خاطر اکثر ممالک کیساتھ رابطے ہیں اور  دلچسپی رکھنے والے ممالک کی وقتا فوقتا دورے کیے  اور کررہے ہیں۔

یہ کہ امارت اسلامیہ کا سیاسی مؤقف اسلامی اقدار، قومی مفادات، متقابل احترام،مساوات اور عدم انسلاک کے اصول پر مبنی ہے، تو  ضرورت کا احساس کرتی ہےکہ اسلامی اور ہمسائیہ ممالک سے بہتر تعلقات رکھے، دوجانبہ روابط کی کو تقویت اور رشد دینے کی غرض سے دورے کریں، ہمسائیہ ممالک سے روابط استوارکرنے سے افغان عوام کا تحفظ اور پرامن زندگی کی سلامتی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے درمیان وسیع سرحدی علاقے، مشترکہ مفادات اور اقدار ہیں۔مثال کے طور پر امارت اسلامیہ کے وفد کا حالیہ دورہ ایران اس لیے اہم ہے کہ ایران میں بیس لاکھ 2،000،000 افغان عوام  مہاجرین کی صفت سے رہائش پذیر ہیں ،جس کے ساتھ نو سو 900 کلومیٹر تک سرحدی علاقہ ہے اورایران افغانستان میں  بیرونی جارحیت کے اختتام کا طلب گار ہے۔

امارت اسلامیہ اپنی سیاست میں تعادل، توازن اور عدم مداخلت کے اصول کو اپنارہی ہے۔ایک ملک سے ہمارے رابطے اورتعلقات دیگرممالک کے نقصان میں نہیں ہے اور نہ ہی دیگران سے ہمارے تعلقات پر اثرانداز ہوتا ہے، کیونکہ ہرملک سے ہمارے تعلقات افغانستان کی عظیم مفادات اور قومی منافع کی روشنی میں طے ہوتے ہیں۔ متوازن روابط ملک کے مفاد میں ہیں، ہمارا ملک جارحیت اور بیرونی مداخلت کی وجہ سے تباہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تصادم، مخالفت اور ایک دوسرے کے امور میں مداخلت کی سیاسی کی حمایت نہیں کرتے، بلکہ خطے اور دنیا میں طاقت کا خاتمہ چاہتے ہیں  اوربیرونی مداخلت کے بغیر تمام اقوام آرام دہ، خوشحال اور پرامن زندگی گزاریں۔ واللہ الموفق