اسلامی ملک میں صرف اسلامی تہوار ہی منایا جاتا ہے

جمعرات کے روز یکم حمل 1395 ھجری شمسی بمطابق 20/ مارچ 2016ء وطن عزیز کے دارالحکومت کابل، بلخ اور دیگر شہروں میں  نوروز کا جشن کابل دوہری نااہل کٹھ پتلی انتظامیہ کی جانب سے ایسے حالت میں شاندار تقریبات میں منایا گیا، جب عوام متعدد مصائب سے روبرو ہے۔ نوجوان بیروزگاری  کی وجہ سے ملک […]

جمعرات کے روز یکم حمل 1395 ھجری شمسی بمطابق 20/ مارچ 2016ء وطن عزیز کے دارالحکومت کابل، بلخ اور دیگر شہروں میں  نوروز کا جشن کابل دوہری نااہل کٹھ پتلی انتظامیہ کی جانب سے ایسے حالت میں شاندار تقریبات میں منایا گیا، جب عوام متعدد مصائب سے روبرو ہے۔ نوجوان بیروزگاری  کی وجہ سے ملک سے فرار کی حالت میں اجنبی دشت وصحرا اور سمندروں میں موت سے پنجہ آزما ہیں۔ مرد، خواتین اور بچے استعماری دشمن کے رات کے آپریشن اور اندھی بمباری کی خوف سے رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔ شہر اور گاؤں کے باشندے شرپسند جنگجوؤں اور بندوق برداروں کی تلاشی سے تنگ آچکے ہیں۔ ہر طرف جنگ ہی جنگ ، بدامنی اور لوٹ مار ہے۔

درحقیقت  اسلام کی رو سے  جشن نوروز منانا  ایک مکمل ناروا عمل ہے، جس کا واسطہ مجوسیوں اور آتش پرستوں سے ہے۔ افغانستان کی طرح اسلامی ملک میں جشن نوروز منانے کے لیے کسی قسم کا جواز نہیں ہے۔ اہل وطن کو چاہیے کہ اسلامی اقدار اور اصول کے مطابق زندگی بسر کریں اور ہر کسی کا تقلید نہ کریں۔ اسلام میں خصوصی خوشیوں کے دن عیدین ہیں، بلکہ ہمارے آقا حضرت محمدﷺنے نوروز اور مہرجان کو منانے  سے واضح طور پر منع فرمایا۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اہل مدینہ دو دنوں (نوروز اور مہرجان) میں کھیلتے، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ کونسے دن ہیں؟ انہوں نے کہا : کہ ہم زمانہ جہالت میں ان دنوں میں کھیل کھود کیا کرتے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا:کہ اللہ تعالی نے ان دو دنوں کو ایسے دنوں میں بدل دیے، جو ان دنوں سے بہتر ہیں، ایک عیدالاضحی اور دوسرا عیدالفطر کا دن ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: (مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟) قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ) رواه أبو داود والنسائي.

عون المعبود کے مؤلف رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ  ابوحفص کبیر حنفی فرماتے ہیں : من أهدى في النيروز بيضة إلى مشرك تعظيما لليوم فقد كفر بالله تعالى وأحبط أعماله، وقال القاضي أبو المحاسن الحسن بن منصور الحنفي: من اشترى فيه شيئا لم يكن يشتريه في غيره أو أهدی فيه هدية إلى غيره فإن أراد بذلك تعظيم اليوم كما يعظمه الكفرة فقد كفر وإن أراد بالشراء التنعم والتنزه وبالإهداء التحاب جريا على العادة لم يكن كفرا لكنه مكروه كراهة التشبه بالكفرة حينئذ فيحترز عنه. قاله علي القاري. عون المعبود (ج ۳ ص ۳۴۱۳۴۲).

اسی طرح مزید فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ اس دن تحفائف دینا مسلمانوں کو عظیم خطرات سے روبرو کرتے ہیں : (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام (وإن قصد تعظيمه) كما يعظمه المشركون  (يكفر…) ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة ولو شری فيه ما لم يشتره قبل إن أراد تعظيمه كفر وإن أراد الأكل كالشرب والتنعيم لا يكفر. الدر المختار وحاشیته (ج۶ ص ۷۵۴- ۷۵۵) و تبیین الحقائق (ج۶ ص ۲۲۸).

اسلامی شعائر(تہواروں) کی تعظیم میں مؤمنوں کے لیے دنیا اور آخرت کی نیک بختی ہے(وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ} (الحج- ۳۲)  ) اس کے برعکس کفری رسم و رواج اور تقالید منانا مسلمان کو ایمان کے خطرے سے روبرو کرتا ہے۔جتنے مسلمانوں کو اپنے عظیم رب جل جلالہ کے احکام کا احترام ہے، انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں اور اللہ تعالی کی جانب سے منع شدہ اعمال سے خود، خاندان اور معاشرے  کو تحفظ دینے کی فکر میں ہوتے ہیں۔معاشرے میں تمام الہی ارشادات کو عملی اور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جتنا سعادت کی جانب قدم اٹھاتے ہیں ، اتنا ہی نیک بخت ہوتے ہیں، لیکن جب انسان اسلامی شریعت سے دور ہوتے ہیں، غیر اسلامی تہذیب کی جانب حرکت کرتے ہیں، تو تنگ اور سخت ترین زندگی سے روبرو ہوتے ہیں۔

{مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ} (النحل – ۹۷). واللہ الموفق