اشرف غنی کا اپنی فوج پر عدم اعتماد

موسیٰ فرھاد میڈیا پر چونکہ زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ افغانستان اب ایک طاقتور فوج ، پولیس، قومی ملیشیا اور مختلف مسلح سیکیورٹی اہلکار وں کی فوج ظفر موج کا مالک ہے۔ اس لئے افغانستان اب ایک خود مختار ملک بن چکا ہے۔ جس کو کسی دوسرے ملک کے امداد کی […]

موسیٰ فرھاد

میڈیا پر چونکہ زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ افغانستان اب ایک طاقتور فوج ، پولیس، قومی ملیشیا اور مختلف مسلح سیکیورٹی اہلکار وں کی فوج ظفر موج کا مالک ہے۔ اس لئے افغانستان اب ایک خود مختار ملک بن چکا ہے۔ جس کو کسی دوسرے ملک کے امداد کی کوئی ضروررت نہیں۔ افغانستان اب خود کفیل ہے، لیکن اشرف غنی جسے امریکا نے مسند اقتدار پر بٹھایا اپنی فوج پر اعتماد کھوچکے ہیں اور کئی بار مندرجہ ذیل طور پر اس کا بر ملا اظہار کرچکے ہیں:

1۔ 2009 میں جب امریکی جارحیت پسندوں نے اعلان کیا کہ   جارحیت کے گیارہویں سال امریکا اپنا جنگی مشن   اپنی تربیت یافتہ افغان فوج کے سپرد کر رہا ہے۔ اور امریکا اب افغانستان سے نکل رہا ہے۔ ایک بڑے پروجیکٹ کے تحت اس کام کا آغاز کیا گیا، اپنی طرف سے اس وقت کے ایک امریکی فوجی جو (The Joint Afghan-NATO Inteqal Board (JANIB) for transition) کے کمانڈر تھے کو نمائندہ مقرر کیا اور افغانستان کی طرف سے اشرف غنی نمائندہ کے طور سامنے آئے، تاکہ انخلاء کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔

ایک مرتبہ اس سلسلے میں اقدامات کا آغاز کر دیا گیا تھا،جس کے بارے میں امریکی جنرل کا کہنا تھا:

This is a good time, that NATO will transfer its responsibilities to the Afghan National Army. We hope that ANA will eventually succeed in their task. But Ashrafghani has responsible for this transition. He has no confidence in the Afghan army.

یہ ایک اچھا موقع ہے کہ نیٹو اپنی ذمہ داریاں افغان فوج کے حوالے   کرے، ہمیں امید ہے کہ وہ اس تبدیلی کو اہم ذمہ داری سمجھیں گے اور افغان فوج اپنی مشن میں کامیاب ہوگی۔ لیکن اشرف غنی کو اپنی فوج پر اعتماد نہیں ۔

یعنی اشرف غنی جو اس وقت انتقالِ اقتدار پروجیکٹ کے سر براہ تھے بھی   افغان فوج پراعتماد نہیں رکھتے تھے کہ وہ واقعی ایک فوج ہے اور اسے فوج کا نام دیا جاجاسکتا ہے۔

2۔2014 میں جب جان کیری نے   عبد اللہ اور غنی کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا اسی دن سیکورٹی معاہدے کے   نام پر افغانستان میں امریکا کے دائمی جنگی اڈوں کے دستاویز پر دستخط کر لئے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں اور وہ صرف اور صرف مجاہدین کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو۔

3۔ 2015 کو جب اشرف غنی پاکستان کے دورے پر گئے تو پاکستانی فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ   ہماری فوج کو جنگی ٹریننگ دیں۔جسے   پاکستان نے منظور کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد افغان فوج کے ایک وفد کو فوجی ٹرینگ کی غرض سے پاکستان بھیج دیا گیا۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ ٹریننگ جو امریکی آقاوّں نے انہیں دی ہے وہ بالکل غیر مفید ہے۔ اور پاکستان کی دی ہوئی ٹریننگ سے شاید اشرف غنی کو کچھ اطمینان حاصل ہو۔

4۔ 2015 کو جب دونوں افغانی سربراہان “ع،غ” امریکا کے دورے پر گئے وہاں اپنے آقاوّں کی خوب آوّ بھگت کی۔ افغانستان   کیلئے امریکی فوجیوں کی قربانیوں کو بہت سراہا گیا۔ اور امریکی فوج سے مطالبہ کیا کہ ہمیں اکیلا نہ چھوڑیں اور اپنی فوج افغانستان سے نہ نکالیں۔کانگریس ارکان نے   بھی ان کی اس غلامانہ گفتگو پر خوب تالیاں بجائیں اور افغانستان میں محدود تعداد میں فوج باقی رکھنے کی تائید کی۔ جس کے مطابق کم سے کم 10 ہزار فوجی تا حکم ثانی افغانستان میں موجود رہیں گے۔

مذکورہ حقائق کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اشرف غنی اپنی فوج پر عدم اعتماد کا شکار ہے؟

مبصرین اس کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں:

1۔ پہلی یہ کہ اشرف غنی چونکہ امریکی شہریت کا حامل افغانی ہے اسی لئے انہیں افغانستان کے مفاد سے زیادہ امریکا کا مفاد زیادہ عزیز ہے وہ نہیں چاہتے کہ امریکا مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائے، چاہے ان کی موجودگی افغانستان کیلئےکتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، لیکن اشرف غنی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں وہ توبس اپنی اور اپنے حامیوں کے مفاد کیلئے امریکا کی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے۔

2۔ دوسری وجوہ یہ بھی بیان کی جاتی ہیں کہ ہوسکتا ہے اشرف غنی نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے یہ سمجھ لیا ہو کہ جارح قوّتوں کے سائے تلے تربیت حاصل کرنے والی فوج کس کام کی؟ کیسی اپنی حفاظت کرے گی، اور کیسے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی؟ کس طرح ایک محب وطن فوج کی طرح ملک کی محافظ ہوگی؟وہ فوج جو ملک کے طول و عرض سے غیر تعلیم یافتہ، مختلف نشوں میں مبتلا   جرائم پیشہ افراد کا گروہ   ڈالروں کی چمک دھمک دیکھ کر اس فوج میں شامل ہوئے ہیں اور اتنی ایمرجنسی میں انہیں تربیت فراہم کی گئی ہے کہ یہاں وردی پہنی وہاں انہیں بندوق فراہم کی گئی تاکہ امریکی مراکز کی حفاظت پر انھیں مامور کیا   جاسکے۔ یہ کسی صورت میں بھی قابلِ اعتماد فوج نہیں بلکہ یہ جارحیت پسندوں کے ڈالروں پرپلنے والا غنڈوں کا ایک گروہ ہے،جیسے ہی امریکہ ڈالرزکی آمد بند ہوجائے گی یہ تہس نہس ہوجائیں گے۔

ہوسکتا ہے   کہ مذکورہ دو وجوہات کی بناء پر اشرف غنی اپنی فوج کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہوں اسی لئے ساڑھے تین لاکھ افغان فورسز پر   وہ 10 ہزار امریکی فوجیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔

خوف اور ڈرکی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔