افغانستان، امریکی سلامتی کے لئے پہلے محاذ پر

آج کی بات کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے سی این این کو انٹرویو کے دوران افغانستان پر امریکی قبضے کو برقرار رکھنے اور جنگ کے دوام بخشنے پر زور دیا اور مختلف طریقوں سے دبے الفاظ میں امن کے بارے میں اپنی حساسیت کا اظہار کیا۔ اشرف غنی نے اس بات کا بھی […]

آج کی بات

کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے سی این این کو انٹرویو کے دوران افغانستان پر امریکی قبضے کو برقرار رکھنے اور جنگ کے دوام بخشنے پر زور دیا اور مختلف طریقوں سے دبے الفاظ میں امن کے بارے میں اپنی حساسیت کا اظہار کیا۔ اشرف غنی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ افغانستان (کابل حکومت) امریکی سلامتی کے لئے جنگ کی فرنٹ لائن میں لڑ رہی ہے، اشرف غنی نے اس سے قبل بھی سیکورٹی فورسز سے خطاب میں کہا تھا کہ “آپ کی قربانیوں کی بدولت نیو یارک اور واشنگٹن محفوظ ہیں اور وہاں دھماکے نہیں ہورہے ہیں۔”
اشرف غنی جو خود کو افغانستان کا منتخب صدر بھی کہتے ہیں، نے اسی انٹرویو میں بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ ان کے دور اقتدار میں صرف 98 امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں انہوں نے ایک ایسے وقت میں یہ بات کی ہے کہ گزشتہ روز انہوں (اشرف غنی) نے نیویارک اور واشنگٹن کے تحفظ کے لئے صوبہ نیمروز میں ایک حملے میں 18 نہتے شہریوں کو شہید کردیا۔
اشرف غنی نے سی این این سے گفتگو کے دوران افغانستان میں امریکی فوج برقرار رکھنے اور طویل عرصے تک ملک کو قومی آزادی سے محروم کرنے پر زور دیا۔
کابل انتظامیہ کے سربراہ غنی نے ایک اجلاس میں سیکورٹی فورسز سے خطاب کے دوران کہا کہ امریکہ نے اگلے سال کے لئے ہتھیار فراہم کرنے کے لئے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ یعنی آپ حوصلے کے ساتھ جنگ جاری رکھیں۔
استعمار جس ادارے یا حکومت کی فوجی ، مالی اور سیاسی مدد کر رہا ہے اور حکومت بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ استعمار کے تحفظ کے مورچے میں بیٹھی ہے اور اس کا کام استعمار کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ کیا ایسی حکومت کو جائز نظام کی نسبت کرنا قومی غداری نہیں ہے؟ کچھ دانشور جو حب الوطنی کے سرٹیفکٹ بھی بانٹ رہے ہیں، اس واضح حقیقت پر توجہ نہیں دیتے یا وہ واضح حقیقت کے باوجود قومی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں؟
یہ سورج کی طرح واضح ہے کہ کابل انتظامیہ امریکہ کا کٹھ پتلی ادارہ ہے، امریکہ نے ٹینک اور بھاری ہتھیاروں کے بل بوتے پر اس کو افغان عوام پر مسلط کر دیا ہے، ہتھیار اور پیسہ وہ فراہم کررہا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اس کو استعمال کررہا ہے حتیٰ کہ حکومت کے سربراہ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ ان کا مقصد نیویارک اور واشنگٹن کا تحفظ کرنا ہے اور امریکہ کی سلامتی کے لئے اپنے لوگوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
اگر ہم کابل انتظامیہ کے اقدامات ، مؤقف اور بیانات پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس حکومت کے خلاف جنگ کسی بھی طور پر بین الافغان جنگ نہیں ہے، یہ حکومت امریکی استعمار کا ایک حصہ ہے، اس کی ترجیح امریکی مفادات اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے اور امریکہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے وہ افغانستان اور عوام کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔
امارت اسلامیہ ایک دفاعی قوت اور افغانستان اور افغان عوام کی عوامی تحریک ہے، عالمی برادری اور خصوصا امریکہ کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے۔ امارت اسلامیہ کسی بھی استعماری قوت کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کو برقرار رکھے، اور یہاں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرے، ہم نے جس طرح 19 برس میں اپنی دھرتی، اقدار اور مفادات کا دفاع کیا ہے، اب بھی اپنی جدوجہد سے تھک نہیں گئے ہیں، جارحیت کے مکمل خاتمے اور اسلامی نظام کے نفاذ تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ان شاء اللہ تعالی