افغانستان ، ایک بارپھر طالبان حکومت کے انتظار میں

أنس شیرزاد 14سال بعد ایک بارپھر ایسے دن آئے ہیں کہ افغان عوام طالبان حکومت کے قیام کاشدید انتظار کررہے ہیں ۔ انتظار اس بات کا ہے کہ کب کابل پھرسے طالبان کے ہاتھوں میں آجائے۔ یہ کوئی ناممکن بات یا معجزہ نہیں ۔ بلکہ مختلف طاقتور دشمنوں کے خلاف طالبان کی بے مثال مسلح […]

أنس شیرزاد

14سال بعد ایک بارپھر ایسے دن آئے ہیں کہ افغان عوام طالبان حکومت کے قیام کاشدید انتظار کررہے ہیں ۔ انتظار اس بات کا ہے کہ کب کابل پھرسے طالبان کے ہاتھوں میں آجائے۔ یہ کوئی ناممکن بات یا معجزہ نہیں ۔ بلکہ مختلف طاقتور دشمنوں کے خلاف طالبان کی بے مثال مسلح مزاحمت ، افغان حکومت کی ناکامی ، کرپشن ، عوام کی تذلیل اور بیرونی قوتوں کی اسلام اور افغان دشمن اقدامات کا نتیجہ ہے ۔ ایسا نتیجہ جو نئی شکل اور نئے انداز میں سامنے آنا چاہتا ہے ۔

وہ سب کچھ جس کی روک تھام غیر ملکی یہاں کرنا چاہتے تھے ۔ جس کے لئے وہ 14 سال تک یہاں لڑتے رہے ۔ طرح طرح کی جنگیں لڑیں اور طرح طرح کے منصوبے ترتیب دیے ۔ اپنے ہزاروں فوجی اور بے پناہ مال واسباب ہار بیٹھے ۔ اپنے عوام کا اعتماد اور تعاون ہاربیٹھے ، آج اپنی غلط استعمارانہ پالیسیوں اور افغانستان کی نااہل اور ناکام حکومت کی مفادپرست شخصیات کی وجہ سے ان حالات کا شکار ہوگئے ہیں ۔ آج عوام پھر طالبان کو خوش آمدید کی صدائیں دے رہے ہیں ۔ اپنا مستقبل ان سے وابستہ کررہے ہیں ۔ موجودہ حکومت کی بجائے طالبان کی عدالتوں اور نظام انصاف کوپسند کرتے ہیں اور انہیں ترجیح دیتے ہیں ۔ طالبان نے اگر کچھ غلطیاں کیں تو بعد میں عوام کے ساتھ مل کر اپنی غلطیوں کا ازالہ بھی اچھے طریقے سے کیا ۔ ان کے دل جیت لیے ۔ یہ ان کی بہت کامیاب پالیسی تھی ۔ مگر اس کے مقابلے میں کابل حکومت نے بالکل برعکس کام کیا ۔ اپنی گذشتہ ساری غلطیاں نئے جرائم کے ساتھ مزیدسنگین بنادیں ۔ اکثر اوقات عوام سے وہی سلوک روا رکھا جو وہ طالبان کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ نرمی اور حکمت سے کام لیا جاتا انہوں نے طاقت کی زبان استعمال کی ۔ مگر طاقت کبھی تعمیر نہیں کرتی ۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے ہر کونے میں مخالفتیں اٹھیں ۔ بہت سے عام لوگ انتقام لینے کے لیے طالبان کی صفوں میں داخل ہوگئے تاکہ ان بدچلن ، نااہل اور ظالم حکام سے اپنا بدلہ لے سکیں ۔ جنہوں نے ان کے عزیز واقارب کو شہید کیا اور ان کے گھروں پر بمباریاں کیں ۔

طالبان نے اسی فرصت اور موقع کو غنیمت سمجھا اور خود کو عوام کی حمایت یافتہ ایک مضبوط قوت کے طورپر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ ہر صوبے میں اپنا وجود ثابت کردیا ۔ لوگوں کے علاقائی مسائل کے حل کے لیے عدالتیں قائم کیں اور یہ عدالتیں عدل وانصاف سے مزین کردیں ۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے دل ان کی جانب مائل ہوگئے ۔

آج ذرائع ابلاغ پر باربار یہ باتیں پھیلائی جاتی ہیں کہ طالبان ملک کے 70 یا 80 فیصد علاقے پر کنٹرول اور اثر ورسوخ رکھتے ہیں یا 60 فیصد علاقے پر ان کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ کیا جانے والا غیر منصفانہ سلوک ہے ۔ اگر حکومت ہر افغان باشندے کو اپنا حق عدل وانصاف کے ساتھ تول کر دیتی آج یہ حالت نہ ہوتی ۔ جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں کیوں کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔

قومی یکجہتی کی بنیاد پر بننے والی مشترکہ حکومت کو ابھی ایک سال پورا ہونے کو ہے مگر حکام ابھی تک ان مسائل میں غلطاں وپیچاں ہیں جو اس حکومت کے آغاز ہی میں حل ہوجانے چاہیے تھے ۔سب کچھ ناکامی کی جانب جارہا ہے ۔ کوئی بھی شخص رات کو سوتے وقت اگلی صبح کی امید لگا کر نہیں سوتا، کیوں ایسی حکومت کے ہوتے ہوئے نئی صبح کے خواب دیکھنا فضول ہے ۔ حالات اور وقت خود بخود طالبان کی پھر آمد اور ان کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کررہے ہیں ۔ ہر صوبے میں حکومت کی جگہ طالبان کے پرچم لہرارہے ہیں ۔ ہر مظاہرے اور ریلی میں طالبان کے حق میں نعرے بلند کیے جاتے ہیں ۔ کابل اور کچھ دیگر صوبوں کے علاوہ ملک کے تمام علاقوں میں لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں ۔ ایک برسر اقتدار حکومت کے ہوتے ہوئے کسی اور کی حکومت ، انہی کے فیصلے ، انہی کی عدالتیں اور انہی کی حکمرانی ، یہ سب اس بات کے مظاہر ہیں کہ یہ حکومت ملک میں چند راتوں کی مہمان ہے جو بہت جلدیہاں سے کوچ کرجائے گی ۔ان شاء اللہ

اگرچہ کچھ لوگ اپنی کج فہمی ،غلط فہمی یاغیروں کے غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے طالبان کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتے لیکن مخالفت کی یہ سطح دن بدن کم ہوتی جارہی ہے ۔ لوگوں کے طالبان مخالف جذبات دن بدن ختم ہورہے ہیں ۔ اور قریب ہے ایک بارپھر گذشتہ کی طرح یہ طالبان سے مانوس ہوجائیں گے ۔ اگر چہ اس میں وقت لگے گا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہوگا کیوں کہ حالات کا یہی تقاضا ہے ۔